محمد فاروق اعظمی
طاقت اور اقتدار کے نشہ میں چور حکمراں جماعت مخالف آواز کا گلا گھونٹنے کیلئے کس حد تک جاسکتی ہے اس کا اندازہ لکھیم پور کھیری میںہونے والے بے رحمانہ واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔جہاں مرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرانے بربریت کی انتہا کرتے ہوئے دھرنا پر بیٹھے کسانوں پر گاڑی چڑھادی جس کے نتیجہ میں چار کسان ہلاک ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ کسان اترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرشاد موریہ کے لکھیم پور کھیری کے ایک گاؤں کے دورے کے خلاف احتجاج کررہے تھے لیکن نائب وزیرکے قافلہ میں شامل آشیش مشرا اور ان کے ساتھیوں نے دو ایس یو وی گاڑی کسانوں پر چڑھادی اورچار کسانوں کو کچلتے ہوئے آگے بڑھتی گئی۔اس وحشیانہ واقعہ سے کسان مشتعل ہوگئے اور پھردھرنا گاہ پر ہنگامہ شروع ہوگیا۔اس واقعہ میں اب تک 9افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ظالمانہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے کسانوںکے ساتھ حکومت کا سلوک کیا ہے یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔اس تحریک کو دبانے اور کچلنے کیلئے گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت نے ہرحربہ استعمال کرکے دیکھ لیا ہے، کبھی انتظامی ہتھیاروں کے ذریعہ کسانوں کے احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی کسان تحریک کے لیڈروں کو ملک دشمن بتاکر ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ تحریک کو کمزور کرنے کیلئے الگ سے کسانوں کی تنظیم بنائی گئی۔مسلسل تھکادینے والے لاحاصل مذاکرات میں کسانوں کو الجھایاگیا۔کبھی نام نہاد’ ٹول کٹ‘کا شوشہ چھوڑ کر کسانوں اور ان کے رہنمائوں کو ملک دشمن تک قرار دے دیاگیا۔ لیکن کسان اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
جن زرعی قوانین کے خلاف کسان سراپا احتجاج ہیں دیکھاجائے تو وہ صرف کسانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے ہر شہری کا مسئلہ ہے۔ مرکزی حکومت کسانوں اور عام ہندوستانی کو بھوکا مار کر ملک کی تمام زراعت بطور تحفہ اپنے سرمایہ کار دوستوں کودینے کیلئے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔سفاک سرمایہ کارا پنی دولت میں اضافہ کیلئے کسانوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور حکومت ان کی پشت پر کھڑی ہے۔حکومت کو اپنے سرمایہ دارمالکان کی خوشنودی اتنی عزیزہے کہ اس نے بل پارلیمنٹ سے منظور ہونے سے قبل ہی اسے آرڈی نینس کی شکل میں جاری کرکے نافذ کردیاتھا۔ پھر تینوں زرعی بلوں کو انتہائی عجلت میں بغیر کسی بحث و مباحثہ کے پارلیمنٹ سے پاس کراکر قانون کی شکل دے دی گئی۔مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اصلاحات ہیں اور ملک کو طویل عرصہ سے اس کاانتظار تھا۔لیکن سوال یہ ہے کہ جن قوانین کو حکومت دوررس اصلاحات کا نقیب سمجھ رہی ہے، کیا ان پر بحث کیا جانا ضروری نہیں تھاتو پھراس پر بحث کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟چونکہ حکمرا ں جماعت کو اکثریت حاصل ہے، اس لیے وہ فریقین کی مرضی کے بغیر کوئی بھی کام کرسکتی ہے؟ آئین کے مطابق زراعت ایک ریاستی موضوع ہے، اس لیے اس معاملے میں متفقہ فیصلہ ہونا ضروری تھالیکن ایسا نہیں ہوا۔ آرڈیننس کی مخالفت پچھلے سال جون میں شروع ہوچکی تھی اور ستمبر 2020 میں تینوں قوانین کی منظوری کے دن سے اب تک بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرہ جاری ہے۔سردی، گرمی، برسات، سیلاب، پولیس اور حکومتی مظالم، نفرت انگیز مہم کے باوجود یہ تحریک کمزور نہیں پڑرہی ہے بلکہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی اور طاقت آتی جارہی ہے۔کسانوں کے عزم و استقلال میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور وہ حکومتی مظالم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔کسان یہ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ حکومت جن قوانین کو اصلاحات کا حامل بتارہی ہے وہ دراصل کسانوں اور مزدوروں کیلئے موت کے پروانہ سے کم نہیں ہیں۔ قوانین واپس لینے سے کم کسی چیز پر کسان راضی نہیں ہیں۔کسانوں کے اس موقف کو دنیا بھر کی حمایت بھی حاصل ہے۔
کسانوں کی تحریک درحقیقت حکومت اور سرمایہ داروں کے اسی مفادکے خلاف عوام کی جنگ ہے جسے کسان اپنا لہو دے کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔حکومت چاہتی ہے کہ کسی طرح سے یہ تحریک ختم ہو اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ لکھیم پوری کھیری کا بے رحمانہ واقعہ بھی حکومت کی اسی مذموم سوچ کا نتیجہ ہے لیکن ایسے واقعات کسان تحریک کو کمزور کرنے کے بجائے کسانوں کے عزم و استقلال میں ہی اضافہ کریں گے۔ یہ تحریک ہے جسے طاقت سے نہیں کچلاجا سکتا ہے۔
یہ قوانین بظاہر کسانوں کوا ن کی پیدوار فروخت کرنے کی آزادی دیتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا مقصد کسانوں کو سرمایہ داروں کا غلام بنانا ہے۔ پہلا قانون کسانوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی پیداوار منڈیوں کے احاطے کے باہر بھی فروخت کرنے کیلئے آزاد ہوں گے، دوسراقانون کسانوں کو براہ راست مذاکرات کرنے اور کارپوریٹ کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تیسرا قانون لازمی اشیا ایکٹ کی پابندیوں میں ڈھیر ساری نرمیوں کی تجویز لیے ہوئے ہے۔بظاہر یہ قوانین کسان دوست دکھائی دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ پورے ملک کی زراعت اور کاشتکاری کو سرمایہ داروں کی گود میں ڈالنے کا منصوبہ ہے۔ پہلے قانون کے مطابق اگر مقررہ منڈیوں سے باہر فصلوں اور پیداوار فروخت کی جانے لگیں گی تو حکومت کم از کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی )کے وعدہ سے منحرف ہونے کیلئے آزادہوگی کیوں کہ حکومت ایم ایس پی جاری رکھنے کی کوئی قانونی ضمانت دینے کو تیار نہیں ہے۔ منڈی کے باہر پیداوار فروخت کرنے کا جھانسہ دے کر حکومت ملک میں موجود تمام کسان منڈیوں کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنے سے بھی نہیں چوکے گی۔دوسرے قانون میں معاہدہ کی بنیاد پر کاشت کا معاملہ طے کیے جانے کی آزادی دی گئی ہے لیکن اس قانون کی رو سے معاہدہ کی خلاف ورزی کی صورت میں کسانوں کو عدالتوں کا سہارا لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اب یہ کون سی کسان دوستی اور اصلاح ہے کہ نزاع کی صورت میں کسان عدالت بھی نہیں جاسکتا ہے۔ ایک چھوٹا کسان ایک طاقتور اور بڑے کارپوریٹ سے پھر کس طرح اپنے حق کیلئے لڑے گا؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ ہاں یہ ضرورکہاگیا ہے کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی صورت میں کسان ضلع مجسٹریٹ سے مدد لے سکتا ہے۔ لیکن اس مدد کی حقیقت بھی دھوکہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ابھی حال کے دنوں میں احتجاج کرنے والے کسانوں کی کھوپڑی توڑنے کا حکم ایک ڈی ایم نے ہی دیاتھا۔پھر یہ چھوٹے اور کمزور کسان افسران اور بیوروکریسی پر کس طرح اعتبار کرسکتے ہیں۔اگر کسان کارپوریٹ کمپنیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے تو انہیں پیچیدہ اور اعصاب شکن بیوروکریٹک راستوں پر خوار کر دیا جائے گا۔ اور کسانوں کے پاس خودکشی کرنے یا مفلسی کو گلے لگائے رکھنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں بچے گا۔
تیسرا زرعی قانون تو کسانوں کے ساتھ ساتھ عام ہندوستانیوں کے منہ سے بھی نوالہ چھین لینے کی کوشش ہے۔اس قانون کے تحت سرمایہ داروںکو غذائی اجناس کے ذخیرہ اندوزی کی کھلی چھوٹ ہوگی۔ یعنی سرمایہ دارجب چاہیں گے اپنے گودام بھر لیں گے اور غذائی اجناس کی مصنوعی قلت پیداکرکے عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑ سکتے ہیں۔اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ مہنگائی کی موجودہ لہر میں اس ذخیرہ اندوزی کا بڑا ہاتھ ہے۔آلو اور پیاز جیسی بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی 40سے50روپے فی کلو کے حساب سے لوگ خریدنے پر مجبور ہیں۔اس تیسرے قانون کی رو سے ذخیرہ اندوزی کے بعد کھانے پینے کی چیزوں کے دام بڑھ جانے کی صورت میں بھی حکومت مداخلت نہیں کرے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ بڑے بڑے تاجر،سرمایہ کار اور آڑھتی ان کسان دشمن قوانین کا سہارا لے کر کسانوں کی فصلوں سے اپنے لیے دولت کے انبار اکٹھے کریں گے اور انہیں حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہوگی۔کسانوں کی یہ تحریک درحقیقت حکومت اور سرمایہ داروں کے اسی مفادکے خلاف عوام کی جنگ ہے جسے کسان اپنا لہو دے کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔حکومت چاہتی ہے کہ کسی طرح سے یہ تحریک ختم ہو اوراس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ لکھیم پوری کھیری کا دہشت گردانہ واقعہ بھی حکومت کی اسی مذموم سوچ کا نتیجہ ہے لیکن ایسے واقعات کسان تحریک کو کمزور کرنے کے بجائے کسانوں کے عزم و استقلال میں ہی اضافہ کریں گے۔یہ تحریک ہے جسے طاقت سے نہیں کچلاجاسکتا ہے۔
[email protected]