5ریاستوں میں اسمبلی انتخابات 2024 سے پہلے کے ’منی عام انتخابات‘

0

قربان علی

5ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ انتخابات نومبر میں ہوں گے اور 3 دسمبر کو ان تمام ریاستوں کے انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ 2024 کے لوک سبھاانتخابات سے پہلے ہونے والے یہ اسمبلی انتخابات منی عام انتخابات ہیں۔ ان کے نتائج سے ایک طرح سے اندازہ لگے گا کہ لوک سبھا انتخابات میں سیاسی ہوا کس طرف بہنے والی ہے۔ 5 ریاستوں میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اورتلنگانہ کے اسمبلی انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا اثر قومی سیاست پر پڑے گا۔ میزورم کے اسمبلی انتخابات بھی اہم ہیں لیکن ان کا زیادہ اثر قومی سیاست پر نہیں پڑتا۔ وہاں زیادہ تر مقامی پارٹیاں انتخابی نتائج پر حاوی رہتی ہیں، البتہ بی جے پی کی اتحادی حکومت اگر بنتی ہے تو یہ اس کے لیے فائدے کی بات ہوگی۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اگر بات پہلے راجستھان کی کریں تو وہاں سچن پائلٹ کی وجہ سے گہلوت کے لیے ہنگامی حالات رہے لیکن ان حالات کا مقابلہ گہلوت نے بڑی اچھی طرح کیا اور اپنی ایک مضبوط امیج بنانے میں کامیاب رہے۔ جس طرح چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل نے اور اوڈیشہ میں نوین پٹنایک نے مفاد عامہ کی اسکیموں سے اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے، راجستھان میں اشوک گہلوت نے بھی اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں یہ سچ ہے کہ گزشتہ 25-30 سال سے راجستھان میں ایک بار کانگریس اور ایک بار بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع ملتا رہا ہے توسچ یہ بھی ہے کہ اس بار مفاد عامہ کی اسکیموں کی وجہ سے اشوک گہلوت کے خلاف زیادہ اِنٹی اِنکمبینسی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی انہیں جارح انداز میں چیلنج نہیں دے پا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے وسندھرا راجے کو کنارے کر رکھا ہے۔ ان کے کچھ لوگوں کو ٹکٹ دیا ہے مگر بڑی تعداد میں نہیں۔ بی جے پی نے راجستھان میں کئی رکن پارلیمان کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ دو تین تو وزیراعلیٰ کے ہی امیدوار ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں اشوک گہلوک کے لیے بی جے پی کی طرف سے زیادہ چیلنج نظر نہیں آرہا ہے۔ ان کے لیے زیادہ بڑا چیلنج پارٹی کے اندر سچن پائلٹ کی طرف سے ہوگا۔ راجستھان میں کانگریس اگر 90 سے کم سیٹیں جیت سکی تو پھر اشوک گہلوت کے لیے حکومت سازی آسان نہیں ہوگی لیکن کانگریس اگر 90 سے زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ اسی طرح حکومت بنا لیں گے جیسے 2018 میں بنایا تھا اور اگر کانگریس کو 100 سے زیادہ سیٹیں مل گئیں تو پھر اشوک گہلوت کی پوزیشن کافی مضبوط ہو جائے گی۔
2018 میں مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ وزیراعلیٰ بنے تھے۔ سیٹوں کے حصول کے معاملے میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ حکومت سازی کے لیے 116سیٹوں کی ضرورت تھی اور اسے 114 سیٹیں ملی تھیں مگر ووٹوں کے حصول کے معاملے میں تھوڑے سے ووٹوں سے وہ بی جے پی سے پیچھے رہ گئی تھی۔ کانگریس کو 40.89فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ بی جے پی نے 41.02 فیصد ووٹ حال کیے تھے یعنی اس نے کانگریس سے 0.13 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ کسی طرح کانگریس کی حکومت بن تو گئی تھی لیکن زیادہ چل نہیں کسی۔ کوووڈ کے دوران حکومت گر گئی، کیونکہ جیوترادتیہ سندھیا اپنے حامی لیڈروں کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔ کمل ناتھ نے جتنے دن بھی حکومت کی، وہ اس پر بات کر سکتے تھے لیکن اس بار اپنی انتخابی تشہیر ہندوتو کے سہارے چلا رہے ہیں۔ انہوں نے پوری توجہ ہندوتو کی سیاست پر مرکوز کر رکھی ہے۔ وہ ’ہم 82 فیصد ہیں۔‘ جیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک سوامی جی کو ہیلی کاپٹر میں لے کر گھوم رہے ہیں۔ دگ وجے سنگھ بھی مندروں میں جا رہے ہیں۔ ایسی صورت میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندوتو کی سیاست کرنے میں کیا کانگریس، بی جے پی کا مقابلہ کر پائے گی، کیونکہ وہ تو صد فیصد ہندوتو کی سیاست کرتی ہے، ہندوتو کی سیاست کے معاملے میں اس نے اپنی پیٹھ بنا رکھی ہے؟ ادھر بی جے پی حالات سے واقف ہے اور اسی لیے اس نے مرکزی لیڈروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے، انہیں امیدوار بنایا ہے تاکہ پورے جوش و خروش کے ساتھ انتخابی تشہیر کی جائے، انتخابی تشہیر میں کوئی کمی نہ چھوڑ ی جائے۔ یہ نظر بھی آرہا ہے کہ بی جے پی کوئی موقع چھوڑ نہیں رہی ہے۔ وہاں بی جے پی کی طرف سے وزیراعلیٰ کے لیے کئی امیدوار ہیں لیکن یہ بات طے سی لگتی ہے کہ پارٹی اگر اقتدار میں آئے گی تو شیوراج سنگھ چوہان ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ کوئی ان کے مقابلے میں نہیں۔ مدھیہ پردیش کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ یہاں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان مقابلہ ففٹی ففٹی کا ہے یعنی انتخابی نتائج کے سلسلے میں فی الوقت دعوے سے کچھ کہنا کافی مشکل ہے، البتہ چھتیس گڑھ میں مدھیہ پردیش کے حالات جیسے ہی حالات نہیں ہیں۔ وہاں صورتحال مختلف ہے۔
چھتیس گڑھ کی سیاسی تصویر بالکل واضح ہے۔ مقابلہ بالکل صاف ہے اور انتخابی نتائج کے سلسلے میں تذبذب والی کیفیت نہیں۔ بگھیل کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہاں ٹی این سنگھ دیئو کے بھوپیش بگھیل کے لیے سچن پائلٹ بننے کا خطرہ پیدا ہوا تھا لیکن انہیں نائب وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور صورتحال راجستھان جیسی نہیں رہی۔ ویسے راجستھان میں بھی سچن پائلٹ کو نائب وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا لیکن وہ وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے اور اس کی وجہ سے پارٹی میں ان کی وہ پوزیشن بھی نہیں رہی جو بغاوت سے پہلے تھی۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے مقابلے چھتیس گڑھ کے حالات بالکل الگ ہیں۔ کانگریس سب سے اچھی پوزیشن میں اسی ریاست میں ہے۔ تمام اشاروں سے یہی لگتا ہے لیکن جمہوری نظام میں کوئی حتمی بات اس وقت تک کہنا ٹھیک نہیں جب تک انتخابی نتائج نہیں آجاتے، اس لیے انتخابی نتائج کے آنے تک تو انتظار کرنا ہی پڑے گا، البتہ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو ایڈبانٹیج نظر نہیں آرہا۔ اب دیکھنے والی بات یہ ضرور ہوگی کہ کانگریس اتنی ہی سیٹیں حاصل کر پاتی ہے یا نہیں جتنی سیٹیں اسے 2018میں ملی تھیں یا اس کی سیٹوں میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ دیکھنے والی بات یہ بھی ہوگی کہ کانگریس کے ووٹوں میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی آتی ہے،کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ اسمبلی انتخابات سیمی فائنل ہیں تو اہمیت ووٹوں میں اضافے کی بھی بہت ہوگی، کیونکہ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں لوک سبھا کی 83 سیٹیں ہیں۔ اپنی بات یہ کہہ کر ختم کروں گا کہ راجستھان میں اشوک گہلوت کو ایڈوانٹیج ہے، مدھیہ پردیش میں کانگریس اور بی جے پی کے مابین مقابلہ ففٹی فٹی کا ہے جبکہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی پوزیشن کافی بہتر ہے۔n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS