مایا وتی نے پھر نبھائی بی جے پی سے دوستی : شاہد زبیری

0
Image: Outlook India

شاہد زبیری
جس وقت یہ سطریں تحریر کی جا رہی تھیں وزیر اعظم نریندر مودی نئی پارلیمنٹ کا افتتاح کرچکے تھے ۔افتتاح کے لیے بی جے پی نے ویر ساورکر کے یومِ پیدائش کی تاریخ کا خاص طور پر انتخاب کیا اور ہون و دگر مذہبی روایات کے ساتھ افتتاح کی رسم انجام دی گئی اور ایک سیکولر ملک کی نئی پارلیمنٹ کا افتتا ح کیا گیا ۔ بی جے پی سرکار اور وزیر اعظم نے کانگریس سمیت اپوزیشن کی 21جماعتوں کے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ آئین ہند کی دفعہ 79کے تحت چونکہ صدرجمہوریہ ہی ایوان بالا (راجیہ سبھا) اور ایوان زیریں ( لوک سبھا) کا سربراہ ہوتا ہے اس لئے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح موجودہ صدر مرمو سے کرایا جا ئے جو کہ نہ صرف خاتون ہیں بلک شیڈول ٹرائب سے بھی تعلق رکھتی ہیںاگر وزیر اعظم خود اس کا افتتاح کریں گے تو یہ نہ صرف نا پسندیدہ اور صدرجمہوریہ کے منصب کی توہین ہے بلکہ آئین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ صدرجمہوریہ کے ہاتھوں افتتاح کا مطالبہ کرنے والی اپوزیشن جماعتوں میں کا نگریس کے علاوہ ڈی ایم کے،عام آدمی پارٹی، تر نمول کانگریس، نیشنل کانگریس پارٹی ،جنتا دل یو ،راشٹریہ جنتا دل ، لوکدل، شیو سینا ( ادھو ٹھاکرے)سماجوادی پارٹی ،سی پی آئی ،سی پی ایم ،نیشنل کانفرنس ،جھار کھنڈ مکتی مورچہ،کیرل کانگریس ( منی) انڈین نیشنل مسلم لیگ وغیرہ نمایاں ہیں ۔ افتتاح کو لے کر جو تنازع کھڑا ہوا تھا وہ سرخیوں چھا یا رہا لیکن وزیر اعظم اور ان کی پارٹی بی جے پی نے اس کی پرواہ نہیں کی اور حسب عادت جس کو صحیح سمجھا اور مانا وہی کیا۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس کے اور وزیر اعظم کے اس قدم کی تائید دیگر 24جماعتوں نے بھی کی ہے اور تائید کرنے والوں میں تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی رائو اور بہوجن سماج پارٹی کی سپریمومایاوتی بھی شامل ہیں۔
ہر چند کہ بی جے پی کے خلاف کانگریس کے استثنیٰ کے ساتھ کے سی رائو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کیلئے کو شاں تھے وہ کانگریس کو تلنگانہ میں اپنی جماعت کی بقاء اور وجود کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے خود کو اپوزیشن جماعتوں کے مطالبہ سے الگ رکھا لیکن بی ایس پی سپریمو مایا وتی کی تائید پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے بی جے پی جب جب کسی مشکل یا کسی امتحان میں پھنستی ہے مایاوتی نے ہمیشہ کبھی کھل کر اور کبھی پس پردہ بی جے پی کی مدد کی ہے وہ بی جے پی کے اس احسان کو کبھی نہیں بھولی ہیں جب بی جے پی کی مدد سے ان کے سر پر وزیر اعلیٰ کا تاج رکھا گیا تھا اب جبکہ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتیں نئی پارلیمنٹ کا افتتاح صدر جمہوریہ سے کرائے جا نے کا مطالبہ کررہی تھیں ما یا وتی نے اپوزیشن جماعتوں کو زور کا جھٹکا آہستہ سے دیا ہے ۔بی ایس پی، ایس سی/ایس ٹی کو اپنے نام پیٹینٹ کرائے جا نے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ایس ٹی طبقہ سے تعلق رکھنے والی خاتون کے ہاتھوں جب نئی پارلیمنٹ کاسوال آیا تو انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور وزیر اعظم اور بی جے پی کے مئوقف اور قدم کی تائید کا اعلان کردیا اور یہ اشارہ بھی دیدیا کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں ان کا اور ان کی پارٹی بی ایس پی کا کیا رخ رہے گا۔
بی ایس پی پر جب بی جے پی کی B’ ‘ کا الزام لگتا ہے تو بی ایس پی سپریمو مایا وتی بھڑک اٹھتی ہیںلیکن ان کے سیاسی طرزِ عمل سے یہ الزام ہمیشہ سے ان پر چسپاں ہے ۔2022کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی ایس پی پر بی جے پی کو فائدہ پہنچا نے کے الزامات لگے تھے اور بی ایس پی کے حصہ میںصرف ایک سیٹ آئی تھی لیکن ہار کا ٹھیکرا مایا وتی نے حسب عادت مسلمانوں کے سر پھو ڑا تھا اگر بی ایس پی سنجیدگی سے الیکشن لڑتی تو اس کا کاڈر ووٹ بی جے پی کے کھاتہ میں نہیں جاتا اور دوبارہ بی جے پی کی سرکار یو پی میں نہ بنتی ۔اس سے پہلے بھی اسی طرح کے الزامات بی ایس پی ر لگتے رہے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں غیر معروف اور نو سیکھئے 11مسلم امیدواروں کو بی ایس پی نے ٹکٹ دیے لیکن 17میئر کے امیدواروں میں اس کا ایک بھی امیدوار کا میاب نہیں ہوا بلکہ گزشتہ بلدیا تی انتخابات میں میرٹھ اور علی گڑھ کی جن دو سیٹوں پر بی ایس پی کا قبضہ تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔بلدیاتی انتخابات میں شرمناک شکست کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ بی ایس پی تیسرے نمبر کی پارٹی بن کر رہ گئی جبکہ سماجوادی پارٹی نے میئر کی کوئی سیٹ چاہے نہ جیتی ہو لیکن وہ دوسرے نمبر پر رہی نگر پالیکا ا ور نگر پنچائتوں کے چیئر مین اور ممبران کی تعداد بی ایس پی سے زیادہ رہی ۔ بلدیا تی انتخابات میں شکست فاش کے بعد بی ایس پی سپریمو نے لکھنؤمیں کاورڈینیٹرس اور اضلاع کے صدور کی میٹنگ میں آئندہ بھی اکیلا چلو کا ہی اعلان کیا ہے اور مایاوتی نے اپوزیشن اتحاد کی ان تمام کو ششوں سے خود کو علیحدہ رکھا ہے جو الگ الگ سطحوں پر کی جا رہی ہیں مانا کہ ابھی تک یہ کوششیں لا حاصل دکھا ئی دے رہی ہیں لیکن ابھی بھی امید باقی ہے اور اپوزیشن اتحاد ممکن ہے ۔کر ناٹک میں کا نگریس کی شاندار اور تاریخ ساز کامیابی نے جہاں اپوزیشن اتحاد کے امکانات کو روشن کیا ہے بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے اس طلسم کو بھی توڑا ہے کہ یہ دونوں نا قابلِ تسخیر ہیں اور ان کو شکست نہیں دی جا سکتی ۔کانگریس کی اس کامیابی نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کی ہندتو اکی پچ میں نہ پھنسے اور سیکولر اور جمہوری اقدار پر میدان میں اتریں تو وہ بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی اور نفرت کی سیاست کو دھول چٹاسکتی ہیں۔پارلیمانی انتخابات میں یو پی کو اولیت حاصل ہے کہا یہ جاتا رہا ہے کہ دہلی کے اقتدار کا راستہ یو پی سے ہو کر جا تا ہے اگر بی جے پی کے مقابلہ اپوزیشن جماعتوں کا کوئی اتحاد جس میں کانگریس ہی نہیں بی ایس پی بھی شامل ہو تو کوئی عجب نہیں کہ یو پی سے بی جے پی کا صفا یا ہو جا ئے کانگریس سے یہ امید کی جا تی ہے کہ وہ ان ریاستوں میں جہاں وہ کمزور ہے دوسری پارٹیوں کے امیدوار وں کی مدد کرے تو یو پی میں سماجوادی اور بی ایس پی دونوں کو فا ئدہ پہنچ سکتا ہے سماجوادی پارٹی نے تو نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے مسئلہ پر اپنا وزن اپوزیشن جماعتوں کے پلڑے میں ہی ڈالا ہے لیکن مایاوتی مخالف سمت چل پڑی ہیں اور کھل کر انہوںنے بی جے پی کے موقف اور قدم کی تائید کی ہے اور ایک مرتبہ پھر انہوں نے بی جے پی سے اپنی دوستی نبھا ئی ہے جس سے صاف اندازہ ہو تا ہے کہ اگر یو پی میں بی جے پی مخالف کوئی اپوزیشن اتحادبنتا بھی ہے تو مایا وتی اس اتحاد سے خود کو دور رکھیں گی اور ممکن ہے کہ پس پردہ یا ظاہر ہ 2024 میںبی ایس پی کا کوئی سمجھوتہ بی جے پی کے ساتھ ہو جا ئے ۔قابلِ زکر ہے کہ ڈاکٹر بھیم رائو امیبیڈ کر کے بعد کانشی رام اس حقیقت کو جان گئے تھے کہ سماج کے کمزور طبقات دلت ،مسلم اور دیگر پسماندہ طبقات کے اتحاد کے بل پر ان کی آواز کو ایوانِ اقتدار تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔کانشی رام نے اس مقصد کیلئے پہلے 1971میں ایک تنظیم بنائی، دوسری تنظیم 1981میں بنا ئی جس کا نام ڈی ایس 4یعنی دلت سوشت سنگھرش سمیتی رکھا اور 198میںبہو جن سماج پارٹی کی بنیا د رکھی ۔مایاوتی 4مرتبہ وزیر اعلیٰ بنیںآخری مرتبہ انہوں نے دلت مسلم گٹھ جوڑ کی بنیاد پرمکمل اکثریت کے ساتھ 2007میں سرکار بنائی تھی کانشی رام کی موت کے بعد مایا وتی پر الزام ہے کہ انہوں نے کانشی رام کی وراثت کو سنبھال کر نہیں رکھا اور تلک ترازو اور تلوار کے ساتھ قابل اعتراض نعرہ دینے والی بی ایس پی نے ہاتھی نہیں گنیش ہے کے نعرہ کے سہارے کانشی رام سے الگ اپنی راہ بنا ئی اور کانشی رام کے اصول طاق پر رکھ دیے اسی لئے مایاوتی پر مفاد پرستی کے الزامات لگنے لگے ، دلت مسلم و دگر پسماندہ طبقات کے اتحاد کا شیرازہ بکھرگیا اور مایاوتی کا سحر ٹوٹنے لگا اور مایا وتی کی قربتیں بی جے پی سے بڑھتی گئیں نتیجہ سامنے ہے چار مرتبہ اقتدار میں رہنے والی بی ایس پی کا اسمبلی میں اب صرف ایک ایم ایل اے ہے۔ایسی حالت میں بی جے پی کے ساتھ بی ایس پی کی بڑھتی قربتیں اس کی رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کردیں گی اور اس کا کاڈر ووٹ دلت ووٹ اس کے ہاتھ سے پھسل کربی جے پی کے کھاتہ میں چلا جا ئے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS