منی پور کا تشدد

0

شمال مشرق کی ریاست منی پور میں تشدد کو بھڑکے 3ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے، ابھی تک وہاں دوردورتک امن کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔کب کہاں اورکس پر حملہ ہوجائے ، کوئی نہیں جانتا۔جب لوگوں کی حفاظت اورقیام امن کیلئے مامور سیکورٹی فورسیز محفوظ نہیں ہیں، تو عام لوگ خود کو محفوظ تصور کیسے کرسکتے ہیں؟ 3اگست کو ہجوم نے حملہ کرکے فوج کے 685 ہتھیار اور20ہزار سے زیادہ کارتوس لوٹ لئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کااستعمال تشدد کیلئے ہوگا ۔ ابھی تک سرکاریہ پتہ نہیں لگا سکی کہ لوگوں کے پاس حملے کیلئے ہتھیار اورگولہ بارودکہاں سے آرہے ہیں اورکون فراہم کررہا ہے ۔یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ پہلے سے لوگوں کے پاس جمع تھے ، اگرہوں گے بھی تو اب تک ختم ہوچکے ہوتے ۔ایک بار پھر مرکز نے مرکزی فورسیز کی 10کمپنیاں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔سیکورٹی فورسیز کی تعداد مسلسل بڑھائی جارہی ہے پھر بھی تشدد کا سلسلہ بند نہیں ہورہا ہے۔سرچ آپریشن میں جتنے ہتھیار اورگولہ بارود برآمد ہوئے اوربنکروں کوتباہ کیا گیا ، ان سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ تشدد کا یہ کھیل بہت منظم طریقے سے اورپوری تیاری کے ساتھ کھیلا جارہاہے ۔بتایاجاتاہے کہ 3مئی سے شروع ہوئے اس تشدد میں 150ہلاک، ایک ہزار سے زیادہ زخمی اور50ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں 14ہزارسے زیادہ بچے شامل ہیں ، جن کو ریلیف کیمپوں کے قریب اسکولوں میں داخلہ دیا گیا ہے ۔بے گھر لوگوں کیلئے ریلیف کیمپوں کی تعداد 350تک پہنچ چکی ہے ۔گائوں اور مکانوں کے علاوہ بڑی تعدادمیں چرچوں اورمندروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح گائوں ، اسکول ، چرچ اورمندر وغیرہ خالی ہیں ۔کھیتوں میں کھیتی نہیں ہورہی ہے ۔ابھی تولوگ کسی طرح ریلیف کیمپوں میں جان بچاکر زندگی گزاررہے ہیں ۔جب وہ کیمپوں سے باہر آئیں گے تو ان کی زندگی کیسے گزرے گی؟یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ، جس کا جواب سرکار ہی کو تلاش کرنا پڑے گا ،کیونکہ لوگوں کے پاس اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے وسائل نہیں ہوں گے ۔
منی پور میں تشدد کیوں بھڑکا؟کہنے کوتو صرف 2اسباب بیان کردیے جاتے ہیں ، ایک ریاست کی میتئی کمیونٹی کے لوگوں نے سرکاری مراعات کے حصول کیلئے خود کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کیلئے مظاہرہ کیا ، دوسرے انہوں نے جب منی پور ہائی کورٹ میں اس کیلئے عرضی داخل کی تو کورٹ نے انہیں ایس ٹی کا درجہ دینے کی سفارش سرکار سے کردی ۔ جس کے بعد میتئی اورکوکی کمیونٹیوں کے درمیان ٹکرائو ہوا اورتشدد کا سلسلہ چل پڑا، یہ بات جتنی آسانی سے کہہ دی جاتی ہے، تشدد کے تناظر میں ان پر یقین کرنا اتنا ہی مشکل ہے ۔ 38 لاکھ کی آبادی والی ریاست منی پور میں 53فیصد میتئی ہیں، جو زیادہ تر وادی امپھال میں ہیں ، جبکہ 40فیصد کوکی اورناگا ، جوزیادہ تر پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں ۔میتئی میں زیادہ تر ہندوہیں تو کوکی اورناگامیں عیسائی۔اسمبلی میں نمائندگی بھی آبادی کے حساب سے ہے ۔ 60 رکنی اسمبلی میں40ممبران میتئی سے اورصرف 20 کوکی کمیونٹی سے ہیں۔ ابھی تک 12 میں سے صرف 2 وزیراعلیٰ درج فہرست قبائل ذات سے بنے ہیں ۔ایسے میں یہ کہنا کہ میتئی کمیونٹی کے ایک مطالبہ کی وجہ سے تشدد کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا،سمجھ سے باہر ہے ۔اس کی جڑیں کہیں اورپیوست ہیں ۔کوئی نہ کوئی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کررہاہے اوراس کا مقصد کچھ اورہے ۔ کسی بات پر اختلاف کی وجہ سے عام لوگ اتنے دنوں تک نہیں لڑسکتے ۔بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی اورلڑائی کررہا ہے اورنشانہ کوئی اوربن رہا ہے۔ تشدد کے دوران جو انسانیت سوز اورانسانیت کو شرمسار کرنے والے واقعات پیش آئے ، ان سے پتہ چل رہاہے کہ نفرت ودشمنی کی وجہ صرف مذکورہ مطالبہ نہیں ہے ۔
حیرت کی بات ہے کہ اتنے طویل تشدد کے بعد بھی عوام کے منتخب نمائندے خاموش ہیں ، نہ تووہ عوام کو سمجھا رہے ہیں اورنہ سرکار سے کوئی مطالبہ کررہے ہیں ۔کم از کم وہ تو عام لوگوں کی طرح بے بس ولاچار نہیں ہوسکتے۔ رہی بات ریاستی سرکارکی تو اس میںبھی حالات کو قابومیں کرنے کیلئے قوت ارادی کا فقدان نظر آرہاہے ۔ایسالگتاہے کہ تشدد کو کنٹرول کرنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ سرکار کے پاس انٹلی جنس کے علاوہ سیکورٹی فورسیزہوتی ہیں ،جہاں سے تشددہورہاہے اورجو لوگ کررہے ہیں ، ان کی نشاندہی کرکے وہ کنٹرول کرسکتی ہے ۔آخریہ کون لوگ ہیں ، جوتشدد کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ؟کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے کہ تشددبندہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS