منی پور: بی جے پی کیلئے راہ آسان نہیں

0

پچھلی مرتبہ 2017میں بی جے پی نے 7سیٹوں سے پچھڑنے کے باوجود بھی کانگریس کو سرکار بنانے نہیں دی تھی اور خود برسر اقتدار آگئی۔ کانگریس ریاست میں گزشتہ 15سال سے اقتدار میں تھی۔ آج حالت یہ ہے کہ کانگریس کے کئی بڑے لیڈر اس سے دامن چھڑا چکے ہیں۔
2017میں بی جے پی کو 21سیٹیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کو 28سیٹوں پر کامیابی ملی تھی، دیگر چھوٹی پارٹیوں نے بھی تقریباً 10سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور ان ہی چھوٹی پارٹیوں نے ریاستی سیاست کا رخ بدل دیا۔ بی جے پی نے کونارڈ سانگما کی قیادت والی نیشنل پیوپلز پارٹی (ایس پی پی) اور ناگا پیوپلز فرنٹ (این بی ایف) کے ساتھ مل کر سرکار بنائی۔ ان دونوں پارٹیوں نے 4-4 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
اس مرتبہ یہ علاقائی پارٹیاں پورا زور لگارہی ہیں اگرچہ کسی سیاسی جماعت نے الیکشن سے پہلے سمجھوتہ نہیں کیا ہے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرکز اور ریاست میں حکمراں بی جے پی کی سبقت برقرار ہے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ انتخابی میدان میں ہیں اور انہوں نے پہاڑی اور میدانی علاقوں کے درمیان جو ترقیاتی اسکیموں کے نفاذ میں فرق ہے اسے ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور کسی حد تک وہ اسکیموں کے نفاذ میں تفریق کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تفریق کے خلاف جو احتجاجی بندھ اور مظاہرے ہوتے تھے، وہ اب بالکل کم ہوگئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سیرمن سنگھ کے خلاف مخالفت کے سر نکلتے رہے ہیں مگر وہ اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
بی جے پی کی سرکار نے کئی فلاحی اسکیمیں شروع کی ہیں اور کئی نعرے دیے ہیں ان میں گوٹو نہر، گوٹو ولیج کے علاوہ سی ایم کی سب کے لیے صحت اسکیم سرکار کو غریب آدمی کے دروازے تک لانے میں کامیاب رہی ہے۔ خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں شکایات کے ازالے سے سرکار کو کافی کامیابی ملی ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اسمبلی کی 60سیٹیں ہیں، 20سیٹیں پہاڑی اضلاع میں آتی ہیں۔
ریاستی بی جے پی سرکار کے خلاف سب سے بڑی شکایت ہے کہ وہ اپنی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو برداشت نہیں کررہی ہے اور مخالفین پر سختی کرتی ہے اور دہشت گردی مخالف قوانین جیسے یو اے پی اے کے تحت کارروائی ہورہی ہے۔ ان میں 3صحافی بھی شامل ہیں۔ اس میں قابل ذکر نام کشور چندر ونگھلم کو دو مرتبہ این ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ عدالت نے ان کو چھوڑ دیا تھا۔ عدالت نے ان کے خلاف لگنے والے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بغاوت کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔
دراصل ریاست میں کانگریس کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جن لیڈروں نے کانگریس چھوڑی ان میں گوند کوتھوجام، ٹی ایچ شیام کمار، بمستھونگ، ہاؤکب، آر کے ایمو، کشن بیرن، اوکرام ہیری اور حال میں ہی تھیگنوبال ایم ایل اے ڈی کرونگ تھام شامل ہیں۔ منی پور کانگریس کے سربراہ متھرا چندرا نے کہا ہے کہ بی جے پی کی کوشش ممبران اسمبلی کو خریدنے کی رہی ہے، دوسری پارٹیوں کے ممبران اسمبلی کو خریدتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوف، کرپشن، بے روزگاری، پریشان کیا جانا عام بات ہے۔ لوگ اپنی اظہار خیال کی آزادی کو استعمال کرتے ہیں، عوام جانتے ہیں کہ ریاستی سرکار عوام دشمن ہے اور ہم اسی موقف پر عوام کو بیدار کررہے ہیں اور انتخابی مہم چلارہے ہیں۔
بی جے پی کے لیے سب سے اہم دشواری زیادہ خود مختاری دینے کے مطالبات ہیں جو پہاڑی علاقوں سے آرہے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے آٹولومس ڈسٹرکٹ کونسل کو زیادہ بااختیار بنانے کا معاملہ ہے مگر ریاستی سرکار اور بی جے پی یہ بل پیش نہیں کررہی ہے۔
منی پور بی جے پی کے اندر زبردست اختلافات ہیں اور بہت سارے لیڈروں میںٹکٹ لینے کے لیے زبردست معاملہ آرائی ہورہی ہے۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ اندرونی اختلافات بی جے پی کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہیں، یہ خانہ جنگی کانگریس سے بڑی پریشان کن ہے۔ حال ہی میں گوبند داس کونتھوم جام کے حامیوں کے مظاہرہ سے بی جے پی میں مشکلات محسوس کی جارہی ہیں اور اس صورت حال سے کانگریس خوش نظر آرہی ہے۔ اس واقعہ کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ کونتھوجام کو ٹکٹ ہی نہ ملے۔ پچھلے دنوں ناگالینڈ میں سیکورٹی فورسیز کی کارروائی کو لے کر عوام میں ناراضگی ہے۔ اب یہ مطالبہ پھر اٹھ رہا ہے کہ مسلح افواج اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کو ہٹایا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مطالبات بی جے پی کے لیے کتنی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ منی پور میں اے ایف ایس پی اے کے خلاف بہت سخت ناراضگی ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کو واپس اقتدار میں آنے کا پورا یقین ہے۔ بی جے پی کو پورا اعتماد ہے کہ اس کو 60میں سے 40سیٹوں پر کامیابی ملے گی۔ اس معاملہ میں مرکزی سرکار بھی ریاستی قیادت کو ہرممکن تعاون فراہم کر رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS