بڑھتی آبادی کا گمراہ کن پروپیگنڈہ

0

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس ) کے سربراہ موہن بھاگوت گزشتہ چند مہینوں سے جس طرح آبادی کے مسئلہ پر بیانات دے رہے ہیں، اس سے یہ لگ رہاہے کہ اگلے انتخاب میں سارا زور اسی پر ہوگا۔ بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی )کا انتخابی ایجنڈا بھی یہی بنے گا اور آبادی کے نام پر ہی ووٹوں کا پولرائزیشن ہوگا۔ویسے بھی بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر کے بعد بظاہر کوئی ایسا ایشو سامنے نہیں ہے جس پر ہندوووٹوںکو متحد کیاجاسکے۔یہی وجہ ہے کہ موہن بھاگوت کی کم و بیش ہر تقریرمیں آبادی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات ضرورشامل ہوتی ہے۔ناگپور میں سنگھ ہیڈکوارٹر میں دسہرہ کی خصوصی سالانہ تقریب کے دوران بھی خطاب کرتے ہوئے موصوف نے ’ بڑھتی آبادی‘ کاخاص طور سے ذکر کیا۔ ان کا موضوع بظاہر سماجی اصلاح تھا لیکن ان کی تقریر کا سارازور بڑھتی آبادی پر تھا۔اپنی تقریرمیںانہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے، بے روزگاری، دلتوں پر مظالم جیسے معاملات بھی اٹھائے، خواتین کے ساتھ مساوی سلوک کی ضرورت بتائی اورآئین کے احترام کا بھی ذکر کیالیکن آبادی میں ’اضافہ‘ کے بہانے دوبارہ آبادی کی پالیسی کا مطالبہ بھی کردیا۔سنگھ کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ آبادی میں اضافہ سے متعلق ہر پہلو کا خیال رکھتے ہوئے پورے ملک کی پوری آبادی کیلئے موزوں پالیسی لائی جائے تب ہی اس کا مطلوبہ فائدہ ملے گا۔مذہب کی بنیاد پر آبادی کے ’عدم توازن‘ کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ان کے مطابق آبادی میں عدم توازن جغرافیائی حد تک تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔اس عدم توازن کی وجہ سے ہندوستان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے 1947 میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کیلئے مذاہب کے درمیان آبادی میں مبینہ عدم توازن کو ذمہ دار ٹھہرایا۔مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کوسوو کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ نئے ممالک آبادی میں عدم توازن کی وجہ سے بنے ہیں۔شرح پیدائش کے علاوہ انہوں نے مبینہ جبری تبدیلی مذہب اور سرحد پار سے ہندوستان میں غیر قانونی امیگریشن کا بھی ذکر کیا۔ان کا کہنا ہے کہ جتنی زیادہ آبادی ہوگی، اتنا ہی بوجھ پڑے گااس پر لوگوںکو غورکرناچاہیے۔
اس سے قبل بھی موصوف کئی دیگر مواقع پرآبادی میں اضافہ کو کنٹرول کرنے کی وکالت کرتے ہوئے اسے مذہبی بنیادوں پر متوازن کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔سنگھ اوراس کے گماشتے شروع سے ہی یہ پروپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ بار بار آنے والی حکومت کی رپورٹیں اس کی تردید کرتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود اس پروپیگنڈہ کو ہوا دی جاتی رہی ہے۔



حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی آبادی کی موجودہ رفتارایسی نہیں ہے کہ وہ کسی دھماکہ خیز صورتحال پر منتج ہو۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے فائیو2019-21کے مطابق ملک میں شرح پیدائش میں 2 فیصد تک کی کمی آگئی ہے۔اگر یہ رفتار اسی شرح پر قائم رہی تو ہندوستان سال 2025 تک یا شاید اس سے پہلے سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آجائے گا اور یہ صورتحال اگلے20-25برسوں تک برقرار رہے گی۔لیکن سال 2060 کے بعد سے، ہندوستان کی آبادی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی اور شرح پیدائش مقرر متبادل سطح سے بھی نیچے آ جائے گی اوراس صدی کے آخر تک آبادی میں اضافے کی شرح صفر ہونے کا بھی امکان ہے۔ اس صورتحال میں آبادی کو دھماکہ خیز قرار دینا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ سنگھ اوراس سے وابستہ لوگوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ زیادہ آبادی کا بوجھ اسپتالوں، غذائی اجناس، گھروں یا ملازمتوں جیسے وسائل کی کمی پیدا کر رہا ہے۔حالانکہ بشریات کے ماہرین اس کے برخلاف رائے دیتے ہیں، ان کا کہناہے کہ بڑھتی آبادی کی ضروریات کی تکمیل کیلئے وسائل کابڑھایاجاناضروری ہے، آبادی پر جبری کنٹرول اس کا حل نہیں ہے۔زیادہ آبادی خراب معاشی حالت کا سبب نہیں ہوتی ہے بلکہ اس سے معیشت کو نیا خون ملتا ہے، افرادکار میںاضافہ ہوتا ہے، پیداوار بڑھتی ہے۔اگرآبادی پر جبری قابو پانے کی کوشش کی گئی تو ملک میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور کام کرنے والے لوگ دستیاب نہیں ہوں گے جیسا کہ چین میں دیکھا جارہا ہے۔ چین نے 1980 کی دہائی میں آبادی پر قابو پانے کیلئے ایک بچہ کا قانون نافذ کیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی آبادی میں بوڑھے لوگوںکی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، کام کرنے والے لوگوں کی کمی سامنے آنے لگی، اس کے بعد اسے اپنی یہ پالیسی ترک کرنی پڑی اور اب بچے پیدا کرنے کیلئے شادی شدہ جوڑوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔



کسی بھی ملک کی آبادی اس ملک کے وسائل پر بوجھ نہیںہوتی ہے بلکہ وہ اثاثہ ہوتی ہے اور ملک کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ جسے ڈیموگرافک ڈیویڈینڈ کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی موجودہ صورتحال میں آبادی پر کنٹرول کی کوئی ضرورت نظرنہیں آتی ہے بلکہ اسے اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے کیلئے اس ڈیموگرافک ڈیویڈینڈ کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ صرف سیاست اور اقتدار کیلئے آبادی پر کنٹرول کی غیر فطری کوشش ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی۔
[email protected]


سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS