مودی،مخالفت کو ملک،مخالف نہ بنائے اپوزیشن

0

اُپیندررائے:کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں
 ہمنے اپنے ملک میں حکومت کے لےے پارلیمنٹری نظام کو منتخب کیا گیا ہے۔ اس نظام میں اکثریت کے پاس حکومت چلانے کا مینڈیٹ ہوتا ہے اور اقلیت کے پاس تعمیری مخالفت کی ذمہ داری۔ استثنیٰ کو چھوڑ دیا جائے تو اکثریت یعنی حکمراں جماعت اور اقلیت یعنی اپوزیشن۔ انتخابی نتائج بھلے ہی اپوزیشن کے منصوبوں پر قدغن لگاتے ہوں، لیکن ہمارا آئین اسے حکومت کو بے لگام ہونے سے روکنے کا حق بھی دیتا ہے۔ عام طور پر اپوزیشن اس حق سے حکومت کو تین طریقوں سے گھیرتا ہے-پہلا حکومت کو مشورے دینا، دوسرا حکومت کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کرنا اور تیسرا حکومت کو ہٹانے کی آئینی کوشش کرنا۔
لیکن کیا ہندوستان کی سیاست میں موجودہ اپوزیشن اس حق کی کسوٹی پر کھرا اترپارہا ہے؟ پارلیمانی جمہوریت میں یوں تو حکمراں جماعت سے سوال پوچھنے کی روایت ہوتی ہے، لیکن اگر اپوزیشن ذمہ دار طریقہ سے عوام کی آواز بننے میں ناکام ہورہا ہو تو اسے بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے پر کسے اعتراض ہونا چاہےے؟ مودی حکومت کی پہلے مدت کار کے بعد مودی 2.0 میں بھی ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، جب اپوزیشن کا طرزعمل تسلیم شدہ روایات کو مسخ کرتا دکھا ہے۔ سب سے تازہ معاملہ تو شہریت ترمیمی قانون کو لے کر ہی ہے، جس میں وزیراعظم کی سطح سے یقین دہانی کے باوجود اپوزیشن حکومت سے ’مفاہمت‘ کے موڈ میںنہیں نظر آرہا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کئی جگہ مظاہروں میں تشدد ہونے کے باوجود اپوزیشن اس سے بے پروا نظر آیا ہے۔ صرف اترپردیش میں ہی احتجاجی مظاہرہ میں 19افراد مارے جاچکے ہیں۔ کرناٹک میں بھی مظاہرہ کے دوران کچھ لوگوں نے جان گنوائی ہے۔ حالت یہ ہے کہ جان-مال کو نقصان پہنچانے کی اندھی دوڑ میں سڑکوں اور تعلیمی اداروں کے کیمپس کا فرق بھی ختم ہوگیا ہے۔
ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی ملک کو یقین دلانے میں دن-رات ایک کےے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن نے وزیراعظم کو ہی نشانہ پر لے رکھا ہے۔ وزیراعظم نے کم سے کم دو مواقع پر پہلے دہلی کے رام لیلا میدان اور پھر مغربی بنگال کے بیلور مٹھ میں اس قانون پر حکومت کا موقف رکھتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قانون صرف شہریت دینے کے لےے ہے، نہ کہ کسی کی شہریت چھیننے کے لےے۔ لیکن سی اے اے کو نیشنل رجسٹر آف سٹیزن سے جوڑ کر مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کی منشا مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کی ہے۔ رام لیلا میدان میں ہی وزیراعظم این آر سی کے سلسلہ میں واضح کرچکے ہیں کہ اس پر ان کی کابینہ میں ابھی تک کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے۔
سوال صرف سی اے اے اور این آر سی کو لے کر ہی نہیں ہے، گزشتہ 6-7مہینوں کے واقعات پر نظرڈالی جائے تو تین طلاق پر پابندی، کشمیر سے آرٹیکل 370کا ہٹنا اور بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں ایک الجھن یہ پیدا کی گئی کہ یہ حکومت مسلمانوں کے خلاف ہے۔ ظاہری طور پر جو لوگ ایسی باتوں کو ہوا دے رہے ہیں وہ ملک کو ایک بڑے خطرے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ حکومت کی مخالفت کرتے کرتے اپوزیشن پارٹیاں ملک کی مخالفت کرنے لگی ہیں، آخر کس بات کا اشارہ ہے؟ کیوں وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ مخالفین چاہے ان کے کتنے بھی پتلے جلالیں، لیکن ملک کو نہ جلائیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے لےے حکومت کی مخالفت زیادہ تر وزیراعظم پر ذاتی حملے تک محدود ہے۔ اس ’پرسنل‘ مخالفت کی وجہ سے یہ پارٹیاں تعمیری اپوزیشن کا رول نبھانے میں ناکام ہورہی ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسیوں کی مخالفت اپوزیشن کا حق ہے، لیکن مودی مخالفت کا عالم یہ ہے کہ اپوزیشن ملک کے فائدے والی پالیسیوں کو بھی شک کے تناظر میں ہی دیکھتا ہے۔ ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں ہیں جن میں اپوزیشن کو حکومت کے ساتھ کھڑا رہنا چاہےے تھا، لیکن مودی مخالفت کی ’دیوار‘ بار بار اس کے آڑے آتی رہی۔ نوٹ بندی اور بے نامی پراپرٹی ایکٹ جیسی بدعنوانیوں پر نکیل کسنے والے ایشوز پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اپوزیشن سفیدپوشوں کے ساتھ سر میں سر ملاتا نظر آیا۔
سیاسی مخالفت اپنی جگہ ہے، لیکن بحران کے وقت ملک ایک آواز میں بولتا ہے۔ سرجیکل اسٹرائک کے وقت اپوزیشن ملک کے لےے یہ ذمہ داری بھی بھول گیا۔ کسی نے دہلی سرجیکل اسٹرائک کا ثبوت مانگا تو کسی نے فوج کی ساکھ پر سوال کھڑے کےے۔ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے اور سرمایہ کاری میں اضافہ کے مقصد سے لائے گئے جی ایس ٹی قانون کو نافذ کرنے کے عمل میں بھی اپوزیشن کی کئی پارٹیاں رخنہ اندازی کرتی رہیں۔ اسے نافذ کرنے کے لےے حکومت کی جانب سے جب پارلیمنٹ میں آدھی رات کو تاریخی میٹنگ کا انعقاد ہوا تو سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے مخالفت میں میٹنگ کا بائیکاٹ کردیا۔
دہشت گردی سے جب فوج نے سختی سے نمٹنا شروع کیا تو کانگریس کے ایک لیڈر نے سابق آرمی چیف کے لےے انتہائی غیرمہذب تبصرہ کرڈالا۔ کشمیری پتھرباز کو انسانی ڈھال بنانے کی میجر گوگوئی کی بہادری پر بھی بایاں محاذ حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے پتھربازوں کے حقوق انسانی کی فکر کرتا نظر آیا۔آدھار کارڈ کی لازمیت سے لے کر سوچھتا ابھیان، یوگاڈے، گﺅکشی پر پابندی جیسے فیصلوں کی مہذب سماج میں کون مخالفت کرے گا، لیکن اپوزیشن یہاں بھی حکومت سے ایک رائے نہیں بناپایا۔
تعمیری رول کو لے کر اپوزیشن کے پاس کوئی وژن نظر نہیں آتا ہے۔ عوام کسی مسئلہ کا سامنا کررہے ہےں تو اپوزیشن حکومت کی تنقید تو کرتا ہے، لیکن مسئلہ کو دور کرنے کے لےے نہ تو خود کوئی پہل کرتا ہے، نہ حکومت کو کوئی مثبت تجویز دیتا نظر آتا ہے۔صرف تنقید کرنا، شورمچانا، غیرنظمی پیدا کرنا، غیرمہذب بیان دینے جیسے طریقے عوام کا دھیان بانٹنے کا کام کرتے ہیں اور بنیادی ایشوز شور میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ اپوزیشن اس معاملہ میں بابائے قوم مہاتماگاندھی سے بڑی نصیحت لے سکتا ہے۔ انگریزوں کے خلاف گاندھی جی نے جب وِدیشی اشیا کا بائیکاٹ کیا تو انہوں نے تعمیری سطح پر سودیشی کو بہتر بھی بنایا۔ گاندھی جی کی ایسی کئی پہل سے آزادی کے لےے ملک میں مثبت ماحول تیار ہوا تھا۔
سال 1971 میں پاکستان سے جنگ کے وقت بھی ملک کی سیاست میں بے مثال یکجہتی کا ماحول نظر آیا تھا۔ جنگ میں فتح پانے کے بعد ہندوستان جب بنگلہ دیش کی تعمیر میں اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا تو لوک سبھا میں میز تھپتھپانے اور جے بنگلہ، جے اندرا کے نعرے لگانے والوں میں کانگریس ہی نہیں، دوسری پارٹیوں کے کارکنان بھی شامل تھے۔ پاکستان کے بغیر شرط سرنڈر کرنے پر لوک سبھا میں ممبران نے کھڑے ہوکر اندراگاندھی کی تعظیم کی تھی۔ اس دوران امریکہ جنگ بندی کے لےے اندرا حکومت پر مسلسل دباو¿ بنتا رہا لیکن حکومتی استقامت کے درمیان اپوزیشن بھی اس کی حمایت میں متحد رہا۔ پارلیمنٹ میں اٹل بہاری واجپئی نے سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے ہندوستان مخالف بیانات کی دھجیاں اڑانے کا کام کیا تھا تو سڑک پر لال کرشن اڈوانی اور بلراج مدھوک جیسے جن سنگھ کے لیڈران نے امریکی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا تھا۔ ڈی ایم کے، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیاں بھی امریکہ کی مخالفت میں حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں۔
موجودہ دور میں ملک کے سامنے بھلے ہی جنگ کا بحران نہ ہو لیکن معیشت، بے روزگاری، مہنگائی جیسے چیلنج کم نہیں ہیں۔ اس سب کے بیچ سی اے اے اور این آر سی جیسے مسائل پر حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی کھائی ملک کو پیچھے ہی لے جانے کا کام کرے گی۔ ایسے میں اگر اپوزیشن صرف ہنگامہ کھڑا کرنے کے مقصد سے حکومت کی راہ میں رکاوٹ اور وزیراعظم نریندر مودی کی ذاتی مخالفت کو پیچھے چھوڑ کر تاریخ میں ہوئی تعمیری مزاحمت سے ترغیب حاصل کرکے ملک کی صورت بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں پر کھرا اترے گا، بلکہ ملک کے مفاد میں حکومت کو بھی زیادہ جواب دہ بننے کے لےے مجبور کرسکے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS