مولانا ارشد مدنی مسلسل ساتویں مرتبہ جمعیۃ علماء ہند کے صدرمنتخب،تعلیمی وظائف کی رقم 50 لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑروپے کی گئی
نئی دہلی : ملک کے موجودہ حالا ت کے پیش نظرآج مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند منعقد ہوا۔اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بد تر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز پر خاص کر تعلیم اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر تفصیل سے غور وخوض ہوا۔ اس اجلا س میں ممبران نے تمام مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔ ایجنڈے کے مطابق میٹنگ میں جمعیۃ علماء ہند کے آئندہ ٹرم کی صدارت کیلئے ریاستی جمعیتوں کی مجلس عاملہ کی سفارشات کا جائزہ لیا گیا، تمام ریاستی یونٹوں نے متفقہ طور پر صرف حضرت مولانا سیدارشد مدنی مدظلہٗ کے نام کی سفارش کی، لہٰذا مجلس عاملہ نے جمعیۃ علماء ہند کے آئندہ ٹرم کی صدارت کیلئے مولاناسید ارشد مدنی کے نام کا اعلان کردیا۔
واضح رہے کہ ضابطے کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کی ہر دو سال میں ممبر سازی ہوتی ہے۔ لاک ڈاؤن میں جمعیۃ علماء ہند کی بے لوث خدمات، دہلی فساد سے متاثرین اور ملزمین کی قانونی اورسماجی مدد، تبلیغی جماعت پر منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد وغیرہ کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں جمعیۃ کی طرف نئے لوگوں کا رجحان بڑھا ہے، جس کی وجہ سے جمعیۃ کی ممبرشپ حاصل کرنے کیلئے لوگ بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں اور ہر صوبے میں جمعیۃ کے دفاتر سے نئے لوگوں کی ایک معتدبہ تعداد مستقل رابطے میں ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے ٹرم میں جمعیۃ کے ممبران کی تعداد تقریباً ایک کڑوڑ 15 لاکھ تھی، جبکہ اس سال اس تعداد میں اضافے کے قوی امکانات ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے آج سے 31 جولائی تک اس ٹرم کی ممبر سازی کا اعلان کیا ہے۔ تعلیم کے فروغ پر جمعیۃ علماء ہند کی توجہ روز اوّل ہی سے رہی ہے، مکاتب ومدارس کے قیام کے ساتھ ساتھ عصری و ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور ضرورتمند طلبا کیلئے تعلیمی وظائف دینے کا مسلسل کام جاری ہے اور اس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس سال 50 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کی رقم تعلیمی وظائف کیلئے مختص کی گئی تھی، جس کیلئے پورے ملک سے تقریباً 600 طلبا منتخب کئے گئے ہیں،جن میں سے اب تک تقریباً 500 طلبا کو وظیفہ جاری کر دیا گیا ہے،تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے مولاناسید ارشدمدنی نے وظائف کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حدتک سنور سکتا ہے، جنہیںاپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے، اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹیکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا، اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں، جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا۔ سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میںکہاہے کہ مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔ مولانامدنی نے سوال کیا کہ یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیداہوئی اوراس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پرہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خودجان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد اقتدارمیں آنے والی تمام سرکاروں نے مسلمانوںکو تعلیمی پسماندگی کاشکار بنائے رکھا۔ انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تواپنی صلاحیتوں اورلیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائزہوجائیںگے، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں ہوتی رہیں، جس کے نتیجہ میںمسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہوگئے۔ مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بارپھراپنی یہ بات دہرانا چاہیںگے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوںکو اعلیٰ تعلیم دلوائیں، اور کارزارحیات میں کامیابی کیلئے ہماری نوجوان نسل تعلیم کواپنا اصل ہتھیار بنالے۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے، جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیاز کے بغیر حاصل کرسکیں۔ انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے، وہ ایسے اسکول قائم کریں، جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے، اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے، لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگاکہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہندکا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کررہی ہے، چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتب ومدارس قائم کررہی ہے، وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زوردینا شروع کردیا ہے، جو روزگارفراہم کرتاہے ، روزگارفراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اورمسابقتی تعلیم ہے، تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں، انہیں فوراًروزگاراور ملازمت مل سکے اور وہ خودکو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ تعلیم کے تعلق سے جمعیۃ علماء ہند آزادی کے بعد سے ہی انتہائی حساس رہی ہے، چنانچہ اس کے اکابرین نے 1954 میں ایک دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانا اور ملک کے طول وعرض میں مکاتب و مدارس قائم کرنا تھا، چنانچہ یہ جو ہم پورے ملک میں مکاتب و مدارس کا بچھا ہوا جال دیکھ رہے ہیں، یہ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے، لیکن اب اس سلسلے میں ہمیں نئے سرے سے مہم شروع کرنی ہوگی۔ اسی لئے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اپنے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر ایک مؤثرمہم شروع کرے گی اور جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوئی، تعلیمی ادارے بھی قائم کرے گی اورقوم کے تمام ذمہ اداران کو اس طرف راغب کرانے کی ہر ممکن کوشش بھی، اس لئے کہ آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی، جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکیں، جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھاپانے سے قاصرہیں۔ انہوں نے آگے کہاکہ قوموں کی زندگی میں گھر بیٹھے انقلاب نہیں آتے، بلکہ اس کیلئے عملی طورپر کوشش کی جاتی ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات اقلیتوں خاص طور پر مسلم اقلیت اور دلتوں کیلئے انتہائی خطرناک ہوچکے ہیں، ایک طرف جہاں آئین اور قانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کو ختم کردینے کی خطرناک روش اختیار کی جارہی ہے۔ ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانب داری اور رواداری کیلئے مشہور ہے، سیکولرزم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے، بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے۔ کثیر المذاہب ملک میں کسی ایک خاص مذہب اور خاص سوچ کی حکمرانی نہیں چل سکتی۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص نظریے کی بنیاد پر چلے گا یا قومیت کی بنیادپر یا سیکولرزم کے اصولوں پر؟ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ملک سب کا ہے،ہندوستان ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار رہاہے،اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے۔ انہوں نے اخیر میں تمام مسلمانوں سے خاص طور پر یہ اپیل کی کہ وہ جہاں بھی ہوں محبت، امن واتحاد کے پیغامبر بن جائیں،نفرت سے نفرت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔یادرکھیںنفرت کو صرف محبت سے ہی شکست دی جاسکتی ہے ۔ ورکنگ کمیٹی نے ریاستی ،ضلعی اور مقامی یونٹوں کو متوجہ کیا کہ وہ جمعیۃ علماء ہند کے تعمیر ی پروگرام خصوصاً اصلاح معاشرہ کے پروگرام کو بطور تحریک چلائیں، جس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب ہوسکے۔
شرکاء اجلاس میں صدرمحترم مدظلہٗ کے علاوہ مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند،مولانا حبیب الرحمن قاسمی ،مولانا سید اسجد مدنی ،مولانا اشہد رشیدی ، مولانا مشتاق عنفر،مفتی غیاث الدین، مولانا عبداللہ ناصر، حاجی حسن احمد قادری، حاجی سلامت اللہ وغیرہ اور مدعوئین خصوصی بھی شریک ہوئے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS