چاہئیں کئی اور سرسید!

0

1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد مایوسیوں نے بہت سے لوگوں، بالخصوص مسلمانوں کو گرفت میں لے لیا تھا۔ وہ شکست کی وجوہات اور نئے حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے مگر سرسید احمد خاں نے یہ سمجھنے میں تاخیر نہیں کی کہ مایوسیوں کے بادل علم کی شعاؤں سے ہی چھٹیں گے، چنانچہ سرسید نے 24 مئی، 1875 کو ’محمڈن اینگلو-اورینٹل کالج‘ کی بنیاد رکھی۔ان کے انتقال کے21 برس بعد 1920 میں اس ادارے نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ہیئت اختیار کی۔ یونیورسٹی کی افادیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس میں جدید اور روایتی تعلیم کے 300 سے زیادہ کورسز چلائے جا رہے ہیں۔ 1,155 ایکڑ میں پھیلے ہوئے کیمپس والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا 2019-20 میں بجٹ 1,036 کروڑ روپے تھا۔ اس میں 18,618 طلبا زیر تعلیم تھے۔ ان میں 12,610 طلبا انڈرگریجوٹس، 5,756 پوسٹ گریجوٹس اور ڈاکٹرل اسٹوڈنٹس کی تعداد 252 تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ طلبا کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ تعلیم کو عام کرنے کی سرسیدکی تحریک کامیاب رہی ہے۔ اس کی کامیابی کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اس سے متاثر ہوکر وطن عزیز کے دوسرے علاقوں میں تعلیمی اداروں کے قیام پر توجہ دی گئی۔ 29 اکتوبر، 1920 کو علی گڑھ میں ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام ہوا تھا۔ بعد میں یہ ادارہ دہلی منتقل ہوا۔ حکیم عبدالحمید کی وابستگی اے۔ ایم۔ یو۔ سے رہی ہے۔ انہوں نے 1973 میں اپنی والدہ رابعہ بیگم کے نام پر دہلی میں رابعہ اسکول قائم کیا۔ اس کے بعد وہ تعلیمی ادارے قائم کرتے رہے۔ 1989 میں دہلی میں جامعہ ہمدرد قائم کر کے مختلف اداروں کو اس کے تحت کر دیا۔ مہاراشٹر اور جنوبی ہند کی ریاستوں کی بات کریں تو وہاں تعلیمی اداروں کے قیام کے سلسلے میں بہت کام ہوا۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے مثالی کام کیا۔ ان کے ’الامین ایجوکیشنل سوسائٹی‘ کی 20 شاخیں ہیں اور اس کے ہندوستان بھر میں 200 سے زیادہ ادارے ہیں۔ مہاراشٹر میں تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف توجہ کافی پہلے سے دینی شروع کر دی گئی تھی۔ 1875 میں ’محمڈن اینگلو-اورینٹل کالج‘ کے قیام سے ایک برس پہلے 1874 میں ممبئی میں انجمن اسلام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اسی طرح 130 برس قبل پنے کے حاجی غلام محمداعظم ایجوکیشن ٹرسٹ کے اعظم کیمپس کی ابتدا 130 برس پہلے ایک مکتب سے ہوئی تھی۔ آج اعظم کیمپس کے چیئرمین منور پیربھائی اور صدر پی۔ اے۔ انعامدار نے اسے اتنی وسعت دے دی ہے کہ اس سے 18,000 سے زیادہ طلبا مستفید ہو رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ سرسید کی تحریک کا اثر بہار اور اترپردیش جیسی ریاستوں کے لوگوں پر کیوں نہیں پڑا جبکہ اے۔ ایم۔ یو۔ سے فارغین میں ان ریاستوں کے لوگوں کی بڑی تعداد رہی ہے؟ ان ریاستوں اور دیگر اُن ریاستوں کی علیگ برادری نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے کیا کیا جہاں اس سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت زیادہ ہے؟ اس سلسلے میں حالات بالکل ہی مایوس کن نہیں مگر اطمینان بخش بھی نہیں ہیں۔
پٹنہ میں ایوب اردو گرلس ہائی اسکول، مسلم ہائی اسکول جیسے ادارے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ مہاراشٹر کے ایک قصبے مالیگاؤں میں جتنے تعلیمی ادارے مسلمانوں نے قائم کر دیے ہیں، لگتا نہیں کہ اتنا کام بہار کے دارالحکومت میں کیا گیا ہے، البتہ لکھنؤ کی صورت حال قدرے بہتر نظر آتی ہے مگر دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے جن سے پسماندہ خاندان کے بچوں کو فائدہ نہیں پہنچے، وہ علم کی روشنی کو پھیلانے میں کیسے معاون بن سکتے ہیں۔ ضرورت تو ان تعلیمی اداروں کے قیام کی ہے جہاں معیاری تعلیم کا انتظام غریبوں کے بچوں کے لیے بھی ہو۔ اس سلسلے میں بہار کے سمستی پور شہر کی ’ملت اکیڈمی‘ ایک مثال ہے۔ اس کی بنیاد 1978 میں رکھی گئی تھی جس کی محمد شاہد حسین کی زندگی میں ہی کافی توسیع ہو چکی تھی۔ ’ملت اکیڈمی‘ کی خاص بات یہ تھی کہ کسی بچے کے پاس فیس نہیں ہے تب بھی وہ پڑھے گا، امتحان دے گا۔ محمد شاہد حسین کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ جاری ہے یا نہیں، یہ جاننے کی ضرورت ہے اور ضرورت ہر ضلع میں ایسے ادارے قائم کرنے کی ہے جو تعلیم کو عام کرنے کا سرسید کا خواب پورا کریں۔ یوم سرسید منانا چاہیے مگر اس خود احتسابی کے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے کہ ہم تعلیم کو عام کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں، کتنے تعلیمی ادارے قائم کر رہے ہیں، پہلے سے قائم اداروں کو کتنی وسعت دے رہے ہیں اور ان اداروں سے غریبوں کے بچے مستفید ہو پا رہے ہیں یا نہیں۔ یہ ممکن ہے، تعلیمی اداروں کے قیام کے معاملے میں کوئی شخص حکیم عبدالحمید، ڈاکٹر ممتاز احمد خان یا پی۔ اے۔ انعامدار بن جائے یا کوئی محمد شاہد حسین بنے مگر اسے کچھ بننا چاہیے۔ غریبوں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہیے اور سرسید کی تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔ سرسیدکے تئیں یہ سچی خراج عقیدت ہوگی!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS