منی پور سے نوح تک لگی نفرت کی آگ کا ذمہ دار کون ؟: شاہد زبیری

0

شاہد زبیری
ملک کی تقسیم کے بعد بھی ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اورسیکھنے کیلئے آمادہ بھی نہیں ہیں، جن لوگوںنے ملک کی تقسیم کے وقت نفرت کی آندھیوں کو چلتے دیکھا، مذہب اوردھرم کے نام پر قتل وغارت گری دیکھی، ان میں سے اب زیادہ تر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، جو حیات ہیں وہ بتاتے ہیں کہ نفرت کے لحاظ سے جیسے آج حالات ہیں وہ ان حالات سے کہیں بدتر ہیں جو اس وقت تھے ۔ تقسیم وطن کے بعد انگلش اور اردو اداب میں جو کتابیں اس موضوع پرلکھی گئیں، وہ خوشونت سنگھ کا ’’ناول اے ٹرین ٹو پاکستان‘‘ ہو یا راما نند ساگر کا ناول اور’’ انسان مرگیا ‘‘یا کرشن چندرکا ناول ’’ہم وحشی ہیں‘‘ اور منٹو کے افسانچے ’’سیاہ حاشیئے‘‘ جن لوگوں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی پڑھا ہے وہ بھی ان حالات کو سامنے رکھ کر آج کے حالات کا اس وقت کے حالات سے موازنہ کر سکتے ہیں، اس پر’’گرم ہوا‘‘ جیسی فلمیں بن چکی ہے۔
تقسیم وطن کے بعد بھی نفرت کی یہ گرم بازاری کم نہیں ہوئی ہزاروں کی تعداد میں فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں، لیکن 2014 کے بعد بی جے پی کے مرکز میں اقتدار میں آتے ہی جیسے فرقہ پرستی بے لگام ہو گئی ، فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوںکو شتر بے مہار کی طرح چھوڑدیا گیا، آئین کا حلف لے کر اہم مناصب پر برا جمان سرکاروں کے ذمہ داران جس طرح آئین کی دھجیاں اُڑا رہے رہیں،سیاسی پارٹیاں جس طرح اقتدار کی خاطر نفرت کی فصل بو نے اور کاٹنے میں لگی ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ منی پور سے لے کر ہریانہ کے ضلع نوح میوات تک پورے ملک میں آگ لگی ہے۔ ملک کی تقسیم کے وقت بھی میوات میں امن و آشتی رہی تھی اور میوات کے سیدھے سادے لوگ فرقہ واریت کے ناگ سے ڈسے نہیں گئے تھے، لیکن آج ہریا نہ کے میوات کا ضلع نوح اور اس کے اطراف کے علاوہ گر و گرام (گڑ گائوں ) جیسے سائبر سٹی تک ہی نہیں روہتک ضلع تک اس کی لپٹیں پہنچ گئی ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق وہاں بھی ایک مسجد پر پتھرائو کیا گیا۔ غیر مصدقہ طور پر تین مساجد کو فرقہ پرستوں نے نشانہ بنا یا۔ علاوہ ازیں دو ہوم گارڈ سمیت 6جانوں کا اتلاف ہوا درجنوںبسیں اور گاڑیاں نذرآتش کردی گئیں۔
ملک میں ہو نے والے فسادات کی طرح نوح کے فساد کی کہانی کی اسکرپٹ بھی اسی طرح لکھی گئی جیسے دوسرے فسادات کا ۔فسادات کے بعد یہاں بھی سرکار مسلمانوں کو ہی ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کررہی ہے اور جیسی خبریں مل رہی ہیں کہ صرف مسلمانوں کی ہی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں تو یہ کہا جاتا سکتا ہے کہ پولیس ان پر ہی زیادتی کررہی ہے ، ان کے مکانات، ان کی جھونپڑیوں اور دکا نوں پر بلڈوزر چل رہا ہے اور یوپی کی یوگی سرکار کا ماڈل پیش کیا جا رہا ہے، اگر سرکاریں جرم ثابت ہو نے سے پہلے ہی خود سزائیں دیں گی تو پھر عدالتیں کس لئے ہیں۔انصاف کا تقاضہ ہے کہ ملزم کسی مذہب یا فرقہ کا ہو اس کو سزا ملنی چاہئے اور سزا سرکار کو نہیں عدالتوں کو دینی چا ہئے، اگر کسی نے پتھرائو کیا ہے تو اس کو سزا ملنی ہی چاہیے، لیکن پتھرائو کے پیچھے کے عوامل اور اسباب کا بھی پتہ لگا نا چاہیے۔ بٹو بجرنگی اور جنید اور ناصر کے دہرے قتل کا ملزم مونو مانیسر نے یاترا سے قبل مسلمانوں کو للکارتے ہوئے انتہائی اشتعال انگیز ویڈیو جا ری کیے تھے، جس سے مشتعل ہو کر کچھ جو شیلے نوجوانوں نے پتھرائو کیا، اس کے امکان سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن یہ بھی جانچ کا موضوع ہے کہ پتھرائو کیا گیا یا۔ کرایا گیا جو ہوا غلط ہوا قصور واروں کو سزا ملنی چاہیے، لیکن کیا یاترا کے منتظمین وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اس فرقہ وارانہ تشدد کیلئے ذمہ دار نہیں ہیں، جن کے لوگ خودکار رائفلیں ،تلواریں، لاٹھی ڈنڈے لے کر چل رہے تھے ، ان سب کے خلاف ہریا نہ کٹھر سرکار نے اب تک کیا کارروائی کی اگر نہیں کی تو کیو ں نہیں کی ؟ فساد کے بعد بھی بجرنگ دل کے لوگ جس طرح کی غنڈہ گردی کررہے ہیں، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگ نوح معاملہ کو لے کر مظاہرے کررہے ہیں اور اشتعال انگیزی کر رہے ہیں، اس کے خلاف سرکاریں کیا کررہی ہیں کیا یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں جو اس نے ہیٹ اسپیچ کی بابت دے رکھا ہے، اس کا جواب تو ہریانہ سرکار کو دینا ہی چا ہیے ۔ حیرت ہے کہ مونو ما نیسر کی گرفتاری کے معاملہ میں ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے جہاں پلہ جھاڑ لیاہے ۔ وہیںوزیرداخلہ انل وج نے تو مونو ما نیسر کو کلین چٹ ہی دے ڈالی اور فرمان سنا دیا کہ مونو مانیسر اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہے، ایسے میں بہت بہتر طریقہ سے اس پورے معاملے پر صادق آتی ہے کہ یہاں باڑھ ہی کھیت کو کھا رہا ہے، اب ہریا نہ سرکار سے انصاف کی امید کیسے کی جائے۔
یاترا کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے معاملہ میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے علاوہ ہریا نہ کی سرکار پر انگلیاں اٹھنی فطری بات ہے، خود گورو گرام سے بی جے پی کے ایم پی اور مرکزی وزیر اندر جیت سنگھ رائو نے سوال کھڑا کیا کہ دھارمک یاترا میں ہتھیار اور لاٹھی ڈنڈے لے کر کیوں نکلے، سوال تو سرکار میں شامل ڈپٹی سی ایم دشینت چوٹالہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔سوشل میڈیا میں اس یاترا کی جو تصاویر وائرل ہو رہی ہیں، اس میں شامل لوگوں کے ہاتھوں میں خودکار رائفلیں ، پسٹل،تلواریں اور لاٹھی ڈنڈے دیکھے جا سکتے ہیں، اتنا ہی نہیںایسی تصاویراور ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہیں، جن میں پولیس افسروں اور فورس کے سامنے ایک اونچے مقام سے بھگوا دھاری بجرنگی بے جھجک فائرنگ کررہے ہیں۔ پولیس افسر اور فورس خاموش تما شائی بنے کھڑے ہیں،شاید ان کو بھی ڈرلگ رہا ہو گا کہ اگر یو پی کے بریلی کی طرح انہوں فسادیوں کے خلاف کچھ بھی کیا تو وہ بھی ایس ایس پی بریلی کی طرح سرکاری عتاب کا شکار بن جا ئیں گے ۔اس یاترا کی روایت قدیم نہیں یہ یاترا صرف تین سال سے نکا لی جا رہی ہے، گزشتہ سال جب یاترا نکالی گئی تو راستہ میں پڑنے والے مزار کونقصان پہنچا یا گیا تھا، اس وقت نوح کے امن پسند ہندو اور مسلمانوں نے نوح کے بھا ئی چارہ اور امن کو بچا لیا تھا، اس مرتبہ بھی کہا جا تا ہے کہ یاترانکا لے جا نے سے قبل ضلع انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ پیس کمیٹی کی میٹنگ میں کمیٹی کے ذمہ داران نے بٹو بجرنگی اور مو نو ما نیسر کی انتہائی اشتعال انگیز ویڈیو کی بابت نہ صرف آگا ہی کی تھی بلکہ ویڈیوز دبھی دکھا دی تھیں پھر بھی یاترا کو لے کر پختہ حفاظتی بندو بست کیوں نہیں کئے گئے، کیوں یاترا ہتھیاروں کے ساتھ نکلنے دی گئی؟اتنا ہی نہیں انڈیا ٹوڈے کے اسٹنگ آپریشن میں یہ انکشاف کیا گیا کہ انٹیلی جینس کی طرف سے ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ کیا ہو نے والا ہے پھر بھی انٹیلی جینس کے اس ان پٹ پر توجہ کیو ںنہیں دی گئی، وزیر داخلہ انل وج نے اسٹنگ آپریش کی بات کو ہی جھٹلا دیا ہے، یہی نہیں اس سارے فساد کی جڑ مونو ما نیسر جوراجستھان پولیس کو جنید اور ناصر کے قتل کے معاملہ مطلوب ہے، لیکن راجستھان پولیس یا ہریانہ پولیس اس کو پکڑ نہیں پا رہی ہے اوروہ کھلے عام میڈیا پر انٹرویو دے رہا ہے۔ زی نیوز کو دئے گئے انٹرویو میں آخر ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی میڈیا کو مل جاتا ہے اور جو وہ میڈیا کو انٹریو دیتا ہے لیکن پولیس کو نہیں ملتا۔ ایسا کیسے ہوجائے گا۔ میں یہ کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نے لوگوں سے یاترا میں شرکت کی اپیل ضرور کی تھی، لیکن وہ یاترا میں شامل ہی نہیں ہوا چونکہ وشو ہندو پریشد کے لیڈروں نے منع کر دیا تھا کہ وہ نوح کی یاترا میں شامل نہ ہو ۔مو نو ما نیسر کی اس بات سے کیا یہ صاف نہیں ہو جا تا کہ مونو ما نیسر اور وشو ہندو پریشد کو پہلے سے معلوم تھا کہ یاترا کے دوران کیا ہو نے والا ہے ۔ کانوڑ یاترائوں اور دیگر یاترائوں کے دوران بجرنگ دل اور دوسری انتہا پسند ہندو تنظیموں کی مسلم علاقوں میں اشتعال انگیزی کو ئی نئی بات نہیں، ان تنظیموں کے لوگ مساجد میں گھس کر بھگوا جھنڈا تک پھہرا چکے ہیں اور ہمیشہ مسلمانوں کو مشتعل کرتے رہتے ہیں۔
بجرنگ دل کے آسام کے ٹریننگ کیمپ کا پردہ فاش ہو چکا ہے جس کیمپ میں بجرنگ دل نوجوانوں کو غیر قانونی آتشی اسلحہ کی ٹریننگ د ے رہا ہے ۔ کیا کسی تنظیم کے دہشت گرد ہو نے کیلئے یہ ثبوت نا کا فی ہیں یا کسی پو لس جوان کے ذریعہ چلتی ٹرین میں اپنے افسر سمیت 4 لوگوں کو سرکاری رائفل کی گولیوں سے بھون دینا دہشت گردی نہیںہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی اس پر خاموش ہیں آخر کیوں؟۔اب جبکہ ماہ ستمبر میں G20کے ممالک کا اجلاس ہمارے ملک میں ہونے والا ہے وزیر اعظم نریندر مودی کو منی پور اور نوح معاملہ میں اپنی چپّی کو توڑنا چاہیے ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS