کھادی اور خاکی کا گٹھ جوڑ

گورکھپور اور لکھیم پور کھیری کے واقعات کو ایک دوسرے سے وابستہ کرکے دیکھا جائے تو شبہ نہیں رہ جائے گا کہ پولیس میں وسیع پیمانہ پر اصلاحات کی ضرورت ہے

0

وبھوتی نارائن رائے

کھادی اور خاکی کے ناپاک اتحاد سے متعلق ہندوستان کے چیف جسٹس این وی رمن کے حالیہ تبصرے سے کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ حیرانی تب ہوگی، جب اس پر حکومت کی طرف سے کوئی مثبت کارروائی ہوتی نظر آئے گی یا پولیس کے رویہ میں کوئی بڑی تبدیلی نظر آنے لگے گی۔ چیف جسٹس نے اس سلسلہ میں ایک کمیشن مقرر کرنے کی بات کی ہے۔ انہیں کسی نے تو یاد دلایا ہوتا کہ آزادی کے بعد کئی کمیشن پولیس اصلاحات کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔ کئی مرتبہ خود عدالتوں نے ایسے فیصلے دیے ہیں کہ اگر پولیس اصلاحات کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے تو پولیس کے رویہ میں وسیع پیمانہ پر تبدیلی ہوسکتی ہے۔ ایمرجنسی کے خاتمہ کے بعد اس وقت جنتا پارٹی کی حکومت نے دھرم ویر کمیشن مقرر کیا تھا، جس نے بڑی محنت کے بعد ممکنہ طور پر 1860کے بعد کی سب سے تبدیلی والی تجاویز دی تھیں، لیکن بدقسمتی سے کئی جلدوں پر مشتمل اس کی سفارشات پر چار سے زیادہ دہائیوں سے دھول ہی جمی ہے۔
چیف جسٹس کا تازہ تبصرہ چھتیس گڑھ کے ایک سینئر آئی پی ایس افسر جی پی سنگھ کے حوالہ سے آیا ہے جو سابقہ رمن سنگھ حکومت کے دوران اہم عہدوں پر تعینات تھے اور حکومت بدلتے ہی گردش میں آگئے۔ جس وقت ان کی گرفتاری روکنے کی پٹیشن پر چیف جسٹس مذکورہ تبصرہ کررہے تھے، تقریباًاسی وقت ممبئی کے سابق پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ کے فرار ہونے کی خبریں میڈیا میں گشت کررہی تھیں۔ ان دونوں کی ایک جیسی کہانیاں ہیں، کسی بااثر سیاسی لیڈر کی مدد سے ملائی دار تعیناتیاں حاصل کرنا اور پھر اس کے عوض اس سیاسی لیڈر کی ہر غلط توقع کو پورا کرنے کے لیے غیرپیشہ ورانہ عمل کرنا۔ دیکھنا ہوگا کہ چیف جسٹس کے اس تبصرے کے بعد کتنا کچھ تبدیل ہوتا ہے۔
ابھی لکھیم پور کھیری میں مظاہرہ کررہے کسانوں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ کھادی اور خاکی کے اسی گٹھ جوڑ کا نمونہ ہے۔ ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے، جس میں ایک عام اجلاس میں مقامی ایم پی اور مرکزی وزیر کھلے عام کسانوں کو دھمکی دے رہے ہیں۔ اگر قانون کے مطابق کارروائی کرنے والی پولیس ہوتی تو ان کے اس ویڈیو کی جانچ ہوتی اور سچ پائے جانے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی۔ اسرائیل یا فرانس میں پولیس اپنے وزرائے اعظم کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی آزاد جانچ کرسکتی ہے تو ہندوستان میں ایک وزیر کے خلاف دھمکی دینے پر مقدمہ کیوں نہیں قائم ہوسکتا؟ بعد میں کسانوں پر گاڑیاں چڑھائی گئیں اور تشدد میں دونوں فریقوں کے کئی لوگ مرے۔ اس دوران پولیس کی ڈیوٹی سے غفلت صاف نظر آئی۔
ادھر گورکھپور میں تقریباً ایک ہفتہ پہلے پیش آیا دل دہلا دینے والا واقعہ اسی بے شرم گٹھ جوڑ کی ایک اور مثال ہے۔ جس انسپکٹر کی قیادت میں پولیس فورس نے یہ قتل کیا تھا، اس کے بارے میں یہ عام شہرت ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں میں ہی وہ مڈبھیڑ اور پولیس تحویل میں اذیت دے کر ایک درجن سے زائد لوگوں کو مارچکا ہے۔ مبینہ مڈبھیڑوں کے سبب وہ دوسرے انعام و اکرام کے علاوہ وقت سے پہلے ترقی حاصل کرتے ہوئے تھوڑے ہی وقت میں سپاہی سے انسپکٹر بن گیا تھا۔
گورکھپور کے حقوق انسانی کے کارکن منوج کمار سنگھ کے مطابق یہ انسپکٹر کئی ’مڈبھیڑوں‘ میں گولی مار ٹیم کا ممبر رہا ہے اور ان میں بجائے سزا کے انعام پاتے پاتے اس کے منھ میں اس قدر خون لگ چکا تھا کہ گزشتہ ایک برس میں ہی کئی لوگوں نے اس کے ذریعہ دی جارہی اذیتوں کے سبب دم توڑا ہے۔ جان گنوانے والے غریب غربا لوگ عام طور پر دلت کنبوں سے آتے ہیں۔ لیکن کسی معاملہ میں اسے سزا نہیں دی جاسکی، نتیجتاً اس کا حوصلہ بڑھتا گیا۔ مگر اس مرتبہ اس کا مقابلہ ایک بہادر عورت سے پڑا اور وہ گھِر گیا۔ کچھ افسران مہلوک منیش گپتا کی بیوی کو کوئی قانونی کارروائی نہ کرنے کی ’دوستانہ‘ صلاح دے رہے تھے۔ اس صلاح کا ویڈیو عام ہوجانے کے بعد اچھی طرح سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جن اعلیٰ افسران پر اپنے ماتحتوں کو ڈسپلن کرکے عوام کو انصاف دلانے کی ذمہ داری ہے، وہ کیسے دیر رات تک قاتل پولیس اہلکاروں کے خلاف خود کوئی کارروائی کرنے سے بچتے رہے۔

کسی بھی مہذب معاشرہ کے لیے گورکھپور کا واقعہ ایک ’ویک اَپ کال‘ کی طرح ہوسکتا ہے، لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ ہم نے پولیس بربریت کو معاشرتی طور پر قبول کررکھا ہے۔ حقوق انسانی کے کارکن منوج کمار سنگھ گورکھپور کے نواحی اضلاع کے ایسے پانچ معاملات کا ذکر کرتے ہیں جن میں حال میں پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کے مقدمے درج ہوئے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک میں بھی سخت سزا ملی ہوتی تو گورکھپور کے اس ذہن کو چکرا دینے والے انسپکٹر کا اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ شہر کے مرکز میں واقع ایک ہوٹل میں جاکر کسی تاجر کو لوٹنے کے عمل میں اسے مار ہی ڈالتا۔

کسی بھی مہذب معاشرہ کے لیے گورکھپور کا واقعہ ایک ’ویک اَپ کال‘ کی طرح ہوسکتا ہے، لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ ہم نے پولیس بربریت کو معاشرتی طور پر قبول کررکھا ہے۔ حقوق انسانی کے کارکن منوج کمار سنگھ گورکھپور کے نواحی اضلاع کے ایسے پانچ معاملات کا ذکر کرتے ہیں جن میں حال میں پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کے مقدمے درج ہوئے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک میں بھی سخت سزا ملی ہوتی تو گورکھپور کے اس ذہن کو چکرا دینے والے انسپکٹر کا اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ شہر کے مرکز میں واقع ایک ہوٹل میں جاکر کسی تاجر کو لوٹنے کے عمل میں اسے مار ہی ڈالتا۔
چیف جسٹس کے تبصرے کو اگر گورکھپور اور لکھیم پور کھیری کے واقعات کو ایک دوسرے سے وابستہ کرکے دیکھا جائے تو کسی کے ذہن و دل میں شبہ نہیں رہ جائے گا کہ پولیس میں وسیع پیمانہ پر اور بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ صرف ملمع سازی سے کام نہیں چلے گا۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد ہم اپنی پولیس کو نہیں سمجھا پائے کہ ایک جمہوریت میں وہ عوام کی نوکر ہے اور اسے آئین اور ملک کے قوانین کی عزت کرنا ہی پڑے گا۔ دقت یہ ہے کہ جب ہماری حکومتیں پولیس اصلاحات یا پولیس ماڈرنائزیشن کی بات کرتی ہیں تب ان کی تشویش کے مرکز میں خاص طور پر گاڑی، ہتھیار یا مواصلات جیسے آلات کی سطحوں میں بہتری ہی ہوتی ہے۔ سب سے کم توجہ اس ذہنیت کو بدلنے پر دی جاتی ہے جو پولیس کو مہذب اور جمہوریت کے لائق بننے سے روکتی ہے۔ بجائے پولیس کو قانونی طرزعمل کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی حکومتیں انہیں خود امتیازی سلوک، جج و جلاد، تینوں کردار نبھانے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ پولیس خود ہی مجرموں کو مار دے یا کم سے کم پیر میں گولی مار کر معذور تو کرہی دے۔ اسی حوصلہ افزائی سے گورکھپور جیسے قاتل پولیس اہلکار پیدا ہوتے ہیں۔
یہ دیکھنا واقعی دلچسپ ہوگا کہ اس مرتبہ کی عدالتی سرگرمی کتنی مثبت ثابت ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجوزہ کمیشن کی سفارشات بھی پرانے کمیشنوں کی سفارشات کی طرح سکریٹریٹ کی فائلوں میں دھول پھانکتی رہیں۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS