پھر بہنے لگا کسانوں کا خون!

0

دوسری کسان تحریک بھی خون کی بھینٹ لینے لگی ہے۔آج بدھ کے روزپنجاب ہریانہ سرحد کی تمام سرحدوں پر کسانوں کے پرامن احتجاج پر آنسو گیس کے گولے اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیاگیا جس سے ایک نوجوان کسان کی موت ہوگئی اور تقریباً3درجن زخمی ہوگئے ہیں۔مہلوک پنجاب کے بھٹنڈ ہ کا شوبھاکرن سنگھ بتایاجاتا ہے جو پٹیالہ کے راجندر اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ربڑ کی گولی اس کے کان کے اوپر سر میں لگی جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ یہ احتجاجی کسان دہلی جانا چاہتے ہیں لیکن ہریانہ پولیس انہیں آگے جانے سے روک رہی ہے۔ہریانہ میں کھنوری سرحد پر بھی ہریانہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے آنسو گیس کے گولے داغے جانے سے کئی مظاہرین زخمی ہوگئے ہیں۔ ڈرون سے آنسو گیس کے گولے چھوڑنے کے ساتھ ساتھ پولیس کسانوں کے جسموں کے اوپری حصوں پر گولیاں برسا رہی ہے۔کسانوں نے پولیس اہلکاروں پر 32 بور اور 12 بور کے ہتھیاروں سے فائرنگ کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ دہلی سے متصل پنجاب کی سرحدوں پر بھی یہی صورتحال ہے۔ پنجاب -ہریانہ پولیس کا استدلال ہے کہ یہ کسان ٹریکٹر ٹرالی اور جے سی بی مشینوں کے ساتھ دہلی کی جانب کوچ کررہے ہیں اور پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ نے اس پر اعتراض کیا ہے، اس لیے انہیں بھاری مشینوں کے ساتھ جانے سے روکا جارہا ہے۔ روکنے کا یہ عمل آتشی اسلحہ اور ربڑبلٹ کی فائرنگ سے کیا جارہا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے کسانوں کی جان بھی جاسکتی ہے۔دراصل مرکزی حکومت کی ایڈوائزری کے بعد ہریانہ اور پنجاب کی پولیس عملاً وزارت داخلہ کے ماتحت ہوگئی ہے، پرامن کسانوں پر آتش و آہن کی بارش کرنے میں اسے کوئی عار نہیں محسوس ہورہاہے۔
ایک طرف پرامن کسانوں کے احتجاج کو کچلنے کیلئے حکومت پوری طاقت کا استعمال کررہی ہے تو دوسری جانب بات چیت کا ڈھونگ بھی رچایا جارہاہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے زراعت اور بہبود کسان ارجن منڈا کسانوں سے امن کی اپیل کرتے ہوئے دوبارہ بات چیت کا چارہ ڈال رہے ہیں۔حالانکہ کسانوں اور مرکزی حکومت کے درمیان اب تک چار دور کی بات چیت ہو چکی ہے لیکن حکومت نے ایم ایس پی پراپنا موقف اب تک واضح نہیں کیا ہے۔بعینہٖ وہی حالات ہیںجو 26نومبر 2020 سے 11 دسمبر 2021 تک تھے۔ اس وقت بھی ایک طرف حکومت بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ تاخیری حربہ استعمال کرتے ہوئے کسانوں کے صبر کوآزمارہی تھی تو دوسری جانب پولیس اور نیم فوجی دستے واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ میں مصروف تھے، کہیں ربڑ کی سخت گولیاں برسائی جارہی تھیں تو کہیں آتشی اسلحوں سے بھی فائرنگ کی جارہی تھی۔378دنوں کی پہلی کسان تحریک میں ریکارڈ کے مطابق700سے زیادہ کسانوں نے اپنی جانیں گنوائی تھیں۔ اب دوسری کسان تحریک کا پہلا ہفتہ ختم ہوتے ہی پہلی جان جانے کی اطلاع آئی ہے، خدشہ یہ بھی ہے کہ زخمی ہونے والے کسان بھی دم توڑ سکتے ہیں۔اگر یہ تحریک اسی طرح جاری رہی تو ہوسکتا ہے ہلاکتوں کی تعداد اسی تناسب سے بڑھتی بھی جائے کیوں کہ اس با ر بھی کسانوں کے وہی مطالبات ہیں جوانہیں پہلی بار سڑکوں پر لے کرآئے تھے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ مطالبات ’تپسیا‘ میں کمی کا اعتراف کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی کے سابقہ وعدوںکے ایفا کے ہیں۔زرعی قوانین واپس لیتے ہوئے وزیراعظم نے کسانوں کے جو مسائل حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی،ان میں اہم مطالبہ ایم ایس سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق کسانوں کی مصنوعات کی کم از کم امدادی قیمت طے کرنا تھا،لیکن تین برسوں میں اس سمت مودی حکومت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائی ہے یہاں تک کہ پی ایم مودی نے 2022 تک ملک کے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا۔ ادھر کسانوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ تینوں واپس لیے گئے زرعی قوانین دوبارہ لاگو کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ کچھ لیڈروں کاکہنا ہے کہ اگر دو تین ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی تیسری بار حکومت بناتی ہے اور بی جے پی کی سیٹیں 400کے پار چلی جاتی ہیں تو ان قوانین کو لاگو کیا جائے گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی دھوکہ دہی اور کسانوں کے مطالبات کا یہ تنازع آگے کیا شکل لیتا ہے اور کتنے دنوں تک جاری رہتا ہے۔ اس تحریک میں فی الحال کسانوں کی سب سے بڑی تنظیم بھارتیہ کسان یونین(بی کے یو) شامل نہیںہے۔ اگر ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ وغیرہ کے کسانوں کو ساتھ لے کر بی کے یو بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئی تو حالات قابو سے بالکل ہی باہر ہو جائیں گے۔
ایسا وقت آنے سے پہلے ہی اگر حکومت اپنے سابقہ وعدے پورے کردے تو نہ صرف کسانوں کا خون بہنا بند ہوجائے گاہے بلکہ دوسری بار’تپسیا ‘ میں کمی کے اعتراف کی سبکی بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS