متبادل بننے کی مقابلہ آرائی

0

نول کشور کمار

سیاست کی خاصیت یہی ہوتی ہے کہ اس میں شامل سبھی فریق متحرک ہوتے ہیں۔ پھر چاہے وہ حکمراں جماعت ہو یا پھر اپوزیشن۔ اگر کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو اسے بھرنے کے لیے باہم مقابلہ آرائی ہوتی ہی ہے۔ ملک میں موجودہ دور میں بھی یہ نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وجہ بہت صاف ہے کہ طویل عرصہ تک ملک میں حکومت کرنے والی کانگریس کے خیمہ سے کوئی مثبت اشارے نہیں مل رہے۔ یہاں تک کہ راہل گاندھی کی یاترا سے بھی ان کی پارٹی کو کوئی بڑا فائدہ ابھی تک ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ادھر اعلیٰ قیادت کے سلسلہ میں چل رہی اٹھاپٹخ نے عوام کے درمیان کانگریس کے تعلق سے منفی پیغام دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ تو واضح ہے کہ سیاست جڑ نہیں رہے گی۔ اس کا تازہ ثبوت تلنگانہ کے وزیراعلیٰ اور تلنگانہ راشٹرسمیتی(ٹی آر ایس) کے سربراہ کے چندرشیکھر راؤ(کے سی آر) نے کل ہند سطح پر نئی پارٹی بھارت راشٹریہ سمیتی(بی آر ایس) کی تشکیل کا اعلان کرکے دے دیا ہے۔
بظاہر سوال اٹھیں گے ہی، کیوں کہ حال ہی میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے بھی قومی سیاست میں اپنی موجودگی درج کرانے کی مہم شروع کی۔ اس کے پہلے انہوں نے بی جے پی سے کنارہ کیا اور اپنے حریف رہے راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مل کر پھر سے حکومت کی تشکیل کی۔ وہیں تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن بھی قومی سیاست میں اہم کردار نبھانے کی کوششیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کے پہلے ممتابنرجی نے قومی سیاست میں مداخلت کرنے کی کوششیں کی۔ ان کے علاوہ پنجاب میں اپنی پارٹی کی جیت سے پرجوش دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال بھی غیربی جے پی اور غیر کانگریسی خیمہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
اب جب کے سی آر نے اپنی نئی پارٹی کی تشکیل کا اعلان کردیا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس سے اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان بن رہے اتحاد کو جھٹکا لگے گا؟ دوسرا سوال جو سیاسی گلیارے میں چل رہا ہے، وہ یہ کہ اس سے مرکز میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی ) پر کیا اثر پڑے گا؟ ایک تیسرا سوال یہ بھی کہ کیا کے سی آر خود کو وزارت عظمیٰ کی ریس میں شامل کرنا چاہتے ہیں؟
سیاست اور سوال ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے۔ کے سی آر کی سیاست کا پس منظر الگ رہا ہے۔ آندھراپردیش سے الگ ہونے کے بعد 2جون2014 سے ہی کے سی آر تلنگانہ کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ایسے میں ان کے دل میں اگر یہ خواہش پیدا ہو کہ وہ بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ہر سیاستداں کوئی نہ کوئی خواہش رکھتا ہی ہے۔ کے سی آر کے ساتھ کچھ خاص پہلو یہ بھی کہ انہوں نے بی جے پی کو وہاں پاؤں جمانے کا موقع نہیں دیا ہے۔ وہ اس معاملہ میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے الگ ہیں، جن کے تعاون سے بی جے پی وہاں انہیں سخت چیلنج دے رہی ہے۔
مثلاً، ہم 2018میں تلنگانہ میں ہونے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ تلنگانہ میں کے سی آر کا قلعہ کتنا مضبوط رہا ہے۔تلنگانہ اسمبلی میں کل 119سیٹیں ہیں اور 2018میں ہوئے اسمبلی الیکشن میں ٹی آر ایس کو 88سیٹیں ملیں۔ یہ وہ دور تھا جب بی جے پی نریندر مودی کی شبیہ کے سہارے ہندوستان فتح کرنے کی مہم کے رتھ پر سوار تھی۔ لیکن کے سی آر کا دم تھا کہ ان کی پارٹی نے اکیلے 46.9فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ نریندر مودی اور امت شاہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود بی جے پی صرف ایک سیٹ پر جیت حاصل کرسکی۔ جب کہ اس نے کل 118سیٹیوں پر الیکشن لڑا تھا۔ رہی بات کانگریس کی تو اس نے 99سیٹوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے اور 19پر جیت حاصل کی۔ ٹی ڈی پی آندھراپردیش میں بھی اپنے وجود کے لیے جدوجہد کرتی رہی اور تلنگانہ میں اس نے صرف 13سیٹوں پر جدوجہد کی اور 2سیٹوں پر جیت حاصل کی۔
2018کے اسمبلی الیکشن میں صوبہ میں سب سے بڑی ہلچل اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے مچائی۔ اس نے8سیٹوں پر اپنے امیدوار اُتارے اور 7پرجیت حاصل کی۔ یہ اس صوبہ کی سیاست میں نئی تبدیلی تھی۔
حالاں کہ 2019میں جب لوک سبھا الیکشن ہوئے تو بی جے پی 17میں سے 4سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ اسے 19.45فیصد ووٹ ملے۔ وہیں ٹی آر ایس خواہ 9سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی، لیکن اس کے ووٹوں کے فیصد میں تقریباً پانچ فیصد گراوٹ درج کی گئی۔ ظاہری طور پر یہ اس وجہ سے بھی ہوا کیوں کہ تب صوبہ کے لیے نہیں، بلکہ مرکزی اقتدار کے لیے الیکشن ہوا تھا۔
اس پس منظر کی بنیاد پر اندازہ لگائیں تو تلنگانہ میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی الیکشن کے مدنظر سیاسی صف بندیوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔ صوبہ میں بی جے پی کی طاقت میں پہلے کے مقابلہ اضافہ ہوا ہے اور کانگریس مزید کمزور ہوئی ہے۔ اس سے کے سی آر بھی ناواقف نہیں ہیں۔ وہ اتنا تو سمجھتے ہی ہیں کہ قومی سیاست میں اہم بننے کے لیے اپنی ریاست میں اپنا قلعہ مضبوط رکھنا ہی ہوگا۔ وہ اویسی کے بڑھتے اثر سے بھی ناواقف نہیں ہوں گے۔ بی جے پی کے ہندوتو کے مقابلہ اویسی کی مذہبی بحث وہاں نئی صف بندیاں پیدا کرسکتی ہے۔ ایسے میں یہ تو واضح ہے کہ کے سی آر وہاں اتحاد کے لیے ایک امکان تیار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس امکان سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگر حالات ناموافق رہے تو کانگریس کے ساتھ وہ اتحاد کرسکتے ہیں۔ وجہ یہ کہ کانگریس ابھی بھی وہاں کم سے کم 15-20فیصد ووٹ حاصل کرنے کی اہل ہے۔ اس کے علاوہ راہل گاندھی کا جنوب پر زیادہ زور دینے کا فائدہ بھی کانگریس کو ملے گا۔ ایسے میں کے سی آر کے لیے اتحاد خسارہ کا سودا نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ اشارہ بھی دینا چاہتے ہیں کہ ہم اب قومی سیاست میں دخل دیں گے۔
اب رہا یہ سوال کہ کے سی آر کی خواہش سے اپوزیشن پارٹیوں میں پیدا ہورہے اتحاد کو کتنا نقصان پہنچے گا یا پھر بی جے پی کی صحت پر کتنا اثر پڑے گا، یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ جب علاقائی پارٹیوں کو ختم کرنے کی بی جے پی کی پالیسی نے این ڈی اے کو بے معنی کردیا ہے۔ خطرہ اصل میں بی جے پی کے لیے زیادہ ہے۔ علاقائی پارٹیوں کے لحاظ سے سوچیں تو ان کے لیے سب سے اہم تو یہی ہے کہ وہ اپنا وجود بچا کر رکھیں اور یہ تبھی بچ سکے گا جب وہ بی جے پی کے مقابلہ میں کھڑے ہوں گے۔
بہرحال علاقائی پارٹیوں کی اپنی مضبوطی کا اثر مرکزی اقتدارپر پڑتا ہے۔ کے سی آر، نتیش کمار، ایم کے اسٹالن، ممتابنرجی اور اروندکجریوال سبھی کے دعوے اہم ہیں اور راست طور پر بی جے پی کے لیے سخت چیلنج بھی کہ کانگریس بھلے ہی متبادل نہ ہو، لیکن اس ملک میں نریندر مودی کے متبادل موجود ہیں۔ یہ ملک میں جمہوریت کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ یہ ملک مغربی ممالک کے جیسا نہیں ہے، جہاں محدود تغیرات ہیں۔ یہ ملک ہی تنوع والا ہے اور ہر ایک کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اسے ’ایک ملک-ایک زبان-ایک مذہب‘ جیسے نعرے سے نہیں ہانکا جاسکتا۔
(مضمون نگار فارورڈ پریس،
نئی دہلی کے ہندی کے ایڈیٹر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS