ٹیکہ پر ایک رائے تو بنائیے

ٹیکہ کی سپلائی سے لے کر اس کے انتظام و تقسیم کرنے تک موجودہ پالیسی مؤثر ثابت نہیں ہورہی ہے۔ اس میں مناسب وسائل درکار ہیں۔

0

پارتھ مکھ اپادھیائے

ایک بھیڑبھاڑ والے چڑیاگھر میں ایک مضبوط قدآور شخص شیروں کو دیکھنے کی کوشش میں تھا۔ تبھی ایک دیگر شخص کی کوہنی اسے جالگی جو خود شیروں کو اچھی طرح سے دیکھنا چاہتا تھا۔ ناراض ہوکر پہلے شخص نے دوسرے شخص کو شیر کے باڑے میں پھینک دیا اور کہنے لگا- اب تم بہت نزدیک سے شیر دیکھ سکوگے۔ 45سال سے کم عمر کے لوگوںکے لیے ٹیکہ کاری شروع کرکے ٹیکہ کی طرف رجحان بڑھانے کی پالیسی بھی کچھ اسی طرح کی کشیدگی میں اضافہ کرتی نظر آرہی ہے، وہ بھی اس وقت جب ٹیکہ کی سپلائی کم ہورہی ہے۔ اس سے ریاستوں میں مقابلہ آرائی میں اضافہ ہوگا اور کمپنیاں قیمتیں بڑھائیں گی۔
سبھی کے لیے ٹیکہ کاری کے تعلق سے ریاستیں پرجوش نہیں ہیں، کیوں کہ روزانہ 30لاکھ خوراک کی سپلائی بھی نہیں ہورہی ہے۔ مرکزان کا مطالبہ کو ماننے کے تئیں لاپروا ہے اور سابقہ پالیسی کو بدل کر ایک نئی ’لبرلائزڈ‘ اسکیم بنانے کے تئیں بے حس۔ کسی بھی ویکسین-پالیسی میں جلد سے جلد اور ہر ممکن سپلائی میں اضافہ درکار ہوتا ہے۔ کم قیمت پر ٹیکہ کی خریداری، درمیانی مدت کی اسکیم اور مؤثر طریقہ سے ٹیکہ کی تقسیم ابھی و مستقبل میں بھی زندگی بچانے میں کارآمد ہے۔ مگر موجودہ پالیسی ایسا کرنے میں کارگر نہیں ہے۔

اگر مرکز ٹیکہ بنانے والوں کے ساتھ قیمت اور خوراک کو لے کر بات چیت کرتا ہے تو سپلائی کی موجودہ پالیسی کے تحت شفاف نظام بنایا جاسکتا ہے۔ جو ریاستیں زیادہ ٹیکہ کاری کرتی ہیں،انہیں زیادہ ٹیکے دیے جاسکتے ہیں، جب کہ جن ریاستوں کی ضرورت کم ہے، انہیں اسی تناسب میں سپلائی کی جاسکتی ہے۔ قومی صحت مشن میں بھی اسی طرح کا نرم رویہ اپنایا گیا ہے۔ اگر ریاستیں ٹیکس کی تقسیم پر متفق ہوسکتی ہیں تو پھر ٹیکے شیئر کرنے پر بھی وہ ایک رائے بناہی سکتی ہیں۔

ہم ٹیکہ کو اسی طرح سے خرید رہے ہیں، جیسے مہینہ کے راشن کا سامان۔ وزیرمالیات نے کہا تھا سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اور بھارت بایوٹیک کو بالترتیب 3,000کروڑ اور 1,567کروڑ روپے ایڈوانس دیے جائیں گے۔ اس کے بجائے، انہیں تقریباً آدھی ادائیگی کی جارہی ہے، جس کے تحت 16کروڑ خوراک کی سپلائی 157روپے فی ٹیکہ کی شرح پر ہوئی۔ اگر ہدف50لاکھ خوراک روزانہ ہے تو یہ صرف ایک ماہ کی سپلائی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مرکز صرف 45سے زیاد عمر کی آبادی کی ٹیکہ کاری میں مدد کرے گا، باقی کی سپلائی ممکنہ دیگر کمپنیوں سے پوری کی جائے گی اور باقی کی ٹیکہ کاری ریاستوں کا کام ہے۔
ایسے میں مستقبل کی کسی امید کے بغیر ٹیکہ بنانے والی کمپنیاں کیا سپلائی بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کریں گے؟ فی الحال اسپوتنک-وی کو منظوری مل گئی ہے اور اس سے کچھ لاکھ خوراک کی درآمد کی جائے گی۔ کہا جارہا ہے کہ6کمپنیاں ٹیکے دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن ابھی اس بابت حکم کا انتظار ہے۔ جانسن اور نوواویکس کو ابھی تک منظوری نہیں ملی ہے۔ دونوں نے ہندوستانی شراکت دار کی تلاش کرلی ہے اور امید ہے کہ وہ موجودہ ضرورت کے مطابق مرکزی حکومت کے بجائے صوبہ کی حکومتوں سے بات چیت کریں۔ کوویکسین کی سپلائی بھی دیگر کمپنیوں سے آؤٹ سورسنگ کرکے بڑھائی جاسکتی ہے، بالخصوص تب جب Intellectual Property Rightsکو انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
ہمیں نقلی دھینگامشتی کو روکنا ہوگا۔ کسی بھی دیگر ملک میں ایسی صوبائی حکومتیں نہیں ہیں، جو ٹیکہ خریدنے کے لیے مقابلہ کررہی ہوں۔ مرکزی حکومت کو ہر ایک ٹیکہ کی قیمت پر بات چیت کرنی چاہیے، ساتھ ساتھ اس کی درآمد کی تاریخ، منظوری وغیرہ پر بھی اسے قدم بڑھانا چاہیے۔ اگر قومی سطح پر حکم ملتا ہے تو ٹیکہ بنانے والوں کو نہ صرف ضروری یقین دہانی ہوگی، بلکہ ڈیڑھ ارب ٹیکے کی خوراک کی ڈیمانڈ کی سپلائی کو لے کر ان میں اعتماد بھی پیدا ہوگا۔ ایسا کرنے سے کمپنیاں ہمارے دیگر بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ترغیب حاصل کریں گی، خاص طور پر کوویکس کو لے کر ، جہاں سپلائی میں ہماری گڑبڑی کے سبب زیادہ تر ترقی پذیر ملک بیچ میں لٹک گئے ہیں۔ ایسے میں چینی کمپنی کو پکڑبنانے/پیرجمانے کا موقع مل رہا ہے۔
دوسرا مسئلہ قیمت کا ہے۔ نئی ویکسین پالیسی ریاستوں کو سزا دینے کے لیے بنائی گئی محسوس ہوتی ہے۔ نسبتاً انصاف پسند ’پری-لبرلائزیشن‘ پالیسی میں، ویکسین کی قیمت مرکز اٹھارہا تھا۔ اس کے لیے اس نے 35000کروڑ روپے کا بجٹ رکھا۔ اور ٹیکہ کاری کی لاگت ریاستوں کے ذریعہ افورڈ کی جانی تھی۔ ریاستوں کو مفت ٹیکے مہیا کرانے کی ڈیلی پریس ریلیز مانو خیرات تقسیم کرنے کی معلومات ہو۔ یہ فیڈرل کوسٹ تقسیم کرنے کے جذبہ کے خلاف ہے۔ نئی ویکسین پالیسی کے تحت، مرکز سپلائی کا آدھا حصہ خریدے گا۔ ایک چوتھائی ٹیکے ریاستوں کے لیے ہیں جو مرکزی کوٹے کے مطابق شیئر کیے جائیں گے اور ایک چوتھائی ویکسین پرائیویٹ سیکٹر کو ملے گی جو ویکسین کے معاملہ میں دوگنا سے تین گنا قیمت چکا رہا ہے۔ اگر سیرم انسٹی ٹیوٹ اور بھارت بایوٹیک عام پرائیویٹ کمپنیوں کی طرح سلوک کرتی ہیں تو وہ پہلے اونچی قیمت دینے والے پرائیویٹ سیکٹر کی ڈیمانڈ پوری کریں گی اور پھر اگر بچے گا، تب ریاستوں کو سپلائی کی جائے گی۔ یعنی نوجوانوں کو لگنے کے لیے ریاستوں کو اب کم ٹیکے دستیاب ہوں گے اور انہیں قیمت بھی زیادہ چکانی ہوگی۔
تیسرا اگر مرکز ٹیکہ بنانے والوں کے ساتھ قیمت اور خوراک کو لے کر بات چیت کرتا ہے تو سپلائی کی موجودہ پالیسی کے تحت شفاف نظام بنایا جاسکتا ہے۔ جو ریاستیں زیادہ ٹیکہ کاری کرتی ہیں،انہیں زیادہ ٹیکے دیے جاسکتے ہیں، جب کہ جن ریاستوں کی ضرورت کم ہے، انہیں اسی تناسب میں سپلائی کی جاسکتی ہے۔ قومی صحت مشن میں بھی اسی طرح کا نرم رویہ اپنایا گیا ہے۔ اگر ریاستیں ٹیکس کی تقسیم پر متفق ہوسکتی ہیں تو پھر ٹیکے شیئر کرنے پر بھی وہ ایک رائے بناہی سکتی ہیں۔
بہتر متوقع فراہمی ریاستوں کو انتظار کرنے کے بجائے بہتر اسکیم بنانے اور ٹیکوں کی طرف لوگوں کے رجحان میں اضافہ اور تیز ٹیکہ کاری کی طرف آگے بڑھنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس طرح کی ترمیم شدہ پالیسی سے ہی سال کے آخر تک ٹیکہ لینے کے لائق پوری آبادی کی ٹیکہ کاری ممکن ہوسکتی ہے اور اگر کمپنیاں جلد ہی پیداوار کے لیے سرمایہ کاری کرتی ہیں تو ہم برآمد بھی کرسکتے ہیں۔ تو کیا مرکزی اور ریاستی حکومتیں اپنا اپنا رُخ بنائے رکھیں گی یا ایک سمجھ داری بھری ویکسین پالیسی بنانے کے لیے مل کر فیصلے کریں گی؟ ماضی میں اس طرح کے اختلافات نے عموماً معاش کو نقصان پہنچایا ہے۔ مگر اس مرتبہ ہندوستانیوں اور دنیا بھر کے لوگوں کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔
(مضمون نگار سینئر فیلو، سی پی آر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS