اپوزیشن اتحاد کیلئے ممتا کی کوشش

0

مضبوط مستحکم اور سرگرم حزب اختلاف جمہوری نظام حکومت میں حکمران کی اجارہ داری اور آمریت کے خلاف تریاق کا کام کرتا ہے لیکن سوئے قسمت کہ ہندوستان میں حزب اختلاف ان تینوں خوبیوں سے محروم ہے اورایسا نہیں لگتا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں بھی اس صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی۔تاآنکہ مختلف سیاسی جماعتیں اپنا اتحاد نہ قائم کرلیں۔ اس کے بغیر ملک کی یہ بنیادی جمہوری ضرورت پوری نہیں ہوسکتی ہے۔ایسے ہی اتحاد کے قیام کیلئے جون کے وسط میں سابق وزیرخزانہ اور ترنمول کانگریس میں نئے نئے شامل ہونے والے یشونت سنہا کے اقدام پر دہلی میں حزب اختلاف کی آٹھ جماعتوں کے نمائندے جمع ہوئے تھے۔ پھر 21 جولائی کو مغربی بنگال میں ’شہید دیوس‘ کی تقریب میں ترنمول کانگریس سپریمو ممتابنرجی نے بھی اپوزیشن اتحاد کی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکمراں بی جے پی کے خلاف اپنی پارٹی کو قومی سطح پر وسعت دیں گی اوراسے عوام کیلئے متبادل بنائیں گی۔
مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں توقع کے برخلاف ہونے والی شاندار جیت بھی ممتابنرجی کے حوصلہ کو سوا کررہی ہے کہ وہ ایک ایسا اتحاد بنائیں جوعوام کیلئے بی جے پی کامتبادل ثابت ہو۔ممتابنرجی اپنی کوششوں میں کتنی کامیاب ہوں گی یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن ان ہی امکانات کوحقیقت میں بدلنے کیلئے اس وقت بھی ممتابنرجی دہلی میں حزب اختلاف کے رہنمائوں سے ملاقات کررہی ہیں۔پانچ روز کے دورہ پر دہلی پہنچنے والی مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے بدھ کی شام کو کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی سے بھی ملاقات کی۔ اس سے قبل وہ کانگریس کے ہی سینئر لیڈروں کمل ناتھ، آنند شرما سے بھی ملاقات کرچکی ہیں۔اگلے دور میں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال اور دوسری علاقائی پارٹیوں کے رہنمائوں سے بھی وہ ملیں گی۔ اپوزیشن اتحاد کیلئے ممتابنرجی انتہائی پرامید ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اتحاد خود بخود اپنی شکل لے لے گا،انہیں زیادہ جدو جہد نہیں کرنی پڑے گی۔اتحاد کی قیادت کیلئے اب تک انہوں نے کوئی نام طے نہیں کیا ہے تاہم محسوس یہ ہورہاہے کہ وہ خود اپنی ہی قیادت میں اپوزیشن کو متحد کرناچاہتی ہیں۔ترنمول کانگریس کو ملک گیر وسعت دینے کا ان کا منصوبہ بھی اسی طرف اشارہ کررہاہے۔ 21جولائی کو شہید دیوس کی ورچوئل تقریب کا ملک کی مختلف ریاستوں میں انعقاد اور آئی پی اے سی(پرشانت کشورکا ادارہ) کی ٹیم کو امکانات کا جائزہ لینے کیلئے مختلف ریاستوں میں بھیجنا بھی یہی بتارہاہے کہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت ممتابنرجی اپنے ہاتھ میں ہی رکھنا چاہتی ہیں۔لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ ممتابنرجی کو قومی لیڈر کی حیثیت حاصل ہوجائے گی اور وہ اپوزیشن اتحاد ان کی قیادت کو قبول کرلے گا۔ اب تک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ ملک میں کوئی بھی علاقائی پارٹی، قومی پارٹی کی حیثیت حاصل نہیں کرپائی ہے۔ ممتابنرجی کا ’ ماں ماٹی مانس ‘ کا بنگالی نعرہ بھی نہ صرف ترنمول کانگریس کی ملک گیر وسعت میں سد راہ ہے بلکہ ان کے قومی لیڈر بننے میںبھی مزاحم ہوگا۔
یہ درست ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ علاقائی پارٹیوں کا ایک ایسا اتحاد قائم ہو جو مرکز میں حکمراں بی جے پی سے طاقت آزمائی کرسکے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ممتابنرجی کی تجویز کو دوسری جماعتوں کے رہنما بھی قبول کرلیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حزب اختلاف کی مختلف جماعتوں کے اتحاد کی راہ میں ریاستی سیاست کے مفادات آڑے آسکتے ہیں۔خود مغربی بنگال میں کانگریس کے ریاستی صدر ادھیررنجن چودھری، ممتابنرجی اوربی جے پی کو ایک ہی سکہ کادو رخ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ بی جے پی کے خلاف ممتابنرجی سے کوئی اتحاد نہیں ہوسکتا ہے۔ بایاں محاذ نے بھی اب تک اس سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی ہے لیکن گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس اور آئی ایس ایف کے ساتھ اس کے اتحاد سے بھی یہی پیغام واضح ہے کہ بایاں محاذ بھی ممتابنرجی سے دوری بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ جب اتحاد کے حوالے سے ممتابنرجی کی اپنی ریاست مغربی بنگال میں ہی اتنی رکاوٹیں ہیں تو دوسری ریاستوں کی علاقائی پارٹیوں کے بھی اپنے اپنے مفادات ہوں گے اوروہ پارٹیاں اپنے علاقائی مفاد سے باہرنکل کر قومی سیاست میں اگرشامل ہوبھی گئیں تو ان کیلئے اپناوجود بچانے کا بھی ایک مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔
اس صورتحال میں یہ کہنا مشکل ہے کہ ممتا بنرجی نے جس اپوزیشن اتحاد کا ڈول ڈالا ہے وہ بھر بھی پائے گا۔لیکن یہ حقیقت کسی سے بھی پوشیدہ نہیںہے کہ اپوزیشن اتحاد اب ملک کی سیاسی اور جمہوری ضرورت بن چکا ہے۔2024کے پارلیمانی انتخاب سے پہلے پہلے علاقائی پارٹیوں کوملک کی اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اپنی صوبائی سیاست کے دائرہ سے باہر آنا ہوگا۔جہاں تک بات قیادت کی ہے تو اتحاد قائم ہونے کے بعد بھی اس معاملہ کو طے کیاجاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS