محمد عباس دھالیوال: افغانستان میں سرمایہ کاری کو لے کر چین تذبذب میں

0

محمد عباس دھالیوال

طالبان کو افغانستان کی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے تقریباً سوا سال ہوچکا ہے، دریں اثناء ابھی تک حکومتِ افغانستان عالمی سطح پر ایک طرح سے تنہا نظر آتی ہے۔ وہیں اس سب کے بیچ اگر ماہرین کی مانیں تو چین کو افغانستان میں ایک بڑا پلیئر بننے کا موقع فراہم ہوا ہے۔
لیکن دوسری طرف عالمی برادری افغانستان کے نئے حکمرانوں پر ملک میں تمام لسانی و نسلی گروہوں کی نمائندہ حکومت کے قیام، خواتین کے حقوق اور بالخصوص تعلیم اور روزگار تک رسائی کی آزادی جیسی اصلاحات کے نفاذ کے لیے زور دیتی آ رہی ہے۔ اب اس ضمن میں چین بھی ان مطالبات کی تائید کرتا نظر آرہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین نے طالبانی حکومت سے اپنے سیکورٹی تحفظات دور کرنے کے عوض تعمیر و ترقی میں معاونت اور معاشی امداد جیسے وعدے بھی کررکھے ہیں۔
خبریں نکل کر یہ بھی سامنے آ رہی ہیں کہ چین کو افغانستان میں موجود اویغور مسلح گروپس کی جانب سے اپنے مفادات کو زد پہنچنے کا خدشہ برابر لا حق ہے۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل یعنی افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے سے پہلے چین کے ان کے ساتھ نہایت نزدیکی تعلقات خیال کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی درخواست پر افغان سیکورٹی فورسز اویغور مسلح گروپس کے خلاف کارروائیاں اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی تھیں۔
لیکن جیسے ہی گزشتہ برس طالبانی اقتدار میں آئے تو چین نے ان سے بھی تعلقات قائم کرلیے کیوں کہ وہ افغانستان میں آنے والی تبدیلی کے بعد خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہتا تھا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے ابھی تک کھلے طور پر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قانونی اعتبار سے تسلیم نہیں کیا ہے جس کے نتیجے میں ماضی میں حکومت کو ملنے والی کروڑوں ڈالر کی امداد بھی رک چکی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے افغانستان کے اربوں ڈالر کے ریاستی اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ افغانستان پہ اقتصادی پابندیوں کے باعث ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ ان سبھی حالات کے پیش نظر طالبانی حکومت چین کی سرمایہ کاری اور مالی امداد حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں نظر آ رہی ہے۔
اس ضمن میں ایک نیوز رپورٹ میں نئی دہلی کے آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے اسٹرٹیجک اسٹڈیز پروگرام سے وابستہ کبیر تنیجا کا کہنا ہے کہ چین طالبان کے ساتھ فعال سفارت کاری کررہا ہے۔ وہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کرچکا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کبیر تنیجا نے یہ بھی کہا کہ چین نے ابھی تک جو اشارے دیے ہیں وہ غیر معمولی ہیں لیکن عملی سطح پرقابل ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔ان کے خیال میں چین اپنے بارے میں یہ تاثر قائم نہیں ہونے دینا چاہتا کہ وہ معاشی اور سیاسی طور پر طالبان حکومت کی سرپرستی کررہا ہے۔
جبکہ رواں سال اپریل میں چین نے طالبان کو بیجنگ میں افغانستان کا سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی تھی۔ حالیہ مہینوں میں افغانستان میں چینی سفارت خانے کے اہل کاروں اور چین کی سرکاری کمپنیوں کے نمائندوں نے طالبان حکومت کے وفاقی اور صوبائی نمائندوں سے سرمایہ کاری اور تعمیرنو سے متعلق منصوبوں پر بات چیت بھی کی ہے۔افغانستان میں حالیہ زلزلے سے متاثرین کی امداد کے لیے چین نے80لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔
اس سے قبل ابھی حال ہی میں چینی نمائندہ نے تاشقند میں26جولائی کو افغانستان پر ہونے والی ایک کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ بیجنگ پورے افغانستان میں بین الاقوامی ریلوے نظام کی تعمیر کے لیے مالی مدد فراہم کرے گا۔ اس نظام کے ذریعہ افغانستان، ازبکستان اور پاکستان کی بندرگاہوں سے منسلک ہوجائے گا۔
مذکورہ حالات پہ ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کی طرح چین بھی سفارتی سطح پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے بغیر ہی محتاط انداز میں اس کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھا رہا ہے۔
ادھر نیویارک میں مشاورت کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی وزیر کنسلٹنگ کے سربراہ عارف رفیقی کا کہنا ہے کہ چینی کمپنیاں افغانستان میں کاروباری مواقع کی تلاش میں ہیں۔ لیکن ملک میں سیاسی استحکام اور سیکورٹی کی صورتِ حال ایسی نہیں جو صنعتی سطح پر کسی بڑی سرمایہ کاری کے لیے ضروری تصور ہوتی ہے۔
امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے سے زیادہ چین اویغور مسلح گروپس کے حملوں کے بارے میں فکر مند ہے۔ چین ترکستان اسلامک پارٹی(ٹی آئی پی) کو اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں ’بدامنی‘کا ذمے دار قرار دیتا رہا ہے اور اس کے پرانے نام ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ(ای ٹی ا ئی ایم) ہی سے تنظیم کا حوالہ دیتا رہا ہے۔ٹی آئی پی نامی یہ تنظیم سنکیانگ اور اویغور آبادی کو چین سے آزاد کرانے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے چینی مفادات کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس سے اپنی پہلی ٹرم کے دوران طالبان نے1996سے2001کے بیچ اپنی حکومت میں چین سے برسرپیکار اویغور گروپس کو افغانستان میں ٹھکانے بنانے کی اجازت دی تھی۔ ٹی آئی پی القاعدہ کی قیادت میں بننے والے اس کثیر قومی جہادی تنظیموں کے اتحاد میں شامل تھی جس نے گزشتہ برس امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر قبضہ کرنے میں طالبان کی مدد کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے نزدیک چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ کابل کے نئے حکمرانوں کو اویغور جنگجوؤ ں کی افغانستان سے بے دخلی کے لیے قائل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم طالبان تواتر سے یہ پیغام بھی دوہرا رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سلسلے میں طالبانی وزیرخارجہ امیر خان متقی نے تاشقند میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک بار پھر یہ یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا ’’اماراتِ اسلامی افغانستان اپنے کسی رکن یا بشمول القاعدہ کسی فرد یا گروہ کو افغانستان کی سرزمین سے دوسروں کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘
چنانچہ اس حوالے سے عارف رفیقی کا کہنا ہے کہ طالبان کا اویغور مسلح جنگجوؤ ں کے ساتھ برتاؤ اپنے دیگر اتحادی غیر ملکی جہادی گروپس جیسا ہی ہے۔طالبان ان گروپس سے تعلق رکھنے والوں کو ان کے ممالک کے حوالے کرنے سے انکاری ہیں، البتہ انہیں بے ضرر بنانے اور سرحد پار سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لیے خاموشی کے ساتھ اقدامات کررہے ہیں۔ بظاہر اس کے کچھ شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ طالبان اویغور جنگجوؤں کو بدخشان سے منتقل کررہے ہیں۔ افغانستان کے شمال مغرب میں یہ صوبہ چین کے ساتھ76کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں سے اویغور عسکریت پسندوں کی منتقلی چین کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
ادھر رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اویغور عسکریت پسند افغانستان میں اپنی سرگرمیاں ذرائع ابلاغ پر لانے سے متعلق انتہائی محتاط ہوگئے ہیں اور کچھ برس قبل کے مقابلے میں چین سے متعلق ان کی جانب سے جارحیت کے اظہار میں بھی کمی آئی ہے۔
البتہ افغانستان میں داعش سے منسلک گروپ اسلامک اسٹیٹ خراسان پراونس(آئی ایس کے پی) کی بڑھتی ہوئی قوت سے بھی چین کو پریشانی ہو سکتی ہے کیوں کہ اس گروپ کے چین پر حملوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
اس بارے میں عسکریت پسندی پر تحقیق کرنے والے لوکس ویبر کا کہنا ہے کہ داعش کی مرکزی تنظیم نے 2010 کی دہائی میں چین کو دشمن قرار دیا تھا اور چین سے متعلق اس کے بیانات میں شدت آگئی تھی۔ لیکن اگست 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد داعش نے بیجنگ اور طالبان کے درمیان تعلقات پر نظر رکھی ہوئی ہے اور ان روابط میں بہتری پر طالبان حکومت کو ملامت کرتی ہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS