ایم ایس پی گارنٹی کا وعدہ

0

فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پرفیصلہ اور قانون سازی میں حکومت کے تاخیری حربہ سے پریشان کسان ایک بار پھر تحریک شروع کرنے والے ہیں ۔ آئندہ 6ستمبرکو دہلی میں کسانوں کا ایک بڑا جلسہ ہونے والا جس میں کسان مورچہ تحریک کی حکمت عملی طے کرے گا۔اس سے قبل22اگست کو کسان دہلی کے جنتر منترپر بھی اکٹھا ہوئے تھے اور ملک بھر کے کسانوں سے احتجاج میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ کسانوں کا تیور دیکھ کر لگ رہاہے کہ اگرا یم ایس پی پر حکومت نے جلد ہی کوئی فیصلہ نہیں کیاتو یہ تحریک ز ور پکڑے گی اور زرعی قوانین کے خلاف ہونے والی تحریک کی شکل بھی لے سکتی ہے۔ یہ نوبت آنے سے پہلے حکومت کو ایم ایس پی کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرناچاہئے کیوں کہ خود وزیراعظم نریندر مودی نے 19 نومبر 2021 کو تینوں متنازع زرعی قوانین واپس لئے جانے کا اعلان کرتے ہوئے کسانوں کو فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے متعلق یقین دہانی کرائی تھی ۔ وزیراعظم نے اس وقت کہاتھا کہ صفر بجٹ پر مبنی زراعت کو فروغ دینے‘ ملک کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق کاشتکاری کے طریقوں کو تبدیل کرنے اور کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو زیادہ موثر اور شفاف بنانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اس کمیٹی میں مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں، کسانوں کے ساتھ ساتھ زرعی سائنسدان اور زرعی اقتصادیات کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
راتوں رات قانون بنانے کا منفرد ریکارڈرکھنے والی مود ی حکومت کمیٹی کی تشکیل میں پس وپیش سے کام لیتی رہی ہے اور 8 ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد18جولائی2022میں ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی گئی جس سے کسان مطمئن نہیں ہوسکے ۔اس کمیٹی نے بھی ایک مہینہ تک کوئی میٹنگ ہی نہیں بلائی ۔ جس دن22اگست کو دہلی کے جنتر منتر پر کسان جمع ہونے والے تھے اسی دن اس سرکاری کمیٹی نے اپنی میٹنگ رکھی یہ جانتے ہوئے بھی کسان اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوں گے کیوں کہ کسان اول تو10دن پہلے ہی 22اگست کو احتجاج کااعلان کرچکے تھے اور دوئم یہ کہ اس کمیٹی کے پینل سے بھی وہ مطمئن نہیں ہیں ۔ سابق زراعت سکریٹری سنجے اگروال کی سربراہی میں قائم ہونے والی اس 26رکنی کمیٹی کے پینل پر کسانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خود کواس سے الگ رکھاہے۔کسانوں کے بغیر کمیٹی کی میٹنگ کا کوئی مطلب بھی نہیں تھا لیکن کمیٹی نے میٹنگ بلائی اور کوئی فیصلہ لینے کی بجائے ’ مسائل‘ کاجائزہ لینے کیلئے اگلے دن چار سب کمیٹیاں بنادیں۔حالانکہ مسئلہ صرف ایک ہے، ایم ایس پی گارنٹی قانون لیکن حکومت کی بنائی ہوئی یہ کمیٹی بھی معاملات کو الجھانے اور اسے موخر کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے ورنہ سب کمیٹیوں کیلئے فصلوں کے پیٹرن اور ان کے تنوع کے مطالعہ کا طویل ٹاسک نہیں طے کیاجاتا۔
ایسا لگتا ہے کہ ایم ایس پی کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے ۔ایم ایس پی کو کسانوں کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے حکومت اسے طول دے کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو تاخیری حربے اور ٹال مٹول کا رویہ نہیں اپنایاجاتاہے۔
ایم ایس پی کسانوں کیلئے حکومت کی کوئی مہربانی نہیں ہے کیوںکہ یہ رقم کسانوں کی لاگت رقم سے فقط ڈیڑھ گنا ہی ہوتی ہے ۔ اس سے کسانوں کویہ اطمینان رہتا ہے کہ ان کی فصل بکنے کے بعدا ن کے ہاتھ میں اتنی رقم آئے گی اور اس سے وہ اپنا قرض اتار کر اگلی فصل کی تیاری کرسکیں گے ۔آج ملک میں اناج کے ذخیرہ کی جو صورتحال وہ سب کے سامنے ہے بھلے ہی حکومت اور وزیراعظم پوری دنیا کو کھلانے کی بات کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خوراک کی قلت کے معاملے میں ہندستان کی رینکنگ عالمی سطح پر102ہے ۔ اس صورتحال کی ذمہ دارناقص نظام تقسیم اور اناج کی کمی ہے ۔اس کمی کو ایم ایس پی گارنٹی قانون بناکر دور کیاجاسکتا ہے۔ کسانوں کو ان کی پیدوار کی قیمت ملنے کا یقین ہو توہ وہ زیادہ سے زیادہ اناج پیدا کرکے ملکی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں ۔ نیز خود وزیراعظم نے بھی ایم ایس پی یقینی بنانے کا وعدہ کررکھاہے۔ایسے میںایم ایس پی کو سیاسی مسئلہ بناکراسے الجھانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ اس مسئلہ کو یکسو کیاجائے ۔اگرا یسانہیں ہوا تو عین ممکن ہے کہ دہلی میں کسان تحریک دوبارہ شروع ہوجائے ۔ویسے بھی ایم ایس پی گارنٹی کا وعدہ پوراکئے بغیر2024کا انتخاب مرکز کی بھارتیہ جنتاپارٹی حکومت کیلئے مشکل ہوگاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS