آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

0

سید خالد حسین (سنگاپور)
ہندوستان کے مشہور و معروف سینئر وکیل ظفریاب جیلانی، جو 17 مئی کو 73 سال کی عمر میں ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں انتقال کر گئے، 1950 میں لکھنؤ کے قریب ایک چھوٹے سے شہر ملیح آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ جیلانی صاحب تقریباً دو سال قبل اسلامیہ کالج میں واقع اپنے دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گر پڑے تھے جس کی وجہ سے انہیں برین ہیمرج ہوگیا تھا۔ لکھنؤ کے میدانتا اسپتال سے لے کر نشاط اسپتال تک کئی جگہ ان کا اہم ڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج ہوا لیکن وہ صحتیاب نہیں ہو سکے اور بالآخر بروز بدھ انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
جیلانی صاحب اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں واقع پانچ سو سال قدیم بابری مسجد کی بازیابی کے لیے سالہاسال تک چلی قانونی جنگ کے ایک انتہائی اہم کردار تھے۔ انھوں نے اپنی عمر کا تقریباً دو تہائی حصہ اس تاریخی مسجد کی بازیابی کے لئے صرف کردیا تھا۔ وہ مسلم پرسنل لاء اور انڈین پینل کوڈ سے متعلق اس کے مسائل پر ایک سرکردہ شخصیت تھے۔
جیلانی صاحب 1972 میں قائم ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری، بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے چیئرمین، آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے قومی کنوینر اور سنی سنٹرل وقف بورڈ کے سینئر وکیل ہونے کے علاوہ 2012 سے 2017 تک اتر پردیش کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بھی رہے۔ مسلم مسائل کے ایک سرکردہ کارکن کی حیثیت سے وہ انجمن اصلاح المسلمین سمیت کئی غیر سرکاری رضا کار تنظیموں سے بھی منسلک رہے۔ 100 سال پرانی انجمن اصلاح المسلمین تین کالج، ایک قبرستان اور لڑکیوں اور لڑکوں کا ایک یتیم خانہ چلاتی ہے اور اس کے علاوہ لاوارث انسانی لاشوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔ جیلانی صاحب نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور سکریٹری کی حیثیت سے شریعت کے تحفظ کے باب میں اہم خدمات انجام۔دیں۔ آل انڈیا ملی و دینی کاؤنسل میں رہتے ہوئے اہم کام کیے۔ اسلامیہ کالج، ممتاز کالج ، ممتاز دار الیتامہ، مسلم مسافر خانہ اور دیگر کئی محاذوں پر وہ تمام زندگی ملت و سماج کی بھلائی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے کام کرتے رہے۔ لیکن آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر کی حیثیت سے ان کی شناخت پوری دنیا میں قائم ہوگئی تھی ۔
جیلانی صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لکھنؤ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے لگے۔ مسلمانوں سے متعلق مسائل پر وہ مسلسل سرگرم رہتے تھے جس کی وجہ سے 1978 میں وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے وابستہ ہو گئے اور 1985 میں وہ بورڈ کے ممبر بن گئے۔ ان کی صلاحیتوں کو جلد ہی تسلیم کر لیا گیا اور انہیں شاہ بانو کیس میں پرسنل لا بورڈ ایکشن کمیٹی کا کنوینر بنا دیا گیا۔
فروری 1986 میں فیض آباد ڈسٹرکٹ جج کے بابری مسجد کے تالے کھولنے کے حکم کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی قائم کی جس کا مقصد اس تاریخی مسجد کی حمایت میں ایک مہم شروع کرنا اور ہندوتوا کی بڑھتی ہوئی لہر کا مقابلہ کرنا تھا۔ جیلانی صاحب کو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا کنوینر بنا دیا گیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے قیام کے دو سال بعد اس کو ایک قومی سطح کی تنظیم میں تبدیل کر کے اسے آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا نام دے دیا گیا اور جیلانی صاحب کو اس کے قومی کنوینر کے عہدے اور سنی سنٹرل وقف بورڈ کے سینئر وکیل کے لیے چن لیا گیا۔
جیلانی صاحب نے جب سے بابری مسجد قضیہ سے خود کو وابستہ کیا ان کی شناخت پورے ملک میں بڑے وکیل کی حیثیت سے ہوگئی تھی اوروہ ایک ملی قائد کے طور پر پہچانے جانے لگے تھے۔ جیلانی صاحب نے 45 سال تک سپریم کورٹ میں بابری مسجد کیس میں مسلم درخواست گزاروں کی طرف سے نمائندگی کی اور کیس لڑا۔ وہ ایک محور تھے جس کے گرد بابری مسجد کی مہم گھومتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیلانی صاحب کی بے پناہ ساکھ کی وجہ سے بابری مسجد کیس میں مسلمانوں کی طرف سے درجنوں نامور وکلاء نے درخواست کی، وہ بھی بغیر کسی معاوضہ کے پیروی کریں گے ۔ 2003 میں جب اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں این۔ڈی۔اے۔ کے وزیر قانون ارون جیٹلی نے بابری مسجد کے اطراف کی زمین پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو جیلانی صاحب نے اکیلے ہی اس اقدام کو ناکام بنا دیا۔
1986 میں بابری مسجد کے تالے کھلنے سے لے کر سن 2019 تک جیلانی صاحب مسلمانوں کے لیے مسجد کی بحالی کے لیے انتھک محنت کرتے رہے۔ بالآخر 2019 میں جب سپریم کورٹ نے زمینی تنازعہ کیس میں مسلمانوں کے حق میں تمام تاریخی ثبوتوں کے باوجو ان کے خلاف فیصلہ سنایا تو جیلانی صاحب نے اس فیصلے سے عدم اطمینان کا اظہار کیا لیکن کہا کہ وہ اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔
جیلانی صاحب ملت سے ہمدردی رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے تقریباً ہر ملی تنظیم کے ساتھ کام کیا یا ان سے وابستہ رہے۔ آپ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی حیثیت کی بحالی سے متعلق چلنے والی تحریک کے سرگرم رکن بھی رہے۔
سیاست میں نہ ہونے کے باوجود جیلانی صاحب مستقل تین دہائیوں تک میڈیا کی سرخیوں میں ایک اہم شخصیت کے طور پر بنے رہے۔ جیلانی صاحب نے سیاسی نظریہ نگار ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی سے سیاست سیکھنے کا سنہرا موقع ملا۔ ڈاکٹر فریدی مسلم مجلس کے بانی تھے، جو کہ 1968 میں قائم کی گئی تھی اور جس نے مسلمانوں کو کانگریس کی حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف ’سب سے پہلے آواز اٹھانے‘پر مجبور کیا تھا۔
تین چار سال قبل جیلانی صاحب نے اپنے وکلاء کی فوج کو، جن میں سے ایک بڑی تعداد غیر مسلموں کی تھی، سی۔اے۔اے / این۔ار۔سی۔ کے خلاف تحریک کے دوران گرفتار ہونے والے سینکڑوں مسلمانوں کو بچانے کے لیے چوبیس گھنٹے محنت کی۔
اور یہ جیلانی صاحب ہی تھے جنہوں نے 30 اگست 2010 کی صبح ملائم سنگھ کی کونسلنگ کی جنہوں نے لالو پرساد یادو کے ساتھ مل کر دوپہر کو پارلیمنٹ میں دشمن جائیداد (ترمیم) بل کو پھاڑ دیا اور کانگریس نے بل واپس لے لیا تھا۔
مجموعی طور ظفریاب جیلانی کی زندگی ایک مسلسل جہد سے عبارت تھی۔ مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کا انتقال ان کے خاندان، عزیزوں اور دوستوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ ان کی رحلت پر کئی مسلم رہنماؤں اور سیاست دانوں نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور ان کے انتقال کو قوم کے لئے خسارہ قرار دیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS