چیتن بھگت
حال ہی میں کئی واقعات سرخیوں میں رہے۔ اس میں کابینہ میں ردوبدل سے لے کر نئے وزیرصحت کی انگریزی کا مذاق اڑانا تک شامل رہا۔ حالاں کہ اب ہمیں پھر سب سے ضروری ایشو پر توجہ دینی چاہیے، کووڈ-19ٹیکہ کاری کی رفتار میں اضافہ۔ اگر وقت پر مناسب ٹیکہ کاری نہیں ہوئی تو زندگیاں اور معیشت خطرے میں رہیں گی۔
اب تک ملک میں جو بھی ٹیکہ کاری مہم چلی ہے، اس میں بہت کچھ قابل ستائش ہے۔ آسان اور مؤثر کووِن ایپ، ہزاروں مراکز پر ٹیکوں کی بڑے پیمانہ پر تقسیم، ڈیجیٹل ویکسینیشن سرٹیفکیٹ(یہ کئی جدید/ماڈرن ممالک تک میں نہیں مل رہا) اور لاکھوں ڈوز کا لگانا قابل تعریف ہے۔ پھر بھی، اگر ہماری 70فیصد آبادی کی مکمل ٹیکہ کاری(دونوں ڈوز) نہیں ہوتی تو ہمیں اس کا پورا فائدہ نہیں ملے گا۔ ابھی تقریباً 5.5فیصد آبادی کو دونوں ڈوز لگے ہیں، جب کہ23فیصد کو ایک ڈوز(ذریعہ: اور ورلڈ اِن ڈیٹا)۔ ہندوستان میں لگنے والے ڈوز کی تعداد بڑی ہے(37کروڑ ڈوز)، لیکن 70فیصد پہنچنے کے لیے بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس کی کافی مثالیں ہیں کہ جن ممالک میں 70فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری ہوئی، وہاں معاملات میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ اس وقت عام زندگی پانے کو اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں۔
کورونا کیس کم ہونے کا مطلب ہے کہ اب اسپتالوں کے باہر آکسیجن کے لیے تڑپتے لوگ نہیں نظر آئیں گے۔ حالاں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں کو فوری طور پر ٹیکہ لگوانے کی ضرورت نہیں نظر آرہی۔ ٹیکہ بیداری مہم مدد کرتی ہیں، لیکن بہت نہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ کو بھی ٹیکے لگوانے کے لیے لوگوں کو لاٹری، مفت ٹیکسی کا سفر اور دیگر حوصلہ افزائی کرنی پڑی۔ کچھ ممالک نے ٹیکہ لگوا چکے لوگوں کو کچھ سرگرمیوں کی اجازت دی۔ ہمیں بھی ایسے کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔
ہندوستان میں ابھی کیس کم ہوئے ہیں، لیکن فروری-21جیسی لاپروائی نہیں کرسکتے، جب ہم سوچ رہے تھے کہ ہم نے کورونا کو جیت لیا۔ جب تک 70فیصد ٹیکہ کاری نہیں ہوتی، تیسری، چوتھی، پانچویں لہر کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ ہندوستانی کورونا کی احتیاط کے معاملہ میں اچھے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ وزیراعظم نے بھی ہل اسٹیشنوں پر بغیر ماسک کے گھومتے لوگوں کو دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستانیوں کو سمجھداری کا ٹیکہ تو نہیں لگاسکتے، اس لیے بڑی تعداد میں کورونا ٹیکے ہی تحفظ کا واحد علاج ہے۔
ہم مشن70فیصد حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم نوٹ بندی کرکے 500روپے کا ہر نوٹ بدل سکتے ہیں، ایک ارب سے زیادہ آدھار کارڈ جاری کرسکتے ہیں تو یقینی طوور پر 70فیصد ٹیکہ کاری بھی کرسکتے ہیں۔ ٹیکہ کاری کی موجودہ شرح تقریباً 40لاکھ ڈوز روزانہ ہے۔ ہمیں70فیصد ٹیکہ کاری کا ہدف حاصل کرنے کے لیے تقریباً 200کروڑ ڈوز لگانے کی ضرورت ہے۔ ہم 37کروڑ ڈوز لگاچکے ہیں۔ اس طرح موجودہ شرح پر باقی 163کروڑ ڈوز لگانے میں 407دن لگیں گے۔ یہ بہت دھیمی رفتار ہے۔ ہمیں اسے بڑھاکر ایک کروڑ ڈوز روزانہ پر لانا ہوگا، تب یہ ہدف 167دن یا 4.5ماہ یا اس سال کے آخر تک پورا ہوپائے گا۔
آہستہ ٹیکہ کاری کے پیچھے دو اسباب ہیں۔ پہلا ہے سپلائی۔ ہندوستان نے شروعات میں صحیح وقت پر آرڈر نہیں دیے۔ اس غلطی کو کافی حد تک سدھار لیا گیا ہے۔ حالاں کہ اس میں ابھی دو ایشوز ہیں۔ پہلا، بچا ہوا بیکار ٹیکہ قوم پرستی۔ دوسرا، غیرملکی ٹیکے آرڈر کرنے میں کنجوس ذہنیت۔ یہاں کوویکسین و کووی شیلڈ (غیرملکی ویکسین پر ہندوستان میں تیار کی گئی)ہونا اچھا ہے، لیکن اگر یہ دونوں مناسب تعداد میں نہیں ہوں گی تو مشن 70فیصد میں مدد نہیں کریں گی۔ اگر اسپتال میں داخل ماں کو دوا کی ضرورت ہوگی تو کیا آپ پہلے فارما کمپنی کا ملک دیکھیں گے؟ پھر ٹیکے میں قوم پرستی کی کیا ضرورت ہے؟ دوسرا ایشو کنجوس ذہنیت ہے۔ ہندوستانیوں کو زیادہ قیمت ادا کرنا پسند نہیں ہے۔ کئی ممالک نے فائزر اور ماڈرنا کی ایم آر این اے ویکسین تین گنا تک قیمت دے کر خریدی تاکہ جلدی ملیں۔ ہاں، یہ مہنگی ہیں، لیکن خریداروں کے لیے پھر بھی قیمتی ہیں۔ کھوئی ہوئی زندگیوں، جی ڈی پی اور ٹیکس وصولی میں کمی، نوکریوںکے جانے اوربزنس بند ہونے سے ہوئے نقصان کا حساب لگایا جائے اور اس کا موازنہ ویکسین کی اضافی قیمت سے کریں۔ سمجھدار صنعت کار کی سوچ جلد قیمت ادا کرکے ویکسین پائے گی۔ میں ہندوستانی متوسط طبقہ کی سوچ کے خلاف نہیں ہوں۔ پیسہ بچانا اچھا ہے۔ حالاں کہ ایک بچت کرنے کا وقت ہوتا ہے اور ایک خرچ کرنے کا۔ ہم ساڑیاں خریدنے میں بارگیننگ کرسکتے ہیں۔ ٹیکے خریدنے پر ہمیں خرچ کرنا ہوگا۔
کم ٹیکہ کاری کی شرح کے پیچھے دوسرا سبب ہے ٹیکہ کے سلسلہ میں بڑھتی جھجھک یا بے حسی۔ کورونا کیس کم ہونے کا مطلب ہے کہ اب اسپتالوں کے باہر آکسیجن کے لیے تڑپتے لوگ نہیں نظر آئیں گے۔ حالاں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں کو فوری طور پر ٹیکہ لگوانے کی ضرورت نہیں نظر آرہی۔ ٹیکہ بیداری مہم مدد کرتی ہیں، لیکن بہت نہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ کو بھی ٹیکے لگوانے کے لیے لوگوں کو لاٹری، مفت ٹیکسی کا سفر اور دیگر حوصلہ افزائی کرنی پڑی۔ کچھ ممالک نے ٹیکہ لگوا چکے لوگوں کو کچھ سرگرمیوں کی اجازت دی۔ ہمیں بھی ایسے کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔
(مضمون نگار انگریزی کے ناول نگار ہیں)
[email protected]
(بشکریہ: دینک بھاسکر)