اروند کمار
گزشتہ جمعہ کو تینوں زرعی قوانین کی واپسی کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی نے یہ بھی اعلان کیا کہ ان کی حکومت منیمم سپورٹ پرائس(ایم ایس پی) کو اور زیادہ شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کرنے جارہی ہے۔ تحریک کرنے والی کسان تنظیموں کے اہم مطالبات میں ایک ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی بھی رہی ہے۔ ابھی ایگریکلچرل کاسٹس اینڈ پرائسیز کمیشن(Agricultural Costs and Prices Commission)کی سفارش پر حکومت 23فصلوں کے لیے ایم ایس پی کا اعلان کرتی ہے، جن میں 7اناج(دھان، گیہوں، مکئی، جوار، باجرا، جو اور راگی)، پانچ دالیں(چنا، ارہر، اُڑد، مونگ اور مسور)، سات تلہن(مونگ پھلی، ریپ سیڈ-سرسوں، سویابین، تل، سورج مکھی، زعفران اور نائجرکے بیج) اور چار نقدی(گنا، کپاس، جوٹ اور ناریل) فصلیں ہیں۔ پھل، سبزیاں یا مویشیوں سے ملنے والے دودھ جیسی مصنوعات ان میں شامل نہیں ہیں۔ ایسے میں، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی میں کس قدر کے چیلنجز سامنے آئیں گے؟
حکومت ایم ایس پی کا اعلان اس لیے کرتی ہے، تاکہ کسانوں سے ان کی مصنوعات کی اعلان کردہ قیمتوں سے کم میں نہیں خریدی جائیں۔ مگر دھان اور گیہوں کو چھوڑ دیں تو باقی فصلوں کی مارکیٹ ویلیو ایم ایس پی سے زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے کسان ان فصلوں کو شاید ہی ایم ایس پی پر فروخت کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں 2015کی شانتا کمار کمیٹی کی اس رپورٹ کو بھی یاد کرلینا چاہیے، جس میں کہا گیا تھا کہ پورے ملک میں صرف 6فیصد کسان ایم ایس پی کا فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر وہی کسان ہیں، جو دھان اور گیہوں کی پیداوار کرتے ہیں۔ ابھی کی تحریک بھی عموماً انہی کسانوں کی ہے۔
اگر ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دے دی گئی، تب بھی گوداموں میں ان اناجوں(گیہوں اور چاول) کی کتنی بربادی ہوتی ہے، یہ کوئی پوشیدہ حقیقت نہیں ہے۔ بیشک، کورونا انفیکشن کے دور میں 84کروڑ آبادی کو غذا فراہم کرنے کے لیے حکومت نے جو اناج تقسیم کیا، وہ سرکاری خرید سے ہی ممکن ہوسکا، لیکن اگر فصلوں کی گارنٹی ملنے کے بعد بھی ضرورت نہیں پڑی تو ان کو خریدے گا کون؟ یہ پوری طرح سے ڈیمانڈ اور سپلائی سے منسلک مسئلہ ہے۔ حکومت بھی ایک حد تک ہی فصل خرید سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کسانوں کو بازار میں ان کی فصل کی بہتر قیمت کیسے مل سکے؟
ہماری کوشش کسانوں کو فصل پر کم سے کم نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ قیمت دینے کی ہونی چاہیے۔ پورے ملک میں یکساں ایم ایس پی اس لیے بھی عملی نہیں ہے، کیوں کہ الگ الگ علاقوں میں کسانوں کی لاگت الگ الگ ہے۔ کہیں کھیتی کے مطابق ماحول ہے تو کہیں منفی۔ جغرافیائی حالات بھی الگ الگ ہیں۔ زراعت چوں کہ ریاست کا موضوع ہے، اس لیے اس پر مرکز اپنے تئیں ہدایات جاری نہیں کرسکتا۔ اسے ریاستوں سے صلاح مشورہ کرنا ہوگا۔ لہٰذا، فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن(ایف پی او) کو مضبوط کرنے کا خیال ہی خوش کن ہے۔ مرکزی حکومت نے 10ہزار نئی ایف پی او کی تشکیل کی بات کہی ہے اور اس کے لیے 6,865کروڑ روپے کا بجٹ فراہم کیا ہے۔ ہمیں اسی طرح کی پالیسی بنانی ہوگی، تاکہ یہ طے کرسکیں کہ کس علاقہ میں کون سی فصل پیدا کی جائے گی، ان کی کتنی پیداوار ہوگی، کہاں ان کی پروسیسنگ کریں گے، کہاں کھپت ہوگی وغیرہ۔ اس کے لیے پالیسی کے محاذ پر کافی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کوئی تاجر نہیں ہے، وہ سہولت دینے والی ایجنسی ہے۔ وہ کھیتی-کسانی/کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کرسکتی ہے، کسانوں سے لین دین نہیں کرسکتی۔ یہ کام ایف پی او کے ذریعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کوئی سسٹم ہی مناسب ہے، جس میں کسان اپنی فصل اپنے حساب سے فروخت کرسکیں۔ وہ سرکاری خرید کے محتاج نہ رہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کتنی ریاستیں گیہوں-چاول پیدا کرتی ہیں؟ اور پھر، جب چوطرفہ اعلیٰ درجہ کی زراعت کی وکالت کی جاتی ہے، تب ہم ایسی فصل کیوں اُگائیں، جن میں پانی کی زیادہ ضرورت ہو؟ آج کئی ملک دھان سے اس لیے توبہ کرچکے ہیں، کیوں کہ اس کو بہتر پیداوار کے لیے ڈھیرسارا پانی چاہیے۔ ہمیں بھی کچھ ایسا ہی سوچنا چاہیے۔
آج ضرورت کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کی ہے۔ ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دے دی گئی تو فائدہ کچھ کسانوں کو ہی مل سکے گا۔ باقی منھ دیکھتے رہ جائیں گے۔ اسی لیے ایف پی او کو مضبوط بنانا ہی ہوگا۔ حکومتیں سہولتیں دے سکتی ہیں، پالیسیاں بناسکتی ہیں، اسٹارٹ اپ شروع کرسکتی ہیں، لیکن ان سہولتوں کا فائدہ کسان کس قدر اپنے مفاد میں اُٹھاسکتے ہیں، یہ ایف پی او کے ذریعہ آسانی سے ہوسکتا ہے۔ ’آتم نربھر بھارت‘ کی طرح ہمیں ’آتم نربھر کرشی‘(خودکفیل زراعت) کی طرف بڑھنا ہوگا۔ بازار اور پروسیسنگ ایریا کو ہمیں مضبوط بنانا ہوگا۔ فصلوں کے معیار کو بہتر کرنا ہوگا۔ تبھی کسانوں کو اپنے کھیت میں ہی فصلوں کی بہتر قیمتیں مل سکتی ہیں۔ اس سے ان کی آمدنی میں خودبخود اضافہ ہوجائے گا۔
جب حالات مناسب نہ ہوں اور چھوٹے و معمولی کسانوں کی تعداد 86فیصد ہو، تب تو ایسی کوششیں جلد کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہی ہوگا کہ چھوٹے و معمولی کسانوں کی پیداوار اتنی نہیں ہوتی کہ وہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا(ایف سی آئی) کے بھروسے فصلوں کی خرید کے لیے رکے رہیں۔ وہ مقامی بازار میں ہی اپنی فصل فروخت کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کو فوراً پیسے مل جائیں۔ یہیں پر آڑھتی جیسا سسٹم کسانوں کا استحصال کرتا ہے۔ یہ لوگ اونے پونے داموں پر کسانوں سے فصل خریدتے ہیں اور اس کو اونچے منافع پر بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ ہماری یہی کوشش ہونی چاہیے کہ چھوٹے اور معمولی کسان مقامی بازار میں بھی اگر جاتے ہیں تو انہیں اپنی فصلوں کی واجب قیمت ملے۔ کاروباری رکاوٹیں جلد سے جلد ختم ہوں۔ ان کی ایسی کوئی تنظیم ہونی ہی چاہیے، جو ان کے استحصال کو روک سکے۔ اسی لیے ہمارے ملک کے کسانوں کی خوشحالی محض ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی سے ممکن نہیں۔ اس کا فائدہ کچھ ایک کسان ہی اٹھا پائیں گے۔ پورے کسان معاشرہ کی بہتری کے لیے ہمیں کئی دوسری کوششیں کرنی ہوںگی۔
(مضمون نگار آر ایل بی سینٹرل ایگریکلچرل یونیورسٹی
کے وائس چانسلرہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)