محمد عباس دھالیوال: پٹرولیم ذخائر والے ممالک اور بھارت و روس تعلقات

0

محمد عباس دھالیوال

پٹرولیم مصنوعات جو کہ آج کی زندگی کا ایک اہم و ضروری حصہ بن چکی ہیں دراصل آج کے عیش و آرام والی زندگی کا ان کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
پٹرولیم جس کے لیے اردو میں بکثرت لفظ صرف تیل یا خام تیل کا استعمال ہوتا ہے. پٹرول جو کہ ایک قدرتی مادہ ہے یہ آتشگیر ہوتا ہے۔ یہ مائع کی صورت میں زیرزمین چٹانوں سے برآمد ہوتا ہے۔ کیمیائی ساخت میں نفط ایک قسم کا آمیزہ ہے. قابل ذکر ہے کہ انگریزی میں لفظ petroleum کو سب سے پہلے 1546 میں ایک جرمن معدنیات داں Georg Agricola نے استعمال کیا تھا۔
متحدہ امریکہ میں پیٹرول کو گیس کہا جاتا ہے جو لفظ گیسولین (gasoline) کا مخفف ہے اور اس گیس سے مراد سی این جی یا ایل پی جی نہیں ہے۔
دنیا میں تیل کے ذخائر والے ممالک کی اگر فی ارب بیرل کے حصاب سے بات کریں تو 1، وینزویلا ارب بیرل 300,878، 2 سعودی عرب 266,455، 3کینیڈا 169,709، 4 ایران 158,400 5 . عراق 142,503، 6 کویت 101,500، 7 متحدہ عرب امارات 97,800، 8 روس 80,000، 9 لیبیا 48,363، 10 ریاستہائے متحدہ 39,230 میں پیداوار ہوتی ہے.
اس ضمن میں اگر بات ہندوستان کی کریں تو ہمارا ملک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک سے پٹرولیم مصنوعات حاصل کرتا ہے. گزشتہ مہینوں کے دوران جب سے روس و یوکرین کے درمیان جنگ چھڑی ہے تب سے روس پہ دبا بنانے کے لیے کئی طرح کی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں. ان میں روس کی پٹرولیم مصنوعات بھی شامل ہیں. لیکن ہندوستان بدستور روس سے تیل خریدتا چلا آ رہا ہے.
گزشتہ دنوں ایک بار پھر سے ہندوستانی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ بھارت روس سے تیل کی خرید کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ کیونکہ یہ ان کے ملک کے مفاد میں ہے۔ اور یہ کہ دونوں ممالک اپنے تجارتی تعلقات وسیع کر رہے ہیں۔ دراصل یہ بات جے شنکر نے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہی۔ اس سال دونوں ملکوں کے درمیان وزرا خارجہ کی یہ پانچویں میٹنگ ہوئی ہے. بھارتی وزیرِ خارجہ روس کے دورے پر تھے جو کہ فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس کا ان کا پہلا دورہ ہے۔
دراصل جے شنکر کا روس کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکی وزیرِ خزانہ جینٹ ییلن اس ہفتے نئی دہلی کے دورے میں بھارتی عہدیداروں سے بات چیت کرنے والی ہیں جس میں روسی تیل کی قیمتوں پر حد قائم کرنا بھی شامل ہوگا۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ چین کے بعد بھارت روس سے تیل خریدنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے جبکہ اس کی ریفائنریز تیل کی اس کم قیمت ترسیل سے فائدہ اٹھا رہی ہیں جنہیں مغرب نے مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کی تیل کی کل درآمدات میں روس سے تیل کی درآمدات ستمبر میں 23 فیصد تک پہنچ گئیں جبکہ یوکرین پر روس کے حملے سے پہلے یہ محض صرف 2 فیصدی تھیں ۔
یہاں بتاتے چلیں کہ روس کے دورے میں جے شنکر کے ساتھ سینئیر عہدیداروں میں زراعت، پیٹرولیم، قدرتی گیس، بندرگاہوں اور جہازرانی، خزانہ، کیمیکلز اور تجارت کے عہدیدار شامل رہے جو کہ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی عکاسی ہے کہ بھارت کے روس سے تعلقات کتنے اہم ہیں۔ ڈالر سے پیش آنے والی مشکلات کے بعد دونوں ملک باہم روبل اور روپے میں تجارت کو توسیع دینے کے لیے آمادہ ہیں۔
روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ہندوستانی وزیرِخارجہ جے شنکر نے کہا،” روس ایک دیرینہ اور آزمودہ رفیق ہے۔ ہمارے عشروں کے تعلقات کا کوئی بھی غیر جانبدار جائزہ یہ تصدیق کرے گا کہ اس سے دونوں ملکوں کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔”
تاہم رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق گروپ آف سیون کی جانب سے روسی تیل کی قیمتوں پر روک لگانے کے منصوبے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں جے شنکر نے کہا کہ دنیا میں تیل اور گیس کی کھپت کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہونے کے باعث، جہاں آمدنی کی سطح زیادہ بلند نہیں ہے، ان کے ملک کو اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا، “اس لحاظ سے دیکھیں تو ایمانداری کی بات یہ ہے کہ بھارت۔ روس تعلقات ہمارے فائدے میں رہے ہیں۔ اور اگر کچھ میرے فائدے میں ہو تو میں اسے جاری رکھوں گا۔”
یہاں قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے یو کرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی ہے تاہم امن اورمذاکرات کے لیے کہا ہے۔ جے شنکر نے بھی بھارت کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کرے گا جو عالمی معیشت اور عالمی امن کو خطرے سے آزاد کرتا ہو۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے روس بھارت کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ بھارتی فارما سیوٹیکل اشیا کی چوتھی بڑی مارکیٹ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وزیرِ خارجہ جے شنکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں توازن کے لیے بھارت کو روس کے لیے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS