مراکش اسپین اور جرمنی سے ناراض لیکن کیوں؟

0
image:dw.com

نئی دہلی: بظاہر مراکش نے ابھی تک واضح انداز میں اسپین سے ناراضی و برہمی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ المغرب کہلانے والے ملک کی عام شہرت مراکش کے نام سے ہے۔ اسی نام کا ایک صوبہ بھی اسی ملک یعنی المغرب میں ہے۔ اپنی حکومتی برہمی کا اظہار مراکشی انسانی حقوق کے وزیر مصطفیٰ رمید کے اس بیان سے ہوتا ہے، جو انہوں نے اپنے فیس بُک پیج پر شائع کیا ہے۔ رمید نے ہسپانوی حکومت کے اقدام پر تنقید کی، جو مغربی صحارا کی آزادی کی تحریک پولی ساریو فرنٹ کے لیڈر کو علاج دینے سے متعلق ہے۔
Westsahara | UN Mission MINURSO

پولی ساریو کے لیڈر کا علاج
مغربی صحارا میں آزادی کی تحریک کے لیڈر ابراہیم غالی (عمومی طور پر انہیں براہم غالی لکھا جاتا ہے) رواں برس اپریل سے کورونا وائرس کی وجہ سے علیل ہیں۔ انہیں شمالی اسپین میں علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ مراکشی وزیر مصطفیٰ رمید نے فیس بُک پر اپنے پیج پر لکھا کہ اسپین نے ایک ایسے شخص کو پناہ دے رکھی ہے، جس نے ان کے ملک (مراکش) کے خلاف ہتھار اٹھا رکھے ہیں۔ دوسری جانب اعلیٰ ترین ہسپانوی عدالت نے ابراہیم غالی کو مبینہ جنگی جرائم کے الزام کے تحت طلب کر لیا ہے۔

مراکش کے تحفظات
یورپی یونین کی ایک اہم رکن ریاست میں ابراہیم غالی کو علاج معالجے کی سہولت دینے پر مراکش کو شدید تحفظات لاحق ہیں۔ مراکشی حکومت کو یقین ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ویسٹرن صحارا پر اس کی حاکمیت تسلیم کرنے کے موقف کے بعد اس میں مزید بین الاقوامیت پیدا ہو گی۔ ٹرمپ نے اس مناسبت سے ایک بیان دسمبر سن 2020 میں دیا تھا۔ سفارت کاروں کے مطابق ٹرمپ کا بیان مراکش کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دو طرفہ تعلقات قائم کرنے کے تناطر میں تھا۔ اسرائیل اور مراکش کے درمیان سفارتی روابط بحال ہو گئے ہیں مگر صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سے باہر ہو چکے ہیں۔ ابراہیم غالی کے علاج پر مراکش کو فکر لاحق ہو گئی ہے کہ اب کئی اور ممالک مغربی صحارا پر اس کی حاکمیت کے دعوے پر انگلی اٹھا سکتے ہیں۔
Algerien | Smara Flüchtlingslager Sahrauis

جرمنی اور مراکش
مراکش کے جرمنی سے تعلقات بھی ہموار نہیں ہیں۔ رواں برس مئی میں شمالی افریقی ملک نے برلن سے اپنا سفیر یہ کہہ کر واپس طلب کر لیا تھا کہ جرمنی اشتعال انگیز اقدامات کا مرتکب ہوا ہے۔ خیال رہے جرمنی نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے مغربی صحارا پر مراکشی حاکمیت تسلیم کرنے کے بیان پر بھی کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ اس مناسبت سے جرمنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر کے یہ معاملہ زیرِ بحث بھی لایا تھا۔

سمارا ریفیوجی کیمپ میں صحراوی باشندے مظاہرہ کرتے ہوئے
مغربی صحارا، پولیساریو فرنٹ اور تنازعہ
اس تنازعہ سن 1884 سے شروع ہے، جب براعظم افریقہ یورپی طاقتوں میں تقسیم تھا۔ اس وقت یہ علاقہ مغربی صحارا کہلاتا تھا اور ہسپانوی اثر و رسوخ میں تھا۔ سن 1976 میں اسپین نے یہ علاقہ چھوڑنا شروع کر دیا اور کئی افریقی ملکوں کو آزادی ملی۔ مغربی صحارا پر مراکش اور موریطانیہ نے حاکمیت کے دعوے کر دیے۔ اس دعوے سے موریطانیہ سن 1979 میں دستبردار ہو گیا اور مراکش نے مغربی صحارا کے جنوبی حصے پر قبضہ کر لیا۔

اسرائیل سے تعلقات کی بحالی ’بے پناہ فائدہ مند‘ہے، پرنس فیصل
پولیساریو فرنٹ سن 1973 میں قائم کیا گیا۔ اس کا پورا نام ‘الجبة الشعبیہ ساقیہ الحمرا و وادی الذہب‘ ہے۔ اس کے بانی لیڈر الولی مصطفیٰ السید تھے۔ مغربی صحارا کے لوگ خود کو صحراوی قرار دیتے ہیں۔ الولی مصطفیٰ السید ایک حملے کے بعد واپسی پر ستائیس برس کی عمر میں موریطانیہ کی فوج کے اچانک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیساریو فرنٹ اپنے علاقے کو ‘صحارا عرب ڈیموکریٹک ریپبلک‘ قرار دیتا ہے۔ اسے افریقی یونین سمیت پچاس ریاستیں تسلیم کر چکی ہیں۔ مراکش اور پولیساریو فرنٹ کے درمیان مسلح تنازعہ سن 1975 سے جاری ہے۔

کیتھرین شعیر (ع ح، ا ا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS