محسن عظیم اور ادیب بے مثال مولانا ابوالکلام آزادؒ: پرویز عادل ماحیؔ

0

پرویز عادل ماحیؔ
ستودہ صفات سے مزین اخلاقِ کریمانہ کے حامل، عالم متبحّر، مفکرومدبر، مفسّر قرآن، جاں نثارِ ملک وملت، عظیم دانشور مولانا ابوالکلام آزاد ایک عبقری حیثیت کے انسان ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔علواورکمال ان کی ذات کی خصوصیت تھی۔ مولانا آزاد نے خود فرمایا ہے۔ ’’جس راہ میں بھی قدم اٹھایا اس کو ادھورانہیں چھوڑا‘‘ مولانا کے کمالات اس قدر متنوّع ہیں کہ ان سب پر گفتگو کے لئے یقینا ایک ذخیم کتاب درکار ہے۔ وہ درجۂ اوّل کے صحافی، اردو، فارسی اور عربی زبان کے ماہر وادیب، فلسفہ کی عمیق وادیوں کو عبور کرنے والے مفکّر اور بے بدل سیاسی شعور وبصیرت رکھنے والے انسان تھے۔ زیرنظر تحریر میں صرف اس بیان پر اکتفا کرتے ہیں کہ مولانا آزادؔ اردو زبان کے عظیم محسن اور بے مثال ادیب تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ان کو ایڈرس پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’اردو زبان کو یہ فخرحاصل رہے گا کہ وہ آپ کی زبان سے بولی گئی‘‘کسی زبان کے الفاظ کا خزانہ جملوں کی نشست وبرخاست اور ان کی ترتیب یعنی اوّل ومؤخّر ہونا یہ ادیب کے جسمِ ظاہر کا حسن ہے۔ جس کے بغیر وہ ادیب نہیں کہا جاسکتا، لیکن کسی ادیب کا معنوی حسن اس کے لاحدود علم کی وسعت، اعلیٰ فکر اور اعلیٰ اخلاق کا مرہونِ منّت رہتا ہے۔
مولانا کی ادبی حیثیت، حسن ظاہر اور معنوی دونوں کی حامل ہے۔ عربی زبان مولانا کی مادری زبان ہونے کے علاوہ قرآن کی زبان ہے۔ قرآن پر مولانا کا عبور بہت عمیق اور وسیع ہے۔ قرآن، تورات اور انجیل کے گہرے اور وسیع مطالعے نے مولانا کو ادیب کے علاوہ خطیب بھی بنادیا۔ موصوف دونوں حیثیتوں میں مساوی اعلی درجہ پر فائز تھے۔ ترکی سے آشنا،فارسی اور عربی کے شناور اور خطابت کے لئے دماغ پر قرآن کا محیط ہونا کافی سے زیادہ ہے۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ مولانا اپنی ادبی حیثیت میں منفرد ہیں۔بڑے بڑے ادیبوں نے کوشش کی کہ ان کے نقشِ قدم پر چل کر وہ درجہ حاصل کرلیں جس کے مولانا آزاد مالک تھے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ مولانا کے معاصر اور بہت بڑے ادیب و ناقد جو کہ خود بھی مفسّر قرآن ہیں یعنی مولانا عبدالماجد دریاآبادی مولانا آزاد کے بارے میں فرماتے ہیں۔ ’’ادب عالیہ یا کلاسیکی کی اصطلاح تو اردو میں بعد کو چلی باقی یہ کلاسیکی اور اعلیٰ قدرِ ادیب تو مولانا کا جیسے حصّہ تھا‘‘ ان کے قلم کا شروع سے امتیازی خاصہ تھا۔ تیور مردانہ، لہجہ شریفانہ، ترکیبوں میں جزالت، الفاظ میں جلالت، تشبیہوں میں جدّت، استعارے میں ندرت، خیال میں بلندی، بیان میں صفائی، مطالب فکرانگیز، نثر ہرجگہ ادیبانہ اور خطیبانہ، خطابت کا مزاج شاہانہ، عبارت کی سطح حکیمانہ اور کہیں حاکمانہ، حکمت کی جگہ حکمت، ظرافت کے محل پر ظرافت، حکایت وغم حزن ہو یا داستانِ سرونشاد،لطافت وشادابی سطر-سطر سے عیاں اور آمد بے ساختہ پن لفظ-لفظ سے نمایاں، مطالعہ میں گہرائی،مشاہدہ میںگہرائی، بات میں بات کرنے کا وہ سلیقہ اور معمولی جزیات سے دوررس نتائج نکالنے کا وہ ملکہ کہ دھوکہ حضرت رومیؒ کی مثنوی کا ہونے لگے۔ مولانا کے ادب عالیہ کے معترف ادیب اعلیٰ اور عظیم خود مولانا شبلیؒ اور سید سلیمان ندویؒ کے درجہ کے اصحاب ہیں تو اور کس سند کا ذکرکیاجائے،ہم حیرت وسکتہ کے عالم میں ہیں کہ تذکرہ، غبار خاطر، ترجمان القرآن اور مولانا کی خطابت سے کون سے نمونۂ مثال کے لیے پیش کریں جب کہ ان کی تحریر کا ہر لفظ اور ان کے جملوں کی ساخت اور ان کی عبارت کا مدّوجزر، ان کے وسیع مطالعے اور حکیمانہ فکر سے ادب کا ہر صفحہ ایک منفرد اور دل میں معاً اتر جانے والا اثر رکھتا ہے۔
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ذیل میں ہم مولانا کی تحریر کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جو خود اظہر من الشّمس ہیں کہ ان کا لکھنے والا ہندوستان کا نہیں بلکہ دنیا کے لٹریچر کا بڑا ادیب اور خطیب تھا۔ ایک اقتباس خالص ادبی حیثیت رکھتا ہے اور دو اقتباس ادب اور خطابت کے آخری کمال کوظاہر کرتے ہیں۔
’’اورغور کیجیے تو یہ بھی ہمارے وہم وخیال کا ایک فریب ہی ہے کہ سروسامانِ کار ہمیشہ اپنے سے باہر ڈھونڈھتے ہیں اگر یہ پردۂ فریب ہٹاکردیکھیں تو صاف نظر آجائے گا کہ ہم سے باہر نہیں ہے خود ہمارے اندر ہی موجود ہے۔ عیش ومسرّت کی جن گل شگفتگیوں کوہم چاروں طرف ڈھونڈتے ہیں اور نہیں پاتے وہ ہمارے نہاں خانۂ دل کے چمن زاروں میںہمیشہ کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں۔ لیکن محرومی ساری یہ ہوئی کہ ہمیں چاروں طرف کی خبر ہے مگر خود اپنی خبر نہیں۔ وَفِیْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَo
جنگل کے مورکو کبھی باغ وچمن کی جستجو نہیں ہوتی اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے جہاں کہیں اپنے پَر کھول دے گا ایک چمنستانِ بوقلوں کھل جائے گا۔
نہ با صحرا سرِ دارم نہ با گلزار سودائے
ہر جامی روم از خیش می جو شد تماشائے
قید خانہ کی چہار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا۔ اندھیری رات میں آسمان کی قندیلیں روشن ہوجاتی ہیں تو صرف وہ قید خانہ کے باہر ہی نہیں چمکتی اسیرانِ قید محن کو بھی اپنے جلوہ فروشیوں کا پیغام بھیجتی رہتی ہیں۔ صبح جب قبا شیر بکھیرتی ہوئی آئے گی اور شام جب شفق کی گل گوں چادریں پھیلانے لگے گی تو صرف عشرت سراؤں کے دریچوں سے نظارہ نہیں کیا جائے گا قید خانہ سے لگی ہوئی نگاہیں بھی انہیں دیکھ لیا کریں گی۔ فطرت نے انسان کی طرح کبھی یہ نہیں کیا کہ کسی کو شاد کام رکھے اور کسی کومحروم کردے۔ وہ جب کبھی اپنے چہرے سے نقاب الٹتی ہے تو سب کو یکساں طور پر نظارۂ حسن کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ہماری غفلت اندیشی ہے کہ نظراٹھاکر نہیں دیکھتے۔‘‘
’’آہ! میں چاہتا ہوں کہ جی بھر کے روؤں اور جس قدر چیخ چیخ کر نالہ وفریاد کرسکتا ہوں کرتا رہوں۔ میری چیخیں تمہارے عیش ونشاط کو مکدّر کردیں۔ میرا نالہ وبکا تمہارے عیش کدوں کو ماتم کدہ بنادے۔ میری آہوں سے تمہارے دلوں میں ناسور پڑجائیں۔ میری شورش غم سے تمہارے چہرے کی مسکراہٹ معدوم ہوجائے۔ میں تم کو غم وماتم سے بھردوں۔ میں تم کوحسرت کاپتلا بنادوں۔ تمہاری آنکھیں ندیوں کی طرح بہہ جائیں۔ تمہارادل تنور کی طرح بھڑک اٹھے۔ تمہاری زبانیں دیوانوں کی طرح چیخ اٹھیں اور تمہاری غفلت عیش اور بے دردیٔ نشاط کی وہ بستی جو مدتوں سے برابر چلی آتی ہے اس طرح اجڑ جائے کہ پھر کبھی آباد نہ ہو۔
آہ! تمہاری غفلتوں پر آسمان روئے اور زمین ماتم کرے اگر مرغان ہواسنج ہوں اور سمندروں سے مچھلیاں غم کرنے کے لئے اچھل پڑیں جب بھی اس کا ماتم ختم نہ ہوگا۔ کیونکہ تمہارا ماتم تمام دنیا کا ماتم ہے اور چراغ بجھنے کا رونا چراغ پہ نہیں بلکہ گھر کی تاریکی پر رونا ہے۔ خدارا بتلاؤ! میں تمہارے ساتھ کیا کروں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج جن باتوں کے لئے تم رورہے ہو یہ وہی باتیں ہیں جو میری زبان سے فریاد کااضطراب اور طلب کی چیخ بن کر نکلتی تھیں، مگر تمہارے سینہ کے اندر پتّھر کا ایک ٹکڑا ہے اس سے ٹکرا کر واپس آجاتی تھیں۔‘‘
’’اللہ کا دین اس کے سواکچھ نہیں ہے کہ اس کے ٹھہرائے ہوئے قوانین فطرت کی اطاعت ہو اور آسمان وزمین میں جس قدر مخلوق ہے سب قوانینِ الٰہی کی اطاعت کررہی ہیں پھر اگر تمہیں اللہ کے قانونِ فطرت سے انکار ہے تو اللہ کے قانون کے سوا کائنات ہستی میں اور کون سا قانون ہوسکتا ہے کیا تمہیں اس راہ پر چلنے سے انکار ہے؟ جس پر تمام کارخانۂ ہستی چل رہا ہے۔ یہی دین نوع انسانی کے لئے ہدایت کی عالم گیر راہ ہے لیکن لوگوں نے اسے چھوڑ کر اپنی الگ الگ گروہ بندیاں کرلیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلانے لگا۔
ہراک دور میں زندہ رہا فن آزر
تراشتی رہی دنیا صنم کے بعد صنم
قرآن اس لئے آیا ہے کہ اس گمراہی سے دنیا کو نجات دلادے۔ وہ کہتا ہے سچائی کی راہ یہ ہے کہ تمام رہنمایانِ عالم کی یکساں طور پر تصدیق کرو اور سب کی متفقہ اور مشترکہ تعلیم کو دستور العمل بناؤ۔‘‘خدانخواستہ اگر ادیبات اُردو کا سارا ذخیرہ جل کر خاکستر ہوجائے اور تنہا ابوالکلام کی تخلیقات باقی رہ جائیں تو ان شاء اللہ ادب واُردو کی عظمت وجلالت کا اندازہ لگانے کے لئے وہ بس ہوگی اور خدانخواستہ ابوالکلامیت کے بھی دوسرے اجزا معدوم ہوجائیں تو ان کا بھی سارا عطر کھینچا کھینچایا ایک غبار خاطر کے اندر ملے گا اور خود یہ غبار خاطر عطیہ کس کا ہے؟ جیل کا۔حضرت یوسفؑ تو پیغمبر تھے لیکن ان کے بھی جوہر کی جلاجاکرکہاں ہوئی؟ قید زنداں کی چہار دیواری کے اندر۔تو حیرت نہ کیجئے اس سنت یوسفؑ کاحق اپنی بساط بھر بی بی زلیخہ کی ہم نام کے شوہر نے ادا کیا۔ جو اپنی جوانی میں خود یوسف جمال تھا۔
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS