شاہد زبیری: مولانا آزاد کے افکا رو نظریات کی عصری معنویت

0

شاہدزبیری

مولانا ابوالکلام آزادؒ کی پرورش سخت مذہبی اور تقلیدی ماحول اور تقلیدی گھرانہ میں ہوئی لیکن افکارو نظریا ت اور خیالات اجتہادی تھے ،مذہب ا ور زبان و ادب پر عبو رتھا، وزیرِ ِتعلیم کی حیثیت سے بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا سیاست اورصحافت کا گہرا شعور رکھتے تھے،موسیقی کا لطف اُٹھاتے اور جیسمین چائے کا مزہ لیتے تھے اسی کیساتھ زنداں کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، ہندوستان کی سالیمیت اور بقاء ،ترقی اور خوشحالی کیلئے متحدہ قومیت کو ضروری جانا اور قومی یکجہتی کو فرقہ پرستی کے امراض کا نسخئہ شِفا سمجھا اور اسپر تاحیات ڈٹے رہے ،قول کے بھی دھنی تھے اور قلم کے بھی دھنی ،زندگی بھر کی انکی کمائی سر مایہ اعلانِ حق ،خسارہ اپنوں بیگا نوںکی خفگی اور نا راضگی ،مسلمان ہو نے کے فخر کیساتھ ہندوستانی ہونے پر بھی ناز ،مخالفین نے اسکو انکی زندگی کا تضاد مانا اور ہمدردوں اور حقیقت پسندوں نے انکی حیات کی نیرنگیاں خیال کیا ،زاہدِ تنگ نظر نے انہیں کافر جا نا اور کافر نے مسلمان سمجھا ،لیکن نہ مئوقف تبدیل کیا اور نہ اصول بدلا۔
جن میدانوں میں انہوںجھنڈے گاڑے ان میدانوں میںدوسرا کوئی انکا مدِّ مقابل نہ تھا نہ ہے۔ مولانا آزادؒ کا اگر کوئی بڑا قصور تھا تو یہ کہ وہ متحدہ قومیت کے حامی ہی نہیں داعی بھی تھے یہ نظریہ ہی فرقہ پرست ہندوئوں اور فرقہ پرست مسلمانوں کی آنکھ کا کانا تھا اور آج بھی ہے لیکن جھٹلانے سے حقیقتیں نہیں بدلتی مولا نا آزاد کے متحدہ قومیت کے نظریہ کی حقّا نیت آج بھی ہے اور کل بھی تھی اسی نظریہ پر وہ تاحیات قائم رہے اور ببانگِ دہل کہا کہ “میں مسلمان ہوں اور فخر کیساتھ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں ،اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے حصّہ میں آئی ہیں ،میں تیّار نہیں کہ اسکا چھوٹے سے چھوٹا حصّہ بھی ضائع ہونے دوںاسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ ،اسلام کے علوم وفنون،اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہیکہ اسکی حفاظت کروں ،بحیثیت مسلمان ہو نے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میںاپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اسمیں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کیساتھ میں ایک اور بھی احساس رکھتا ہوںجسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی وہ میری اس راہ میں میں راہنمائی کرتی ہے ،میں فخر کیساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں،میںایک ناقابلِ تقسیم متحدہ قو میت کا ایک عنصر ہوں ،میں اس متحدہ قومیت کاایک ایسا اہم عنصر ہوںجسکے بغیر اسکی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ،میں اسکی تکوین(بناوٹ) کا ایک نا گزیر عامل ہوں ،میں اس دعویٰ سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتا ۔
( خطبۂ صدارت انڈین نیشنل کانگریس اجلاس رام گڑھ مارچ 1940)”
آزادؒمرتے دم تک اپنے اس دعویٰ سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔انہوں نے دو ٹوک کہا کہ ــ”ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنی تعمیر سامانیوں سے بھردیا ہے ،ہماری زبانیں ،ہماری شاعری،ہمارا ادب ،ہماری معاشرت،، ہمارا ذوق،ہمارا لباس،ہمارے رسم ورواج ،ہماری روزآنہ کی زندگی کی بیشمار حقیقتیں،کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں جسپر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگی ہو ،ہماری بولیاں الگ الگ تھیں مگر ہم ایک زبان بو لنے لگے ،ہمارے رسم ورواج ایک دوسرے سے بیگا نہ تھے مگر انہوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کیا ہمارا پُرانا لباس تاریخ کی پُرانی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے مگر اب وہ ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا ،یہ سب مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے اور ہم اسے چھوڑکر اس زمانے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے جب ہماری یہ ملی جلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی ۔آزادؒصاف صاف ہندو اور مسلم فرقہ پرستوں کو اپنا مخاطب بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ہم میں اگر ایسے ہندو دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس پہلے کی ہندو زندگی واپس لائیں تو انہیں معلوم ہو نا چاہئے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں ،اسی طرح اگر ایسے دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی گذری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں جو ایک ہزار برس پہلے ایران پھر وسط ایشیاء سے لائے تھے تو میں ان سے کہوں گا کہ وہ اس خواب سے جلد بیدار ہوجائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ غیر قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سر زمین میں ایسے خیالات اُگ نہیں سکتے ــ” آزاد کاہندو مسلم اتحاد اور متحدہ قومیت کے تصور اور نظریہ پر اس پر استقامت کا یہ حال تھا کہ دسمبر 1923کو دہلی میں انکی ایک تقریر کا یہ ٹکرا آج بھی حوالوں کی زینت بنتا ہیکہ “اگرایک فرشتہ آسما ن کی بدلیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہوکراعلان کرے کہ سوراج چوبیس گھنٹہ کے اندر مل سکتا ہے۔
بشرطِ کہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سوراج سے دستبردار ہو جائوں گا کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہو گا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ انسانیت کا نقصان ہے” مسلم لیگ اور اس وقت کی جماعتِ اسلامی مولانا آزادؒ کو ہندو کانگریس کا مسلمان صدر مانتی تھی اور جناح کی نظر میں وہ کانگریس کے شو بوائے تھے اس لئے یہ جماعتیں یا انکے لیڈر انکے اس نظریہ کو کیوں مانتے افسوس تو یہ ہیکہ کانگریس میں بھی ایسے لیڈروں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے زبان سے ہاں کہی ہو تو کہی ہو لیکن عملاًً انہوں نے بھی آزادؒ کے اس نظریہ سے انحراف کیا۔آزاد کو آخری امید گاندھی جی سے تھی لیکن تاریخ نے ایسا موڑ لیا کہ گاندھی نے بھی دو قومی نظریہ کے آگے ہتھیار ڈالدئے اور لیگ کے مطا لبئہ پاکستان کو تسلیم کرلیا اور اور پاکستان وجود میں آگیا ۔لیکن آزادؒ آخر تک متحدہ قومیت کے نظریہ پر استقامت کیساتھ کھڑے رہے ۔
آزادؒ کو کانگریس سے ہی نہیں مسلمانوں سے بھی شکوہ تھا انہوں نے بھی آزادؒ کی بات پر کان نہیں دھرے اور بحیثیتِ مجموعی ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور مسلمانوں کی اجتماعیت دو ٹکڑو ں میںبکھر گئی قیادت نے بھی مستقبل کو سامنے رکھ کر کوئی مشترکہ فیصلہ نہیں کیا اور مسلم لیگ سے تعلق رکنے والے مسلمانوں نے مولانا آزاد کیساتھ جو سلوک کیا وہ تو کوئی دشمنوں کیساتھ بھی نہیں کرتا ۔انکی جامع مسجددہلی میں 1948 کی تقریر انکے دکھے دل کی پُر سوز صدا ہے وہ مسلمانوں کے اس مجمع سے خطاب کرتے ہیں جس نے جامع مسجد میں پناہ لے رکھی تھی اور پاکستان کیلئے بستر باندھ لیا تھا آزاد ؒ نے دہلی کی شاہجہا نی مسجد کے ممبر سے دکھی دل سے مسلمانوں کے اس اجتماع سے شکوہ کیا کہ “تمہیں یاد ہے ! میں نے تمہیں پکارا تم نے میری زبان کاٹ لی،میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کردئے ،میں چلنا چاہا تم نے پائوں کاٹ دئے، میں نے کروٹ لینی چاہی تم نے میری کمر توڑدی ،حتّیٰ کہ پچھلے سات کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں داغِ جُدائی دے گئی ہے اس کے شباب میں ہی میں تمہیں خطرے کی شاہراپر جھنجھو ڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیابلکہ غفلت و انکار کی تمام سنّتیں تازہ کردیں۔
آزادؒ نے اس سے پہلے لاہور میں 23مارچ 1942میں مسلمانوں کو انکی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے کہا تھا کہ “میرے نزدیک ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت اقلیت کی نہیںبلکہ دوسری بڑی اکثریت کی ہے اور یہ اکثریت ہندوستان کی قسمت کے تمام سیاسی و اقتصادی و تمدنی فیصلوں میں برابر کی حقدار اور حصّہ دارہے ،پس میری جگہ کمزوری اور تذبذب کی نہیں بلکہ یقین اور ایمان کی ہے لیکن اگر اتنی بڑی تعداد یعنی دس کروڑ ہوتے ہوئے بھی تم یہ خیال کرتے ہو کہ فنا ہو جائو گے ،مٹ جائو گے ۔۔تو اسکا کیا علاج کی دس کروڑ لاشوں کو کوئی تحفظ اور کوئی دستور نہہں بچا سکتا۔
( مولا نا ابولکلام آزادؒ عبدالودود خان)
اس اقتباس کی روشنی میں اگر آج کے 30 کروڑ ہندوستانی مسلمان اپنا جائزہ لیں تو انکے لئے اسمیں ایک بڑا درس ہے ۔آج ملک کے ہندو اور مسلمانوں میں جو خلیج پاٹی جا رہی ہے اور متحدہ قومیت کے نظریہ کی دھجیاں جسطرح اڑائی جا رہی ہیں وہ نہ ہندو اور مسلمانوں کے حق میں ہے اور نہ ملک کے مفاد میں ہے ۔دونوں کو مولانا آزاد ؒ کی یہ بات پلّے باندھ لینی چاہئے کہ نہ ہزار برس پہلے کی ہندو زندگی واپس لائی جا سکتی ہے اور جو لوگ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسطِ ایشیا سے جو تہذیب و معاشرت لیکر آئے تھے نہ وہ پھر تازہ ہوسکتی ہے مولانا آزادؒ کے الفاظ میں وہ اس خواب سے جلد بیدار ہو جائیں ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS