مودی حکومت کی پٹرول پالیسی

0

حکومت ایک طرف یہ ڈھول پیٹ رہی ہے کہ اصلاحات کے تیز تر عمل کے نتیجہ میں ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے لیکن دوسری جانب ماہرین معیشت کا دعویٰ کا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اگر اسی رفتار سے جاری رہا تو معیشت پر اس کے انتہائی خطرناک نتائج ثبت ہوں گے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے ماہر معیشت اور راجیہ سبھا میں پارٹی کے رکن سبرامنیم سوامی نے بھی پٹرول ، ڈیزل، کراسن، گیسولین، ایل پی جی، سی این جی کی لگاتار بڑھ رہی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے عوام کیلئے عذاب اور ملکی معیشت کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ سبرامنیم سوامی حکمراں جماعت کاحصہ ہونے کے باوجود مودی حکومت کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی اقتصادی پالیسی بہتری کی بجائے ملکی معیشت کو تباہی کی جانب لے جارہی ہے۔
سبرامنیم سوامی کی رائے سے اختلاف کرنا مشکل ہے کیوں کہ ملکی معیشت کی زمینی صورتحال حکومتی دعویٰ کے برخلاف ہے۔ زمینی سطح پر ملک میں کہیں بھی معاشی استحکام نظر نہیں آرہا ہے۔ بڑھتی بے روزگاری ، ہوش ربا مہنگائی اورا فراط زر عوام کیلئے عذاب جان بنی ہوئی ہے۔اس پر ستم یہ ہے کہ پٹرول ، ڈیزل کی قیمتیں ایک تسلسل سے روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہیں۔اپریل مئی کے مہینوں میں یہ سلسلہ رکا ہواتھا لیکن جیسے ہی چند ریاستوں کے انتخابات ختم ہوئے مئی کے پہلے ہفتہ سے پٹرولیم مصنوعات اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ آج آندھرا پردیش، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور بعض دیگر ریاستوں میں پٹرول 100 روپے فی لیٹر سے بھی متجاوز ہے۔ ملک کی باقی دیگر ریاستوں مغربی بنگال، دہلی، مہاراشٹر، کرناٹک، چھتیس گڑھ ، بہاراور اڑیسہ میں یہ 102 روپے فی لیٹر کے آس پاس ہے۔ ملک کی شاید ہی کوئی ایسی ریاست اور شہر بچا ہو جہاں پٹرول کی قیمت 100 روپے سے کم ہو۔ یہی صورتحال رسوئی گیس کی بھی ہے جس کی قیمت اب ایک ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔کراسن یا مٹی کاتیل جو عام طور پر خط غربت سے نیچے کے لوگ استعمال کرتے ہیں،اس کی قیمت بھی قابو سے باہر ہے۔ مغربی بنگال میں کھلے بازار میں ایک لیٹر کراسن تیل80روپے کا بک رہاہے۔
2016سے پہلے یہ روایت رہی تھی کہ پٹرو لیم مصنوعات کی قیمتوں پر مہینہ میں دو بار یعنی ہر مہینہ کی پہلی اورسولہویں تاریخ کو نظرثانی کی جاتی تھی لیکن موجودہ مودی حکومت کی نئی پالیسی کے مطابق پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اب روزانہ نظرثانی کی جاتی ہے اور صبح8بجے تک قیمتوں میں اضافہ کردیاجاتا ہے۔ایندھن کی یہ روزانہ قیمت اب ریفائننگ پر ہونے والے اخراجات، مرکزی حکومت کے محصولات اور ریاستوں میںلیے جانے والے ویلیوایڈیڈ ٹیکس یعنی ویٹ کی بنیادپر کیاجارہاہے، اس کے ساتھ ہی خوردہ قیمتوں کا مزید انحصار بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت، ڈالر کی شرح تبادلہ اور خود اپنی کرنسی کی مضبوطی پر ہے۔لیکن دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی بھاری کمی کا فائدہ عام خریداروں کو نہیں دیاجاتا ہے، بلکہ بھاری ٹیکس عائد کرکے عام خریدارکو اس فائدہ سے محروم کردیاجاتا ہے۔
2014میں آنے والی مودی حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری کا ساراملبہ اپنے پیش رو منموہن حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی تھی اور یوپی اے کی کھلی معیشت کی پالیسی کو اس کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا تھالیکن وقت نے دیکھا کہ مودی حکومت، اپنے پیش رو سے کہیں بڑھ کر کھلی معیشت کی حامی ہوگئی ہے اوراس کھلاپن میں اس حد تک چلی گئی ہے کہ قومی ملکیتیں بھی نیلام پر چڑھائی جارہی ہیں۔حکومت کا کام عوام کیلئے راحت کا سامان کرنا نہیں بلکہ خزانے بھرنا رہ گیا ہے۔ مودی حکومت اور ان کی وزیر خزانہ نرملاسیتارمن کا ایک نکاتی ایجنڈہ پٹرولیم مصنوعات سے ٹیکس وصول کرنا ہے تاکہ گرتی ہوئی ہندوستانی معیشت کسی طرح سے چلتی رہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لگائے جانے والے محصولات سے گزشتہ سال اپریل تا جولائی کی سہ ماہی میں حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپے کی کمائی کی تھی۔
پٹرول، ڈیزل اور ایندھن و توانائی کے دیگر ذرائع کی بڑھتی قیمتوں کا اثرتمام اشیائے صرف و استعمال کی قیمت پر پڑتا ہے۔ پہلا دھچکا ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو لگتا ہے جس سے کرایہ اور مال ڈھلائی گراں ہوجاتی ہے۔اس کے نتیجہ میں استعمال کی تمام چیزوں کی قیمت رسائی سے باہر اورمہنگائی بے قابو ہوجاتی ہے۔ معیشت پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ان حالات میں حکومت کو ماہرین معیشت کے مشورہ پر غور کرنا چاہیے۔حکومت جس ظالمانہ طریقہ سے محصولات وصول کررہی ہے، اسے ختم کرتے ہوئے کمائی کے دوسرے ذرائع پر توجہ د ینا چاہیے تاکہ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں کم ہوں اور معیشت کو بھی کچھ بچایاجاسکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS