مولانا ابو الکلام آزادؒ اور خواتین

0

فیروز بخت احمد
امام الہند حضرت مولانا ابو الکلام آزاد کے تعلق سے جب بھی خواتین کی بات ہوتی ہے تو یہی بات نکل کر آتی ہے کہ ان کے دل میں خواتین کے لئے گوشئہِ نرم تھا اور وہ ان کی تعلیم کے لئے نہ صرف بطور وزیر تعلیم بلکہ اپنی تمام ذاتی زندگی میں ہمیشہ سے کوشاں رہے۔ جہاں تک خواتین کی تعلیم ہے،ان کا نظریہ مہاتما گاندھی جیسا ہی تھا۔ مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے کہ ایک لڑکے کو تعلیم یافتہ کرنے کا مطلب ہوتا ہے ، محض ایک فرد کو تعلیم فراہم کرنا، جبکہ ایک لڑکی کو تعلیم دینے کا مطلب ہے پوری ایک نسل کو تعلیم یافتہ بنانا ۔ بالکل یہی خیال مولانا ابو الکلام آزاد کا بھی تھا۔
مولانا کے والد حضرت مولانا خیر الدین ؒبھی خواتین کی تعلیم کے تعلق سے فکر مند رہتے تھے۔ اپنے پانچوں بچوں کی تعلیم میں ان کا بہت بڑا رول تھا۔ جب وہ بچوں کو پڑھانے بیٹھتے تو صرف دونوں لڑکوں کو ہی نہیں بلکہ تینوں بیٹیوں کو سبق میں شامل رکھتے تھے ۔ مولانا آزاد اپنے سبھی بہن بھائیوں میںسب سے چھوٹے تھے۔ خدیجہ بیگم سب سے بڑی تھیں ان سے دو سال چھوٹی فاطمہ بیگم تھیں اور ان سے دو سال چھوٹی حنیفہ بیگم تھیں۔ ابو النصر آہ بھی حنیفہ بیگم سے دو سال چھوٹے تھے جبکہ مولانا بھی ابو النصر سے دو سال چھوٹے تھے یعنی سبھی بہن بھائیوں کی عمر میں دو ، دو سال کا فرق تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب لوگ تعلیمِ نسواں کو اچھا نہیں جانتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ خواتین تعلیم حاصل کر کے ضدی اور بے قابو ہو جاتی ہیں۔ اس کے بر عکس نہ صرف مولانا آزاد بلکہ ان کے والد مولانا خیر الدین کا سوچنا یہ تھا کہ خواتین جتنی تعلیم یافتہ ہوں گی ، اتنا ہی ان کے حق میں بہتر و برتر ہوگا۔ وہ شیخ محمد ہادی کے فرزند تھے اوران کاشجرہ ممتاز عالم و فاضل وعہد اکبری کے مشاہیر علماء و اصحاب اصلوب میں شمار کئے جانے والے شیخ جمال الدین عرف بہلول دہلوی سے ملتا ہے۔لہٰذاخواتین سے اچھا سلوک مولانا کے خون میں شامل تھا۔
مولانا خیرالدین بڑے خوش نصیب شخص تھے کہ عزت و نیک نامی کے ساتھ خلق و خدا کی خدمت میںزندگی بسر کی ۔ ان کی خوش نصیبی کا دوسرا پہلو ان کی اولاد صالح تھی جس نے دین دنیا کی حتی المقدور خدمت گزاری کی۔ ابو النصرآہ غلام یٰسین دہلوی اور ابولکلام محی الدین احمد آزاددہلوی مجموعۂ کمالات تھے تو صاحبزادیوں میں فاطمہ بیگم آرزو، اورحنیفہ بیگم آبرو نے شعر وسخن سے شغف جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ خواتین میںوطن کی بیداری ، معاشرتی اصلاح، جدو جہد آزادی اورتعلیم نسواں کے سلسلہ میں اہم فعال کردار ادا کئے۔
اس کی نذیرکہ مولانا کی بہنیں تعلیم سے رغبت رکھتی تھیں،ہمیں اس بات سے مل جاتی ہے کہ ان کی تینوں بہنیں یعنی خدیجہ بیگم،فاطمہ بیگم (آرزو بیگم)اور حنیفہ بیگم (آبرو بیگم) نہ صرف تعلیم یافتہ تھیں بلکہ انہوں نے تعلیمِ نسواں کا باقائدہ ایک جہاد سا چھیڑا ہوا تھا۔ حالانکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی یعنی خدیجہ بیگم کا انتقال 1943 میںہو گیا تھا ، ان کی تعلیمی لیاقت بھی کم نہ تھی۔حضرت مولانا کی شریک حیات زلیخا بیگم بھی تعلیم یافتہ تھیں۔یہی نہیں، زلیخا بیگم کے بہن بھائی بھی تعلیم یافتہ تھے جن میں زبیدہ بی بی اور حفیظہ بی بی (مولانا کے بڑے بھائی ابو النصرآہ کی شریک حیات)ان سے بڑی تھیں اور زہرہ بی بی و حنیفہ بی بی، ان سے چھوٹی تھیں۔مولانا کی خود تو کوئی اولاد نہ تھی مگر انہوں نے اپنے بڑے بھائی غلام یٰسین ابو النصر آہ کے واحد فرزند نورالدین کی پرورش بالکل اپنی اولاد کی طرح کی۔جہاں تک نورالدین صاحب کا تعلق ہے، ان کی شریک حیات، نازک جہاں بیگم نے جامعہ اردو، علی گڑھ سے معلم کی سند حاصل کی تھی۔ ان کی چھوٹی بہن قیصر جہاں بیگم نے تو تعلیم کے سبھی ریکارڈ توڑ دئے تھے۔ 1950کی دہائی میں قیصر جہاں بیگم نے یکے بعد دیگرے معاشیات، تاریخ اور اردو میں تین ایم۔ اے۔ کر ڈالے ۔
مولانا کی زندگی میں بقول ان کے ، دو خواتین کا ان کے اوپر بے تحاشہ اثر رہا۔ اپنی ماں سے یعنی عالیہ بیگم جو کہ زینب کے نام سے بھی جانی جاتی ہیںاور جو شیخ طاہر وطری کی نواسی تھیں، مولانا آزاد غالباً سب سے زیادہ مرعوب تھے ۔ان کی کردارسازی میں جتنا بڑا ہاتھ والد ماجد حضرت مولانا خیر الدین ؒ کا تھا ، والدہ کا بھی اتنا ہی بڑاہاتھ تھا۔مولانا نے عربی میں جو کہ صحیح معنوں میں ان کی عربی زبان تھی، اپنی ماں سے مہارت حاصل کی تھی۔ حالانکہ گھر میں اچھی خاصی اردو بولی جاتی تھی مگر بقول مولانا ،ان کی والدہ اردو بول چال کو بہت زیادہ مناسب نہ سمجھتی تھیں۔مولانا آزاد کی والدہ کا انتقال مولانا خیرالدین کے ہندوستان واپس آنے اور کلکتہ میں قیام پذیر ہونے کے ایک سال کے اندر ہی 1899ہو گیا تھا۔ان کی تدفین مانک تلہ قبرستان میں عمل میں آئی۔ مولانا خیرالدین نے ان کی قبر پر ایک خاص قسم کی سنگ مرمر کی عمارت تعمیر کروادی۔ ان کی قبر کے پہلو میں اپنے لئے بھی جگہ محفوظ کر لی تھی چنانچہ یہ دونوں ایک ہی گنبد کے نیچے آسودئہ خواب ابدی ہیں۔اتفاق سے مولاناآزاد کی شریکِ حیات زلیخا بیگم کی قبر بھی یہیں پر ہے۔ان کی قبر پر مولانا ابو الکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ فار ایشین اسٹڈیز کی جانب سے ایک تقریب میں 9اپریل 2004میںلوح نصب کی گئی ۔
بقول مولانا آزاد، محترمہ عالیہ یا زینب سادہ مزاج ، خداترس، نیک اطوار اور مذہبی رجحان رکھنے والی خاتون تھیں۔ان کا گھر حجازی تہذیب و تمدن کا نمونہ تھا اور اپنے اخلاق و مہمان نوازی سے انہوں عرب روایات کو زندہ رکھا۔ باوجود اس کے کہ ہر نوع کی آسائش اور خوشحالی میسر تھی ، وہ خود نمائی، خود ستائی یا ظاہری فخر و مباہات جیسی برائیوں سے دور رہیں۔ ان کی کوشش رہی کہ جو اوصاف حمیدہ ان میں موجود ہیں، وہ ان کی اولاد میں بھی پیدا ہو جائیں اور یقینا اس سلسلے میں وہ کامیاب رہیں۔
جہاں تک زلیخا بیگم کا تعلق ہے، مولانا آزاد بسا اوقات اپنی بہنوں سے اس بات کا ذکر کرتے کہ انہوں نے اپنی شریک حیات کا حق ادا نہیں کیا۔ اس سے ہماری مراد یہاں یہ ہے کہ مولانا جدوجہد آزادی کے سلسلہ میں زیادہ تر گھر سے باہر رہتے ۔مولانا کی بہنیں زلیخا بیگم کو ’’تاج دلہن‘‘ کے نام سے پکارتی تھیں۔ دونوں بہنوں کو اپنی بھاوج زلیخا بیگم سے بے تحاشہ محبت تھی اور وہ انہیں نہایت ہی عزت و احترام سے مخاطب کرتی تھیں۔ اگر چہ وہ عمر اور رشتے میں بہنوں سے چھوٹی تھیں،دونوں بہنیں ان کی بے تحاشہ عزت کیا کرتی تھیں دونوں بہنوں نے اپنی بھاوج کو ایک ڈائری تحفہ میں دی تھی جس پر لکھا تھا : ’’بگرامیِ خدمت ِ عالی جناب تاج دلہن صاحبہ:
’’دو دورافتادگاں راگاہے یادمی کردی
مگر گم کردہ قاصد راکہ پیغامے نمی آرد!‘‘
–تحفہ ناچیز ازطرف خاکسار آرزو و آبرو
مولانا زلیخا بیگم سے دیوانگی کی حد تک محبت کیا کرتے تھے۔ زلیخا کو علم تھا کہ وہ صدی کے بہت بڑے عالم طرزِ خاص کے صحافی ، انفرادیت کے حامل انشا پرداز، دلوں کو گرمانے اور ہلا دینے والے خطیب، مستقل مزاج سیاست داں ، مفسرِ قرآن اور با کردار شوہر کی شریک حیات تھیں۔زلیخا بیگم نے اپنے شوہر کی مصروفیات کا کبھی گلہ نہ کیا ۔منہ سے اف تک نہ کی۔ ان کا دل اتنا وسیع تھا کہ انہوں نے کبھی بھی اس سلسلہ میں مولانا سے مطلق بھی کوئی رنجش نہ رکھی۔
ذلیخا کا سلسلۂ نصب حضرت ابوبکر صدیق سے ملتا تھا۔ ان کے والد آفتاب الدین تھے جو سروے آفس میں ملازم تھے۔ وہ مولانا خیرالدین کے مرید ہو گئے تھے اور مرشد سے بے پناہ عقیدت و ارادت کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ زلیخا بیگم کو جو کہ ان کی پانچویں اولاد تھیں، ان کی پیدائش کے بعدانہوں نے انہیں پیر و مرشد کے قدموں میں ڈال دیا۔ اس معصوم صورت بھولی بھالی ، حسین و جمیل اور گڑیا جیسی بچی کو اٹھا کر مولانا خیر الدین نے گلے لگا لیا اور بڑے پیار سے زلیخا نام رکھا۔
مولانا دل کے بڑے نرم تھے اور یوں تو سبھی کی مدد کرتے تھے مگر جہاں بھی غریب خواتین کے مسائل کی بات ہوتی تھی تو فوراً ادھر رجوع کرتے اور ان کی مدد کرتے تاکہ کہیں کوئی ان کا استحصال نہ کرنے لگے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی مفصل ڈائری میں مولانا آزاد کے تعلق سے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا ہے کہ جو بے تحاشہ ضرورت مند تھی اور تقسیم ہند کی نفسا نفسی میں کچھ دنوں کے لئے پاکستان چلی گئیں مگر کچھ ماہ بعد ہی واپس لوٹیں تو پایا کہ ان کا گھر بار سب کچھ لٹ چکا ہے اور دوسرے لوگ وہاں قابض ہو چکے ہیں۔ جب مولانا سے انہوںنے عرضداشت کی کہ ان کا راشن باندھ دیا جائے تو انہوں نے اپنے ذاتی فنڈ سے ان کا راشن باندھ دیا۔ یہی نہیں ، اس معمر خاتون کو بقول خان عبد الودود خان،جو کہ مولانا کے ملازمین میں سے تھے، انہوں نے بطور وزیر تعلیم اپنی کوٹھی چار کنگ ایڈورڈ روڈ میں داخلی دروازے کے اندر ایک چھوٹا سا کمرا بھی دے دیا۔اس بات کا ذکر حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی اپنے والد حضرت خواجہ حسن نظامی کے تعلق سے بھی کرتے ہیں۔
جب مولانا آزاد کا انتقال ہوا تو ان خاتون کا راشن ختم نہ ہوا کیونکہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے مولانا کے انتقال سے قبل ان کے ساتھ کافی وقت گزار اور ان کی ڈائری اپنی تحویل میں لے لی۔ اس ڈائری میں ان خاتون کے علاوہ اور کئی لوگوں کے پتے بھی تھے کہ جن کو مولانا آزاد اپنی جانب سے وضائف بھیجا کرتے تھے۔ جب تک پنڈت جواہر لعل نہرو 1964تک زندہ رہے، انہوں نے ان تمام وضائف کو جاری رکھا۔ اس بات کا راقم کو پتہ نہ چل سکا کہ پنڈت نہرو کی رحلت کے بعد ان وضائف کی کیا پوزیشن رہی کیونکہ اس وقت کچھ عرصہ کے لئے جناب گلزاری لعل نندہ قائم مقام وزیر اعظم رہے اور اس کے بعد جناب لال بہادر شاستری وزیر اعظم بن گئے تھے۔
اگر ہم مولانا کی بہنوں کی بات کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ انہیں جتنی محبت اپنے بھائی سے تھی ،کہیں اس سے زیادہ محبت مولانا آزاد کواپنی بہنو ں سے تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد اپنی بہنوں کوبے حد چاہتے تھے اورباوجود جزمعاش ہونے کے،خطوط کے ذریعہ ان سے رابطہ میں رہتے۔ ان کے ایک خط بنام مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی سے پتہ چلا کہ وہ اپنی بہنوں کی خدمت میں رقم بھجواتے رہتے تھے ۔ بہنوں سے ملنے کے لئے ترستے رہتے تھے۔ اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے انہیں بہنوں سے ملنے کا کم موقع ملتا۔ بہنیں ہی ان سے ملنے کے لئے آجا یا کرتی تھیں۔مولانا ملک یا بیرون ملک کے کسی بھی خطہ میں ہوں بڑی مستعدی و پابندی کے ساتھ اپنی بہنوں کو خطوط بھیجا کرتے تھے، جن میں زیادہ تر بذریعہ ڈاک بھیجے جاتے اور بہت سے دستی خط بھی بھیجے جاتے تھے۔دونوں بہنیں شوقیہ مضمون نگاری کے علاوہ تقریریں بھی کیا کرتی تھیں۔ان کی تحریریں لاجواب ہوتی تھیں۔ یہ سب مولانا کی صفات کے کمال تھے کہ انہوں نے بہنوں کو کبھی بھی آگے بڑھنے نہیں روکا۔
پچھلی صدی کے بالکل ابتدائی زمانہ سے مولانا کی بہنوں کا معاشرتی زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اوران کی بیدار مغزی سماجی شعور کی غمازی کرتا ہے۔ اس زمانے میں پردے کی رسم و دیگر قیود اس طرح عائد تھیں کہ عورتوں کی ہستی چہار دیواری تک محدود ہو کررہ گئی تھیں۔ صاحب کمال خواتین معاشرتی آداب رسوم کی وجہ سے اپنے ہنر کا سر عام اظہار نہ پسند کرتی تھیں اور نہ ہی اس کے لئے ذرائع اور وسائل موجود تھے ۔
مولاناابو الکلام آزاد ؒ کی سب سے بڑی بہن خدیجہ بیگم قسطنطنیہ میں پیداہوئیں تھیں۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور جوانی میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنے ایک خط میں(مورخہ 25 جولائی 1902،صفحہ ۲؎)میں لکھا ہے کہ جب والدہ کا انتقال ہو گیا تو خدیجہ کی عمر چودہ برس کی تھی مگر خدا جانے کیوں اس زمانے میں ان کی شادی نہیں ہوئی اور بقول ان کے ،اس نہ ہونے نے’’آج وہ فساد پیدا کردیا جس نے میری زندگی تلخ کردی ہے اورمیں خود کشی پرآمادہ ہوں۔‘‘
فاطمہ بیگم مولانا آزاد کی دوسری بہن تھیں جو 1879میں مکہ میں پیداہوئیں۔ ان کاتخلص ’’آرزوؔ‘‘ تھا ۔ وہ اپنے نام سے زیادہ اپنے اس تخلص سے یا د کی جاتی ہیں۔معین الدین عرب سے ان کی شادی ہوئی تھی اوربھوپال میں82 برس کی عمر میں 13؍ اپریل 1966 کو ان انتقال ہوا۔
حنیفہ بیگم جن کا تخلص ’’آبرو‘‘ تھا،1881میں پیدا ہوئیں۔ کلکتہ کے احمد ابراہیم اورپھر واجد علی خاں سے ان کی شادی ہوئی۔ واجدعلی خاںحکومت بھوپال کے سکریٹری تھے۔ حنیفہ بیگم کا انتقال بھوپال میں ہی جون 1943 میں ہوا۔مولانا آزاد کے احترام کا یہ حال تھا کہ یہ دونوں بہنیں مولانا کو ’’بھائی ‘‘کہہ کر بلا تی تھیں جب کہ عمر میںوہ ان سے چھوٹے تھے۔
مولانا خیر الدین باوجود انتہائی مذہبی خیالات اور قدیم رجحانات کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میںکوئی فرق رواں نہیں رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں لڑکیوں کو زیور علم سے لڑکوں کی طرح آراستہ ہونا چاہئے۔بقول مولانا آزاد ، ’’انہوں نے ہماری بہنوں کو بھی اتنا ہی اور ایسے ہی تعلیم کا اہل سمجھا جیسا کہ ہم کو۔ ‘‘مولانا خیر الدین نے سبھی کو ’’خلاصئہ ہندی‘‘ اور ’’مصدر فیوض‘‘ پڑھائے ۔خلاصے میں نماز و روزہ کے مسائل ہیں اورمصدر فارسی قواعد کی کتاب ہے ۔اس کے بعد انہوں نے صرف و نحو، گلستان و بوستان ، منطق ، شرح تہذیب فقہ میں ، وقایہ ، ہدایہ، آخرین ، مشکوٰۃاور دیگر کتابوں کے درس دئے جو اس وقت تک چلتے رہے کہ جب وہ سخت بیمار ہو گئے۔ اس کے بعد مولانا آزاد اور مولوی غلام یٰسین دیگر اساتذہ سے پڑھنے لگے۔آرزو بیگم اس کے بعد بھی مزید ڈیڑھ برس پڑھتی رہیںاور انہوں نے حدیث و فقہ کی تمام کتابیں ختم کر لیں البتہ آبرو بیگم مسلسل بیمار رہتی تھیں جس کی وجہ سے سلسلہ تعلیم منقطع ہو گیا۔
آرزو بیگم چونکہ ایک بہترین مقرر بھی تھیں ،بسا اوقات تقریر کرنے سے قبل مولانا آزاد سے اپنی تقریر کے نکات کی کی اصلاح کروالیا کرتی تھیں۔مولانا علمی کاموں میں اپنی بہنوں کو فروغ دینا پسند کرتے تھے۔ خواتین یونیورسٹی کے قیام کی اولین تحریک کو ان کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ 4؍ مارچ،1918 میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس کے ایک سالانہ اجلاس میں ان کا پیغام پڑھا گیا جس میں تحریر تھا ، ’’یہ جلسہ مسلم یونیورسٹی سے مستدعی ہے کہ وہ سرمایہ مسلم یونیورسٹی سے کچھ حصہ خاص قوانی و قواعد کے ما تحت ایک ایسی جماعت مقرر کرنے کے لئے منتقل کریں جو لڑکیوں کے لئے اپنے خاص حالات و روایات کے مطابق مدارس کا اجراء ، ترتیب نصاب ، تالیف و تصنیف، اشاعت کتب نصاب اوراپنے معینہ نصاب میںا متحانات کا کام انجام دیں اوراس طرح تمام ہندوستا ن کی عورتوںکے لئے حقیقی معنوں میں ایک جامعہ اسلامیہ یا یونیورسٹی وجود میں آئے۔‘‘
اسی طرح سے ایک اور اہم تاریخی تقریر میں محترمہ فاطمہ بیگم آرزو نے بطورسکریٹری انجمن خواتین ہند بھوپال، کہا تھا کہ تمام مسلمان زن و مرد اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین کے لئے مخصوص طرز تعلیم اور نصاب و کتب کی ضرورت ہے۔ سرکاری یا امدادی مدارس جن میں باقائدہ تعلیم کا مجوزہ نصاب پڑھایا جاتاہے، خواتین کے لئے مفید نہیں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی تعلیم میں مذہب کا بڑاحصہ ہونا چاہئے اوروہ قطعی مفقو د ہے۔انہوں نے کہا کہ آج تک کانفرنس کے اجلاس شعبۂ تعلیم نسواں میں جس قدر صدارتی تقریریں ہوئی ہیں ،ان میں انہیں باتوں پرزور دیا گیا ہے لہٰذا یہ مسئلہ بالکل طے شدہ مسئلہ ہے۔ لیکن باوجود اس احساس ،کے ہنوز ایسی تدابیر پر عمل نہیں کیا گیاجو خواتین کی ضرورتوں کو پورا کریں جیسا کہ ان کے ریزولیوشن میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوںنے پونہ کی زنانہ یونیورسٹی کی بھی مثال دی کہ جو بالکل آزاد ہے۔ لہٰذا ہندو بہنوں کے مقابلہ میں مسلمان عورتوں کو پردے کے باعث اور بھی زیادہ ایسی آزاد یونیورسٹی کی ضرورت ہے۔ مولانا کی بہنوں کے کردار و عمل میں مولانا کا بھی ایک بڑا رول رہا، بھلے ہی آزاد ان سے عمر میں چھوٹے رہے ہوں مگر ان کے افکار کسی سے بھی کم نہ تھے۔جب تک مولانا آزاد زندہ رہے ، ایک با کردار مرد کی طرح انہوں نے اپنی تمام زندگی گزاری۔ کاش کہ آج کے سیاست داں بھی مولانا آزاد سے کچھ سبق لیں کہ خواتین کے تئیں ان کاکردار کتنا صاف و شفاف اور ہمدردی والا تھا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS