عبدالماجد نظامی
بدھ کے روز اچانک ریاست مہاراشٹر جس کی راجدھانی ممبئی ہے اور جسے بجا طور پر ملک کی اقتصادی راجدھانی بھی کہا جاتا ہے، وہاں سے یہ خبر آئی کہ شیو سینا میں ایکناتھ شندے نام کا ایک باغی اٹھ کھڑا ہوا ہے جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کے ساتھ شیو سینا کے55میں سے34ایم ایل اے ہیں۔ یہ دعویٰ کسی سیاسی افواہ کی حیثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ صحیح معنی میں باغی نیتاؤں کا پورا جتھہ پنے اور گجرات ہوتا ہوا آسام کے شہر گواہاٹی جا پہنچا اور تین ستارہ ہوٹل میں قیام پذیر ہوگیا۔ ایکناتھ شندے نے شیو سینا کے سپریمو اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے خلاف بغاوت کے لیے جس بات کو بنیاد بنایا ہے، اس کا تعلق آئیڈیالوجی سے ہے۔ شندے کے مطابق ادھو ٹھاکرے نے بالاصاحب ٹھاکرے کے نظریہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف اقتدار اور پاور کی خاطر ہندوتو کے نظریہ سے روگردانی کرلی اور ایسی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحادی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی جن کے نظریات ہندوتو کے ساتھ نہ صرف میل نہیں کھاتے بلکہ ازلی حریف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایکناتھ شندے کے اس الزام سے شاید خود شیوسینا کے حامیوں کی ایک خاصی تعداد اتفاق بھی رکھے لیکن بادی النظر یہ بات حقیقت سے جس قدر قریب معلوم ہوتی ہے حقیقی صورتحال دراصل اس سے بالکل مختلف ہے۔ ایکناتھ شندے کے تعلقات مہاراشٹر میں بی جے پی کے قدآور لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس سے بہت گہرے ہیں۔ میڈیا میں موجود ذرائع کے مطابق بی جے پی لیڈر فڑنویس کے ساتھ شندے کے مراسم2015کے بعد زیادہ مضبوط ہونے لگے تھے۔ ان دنوں ایکناتھ شندے فڑنویس کے کابینہ رفیق ہوا کرتے تھے۔ یہ رشتے صرف سرکاری کاموں کے دائروں تک محدود نہیں رہے بلکہ گہرے ذاتی روابط اور دوستی میں تبدیل ہوگئے اور دیکھتے دیکھتے ہی اس حد تک پہنچ گئے کہ اگر 2019 میں شیو سینا اور بی جے پی ایک ساتھ اسمبلی انتخابات میں داخل نہیں ہوتیں تو شندے تھانے حلقۂ انتخاب سے بی جے پی کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوتے اور شیو سینا کے ساتھ شندے کے تعلقات کی کہانی وہیں ختم ہوجاتی۔ فڑنویس نے بھی شندے کے ساتھ اپنے سیاسی اور غیر سیاسی رشتوں کو پروان چڑھانا اور صحیح وقت پر اس کا استعمال کرنا مناسب سمجھا اور اس طرح آج شیو سینا کے نظریہ کی دہائی دینے والے ایکناتھ شندے نے بی جے پی کی طرف منتقل ہونے کا ارادہ وقتی طور پر ملتوی کر دیا۔ خود بی جے پی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شندے کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی توقعات بہت ہیں۔ بی جے پی کو اس پہلو کا ادراک پہلی بار 2014 سے 2019 کے دوران ہوگیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ محسوس کیا تھا کہ جن مقاصد کی تکمیل شندے چاہتے ہیں اور اقتدار کی جس منزل پر وہ پہنچنا چاہتے ہیں، ان کا حصول شیو سینا میں رہتے ہوئے ان کے لیے ممکن نہیں ہے اور اسی لیے ایکناتھ شندے وہاں گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ فڑنویس نے شندے کی اس گھٹن کو استعمال کرنے اور اپنی پارٹی سے انہیں قریب کرنے کے لیے 2015 میں جس حربہ کا استعمال کیا تھا، وہ یہ تھا کہ جب انہوں نے بطور وزیراعلیٰ ناگپور-ممبئی ایکسپریس وے پروجیکٹ کا اعلان کیا تو اس کو نافذ کرنے کے لیے شندے کا انتخاب کیا گیا۔ آج ادھو ٹھاکرے کے خلاف بغاوت کا جو اعلان ہوا ہے، وہ کسی بھی طرح سے اچنبھا نہیں ہے۔ ملک کی سیاست کے نباض اس بات کو جانتے ہیں کہ اس کی تخم ریزی بہت پہلے کی جا چکی تھی۔ نہ ہی شیو سینا کی قیادت کے لیے ان کے اپنے ہی لیڈران کے ذریعہ اعلان بغاوت کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ ہے۔ خود شیو سینا کے بانی بالا صاحب کی زندگی میں اس پارٹی کو کم از کم چار بار اندرونی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بار کی بغاوت میں اگر نیاپن کچھ ہے تو صرف اس قدر ہے کہ ادھو ٹھاکرے کو اس کا سامنا پہلی بار کرنا پڑ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بار بار بغاوت کی یہ آگ شیو سینا کے اندر بھڑک کیوں اٹھتی ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ فیصلہ سازی کے جو اصول شیوسینا نے طے کیے ہیں، ان میں بنیادی کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور جب تک شیو سینا ان کمزوریوں کو دور نہیں کر لیتی، اس قسم کی بغاوتوں کا سلسلہ بھی بند نہیں ہوگا۔ شیو سینا کی دوسری بڑی دقت اور حالیہ بغاوت کی ممکنہ وجوہات میں سے یہ ہے کہ جب سے ادھو ٹھاکرے وزیر اعلیٰ بنے تھے، ان کی پارٹی کے لیڈران کی یہ شکایتیں کئی بار سامنے آتی رہی ہیں کہ ان تک رسائی بہت مشکل ہوگئی تھی۔ عدم رسائی کی وجہ سے شیو سینا کے لیڈران اور کارکنوں میں غصہ اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی رہی اور اسی کا استعمال ایکناتھ شندے نے کرلیا۔ اس چنگاری کو شعلہ بنانے کے لیے جس موقع کا انتظار تھا، وہ پیر کے روز ایم ایل سی کے انتخاب کے موقع پر ہاتھ آ گیا جہاں شیو سینا کے لیڈران کو کانگریس پارٹی کو حمایت دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ حالانکہ سچ بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا کے انتخاب کے موقع پر ہی اس بات کا اشارہ مل چکا تھا کہ شیو سینا کے لیے سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت تب سامنے آیا جب غیر متوقع طور پر بی جے پی مہاراشٹر سے راجیہ سبھا کی تین سیٹوں پر فتحیاب ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن سر دست ان تمام مسائل پر گفتگو کرنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس طرز سیاست کو سمجھا جائے جس پر بی جے پی 2014 کے بعد سے مستقل گامزن ہے۔ بی جے پی نے منصوبہ بند ڈھنگ سے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ اس ملک کی جمہوریت کی روح نکال دی جائے اور دستور ہند کا صرف ڈھانچہ برقرار رکھا جائے تاکہ جمہوری و دستوری ہونے کا بھرم قائم رکھ کر مطلق العنانی کے تمام پہلوؤں کو عملی طور سے نافذ کر دیا جائے۔ عوام کے ذریعہ منتخب حکومتوں کو گراکر اور سیم و زر کا استعمال کرکے یا خوف اور لالچ کے ذریعہ حزب مخالف کے لیڈران کو اپنے پالے میں کرنے کا ایسا مجرب نسخہ بی جے پی نے تیار کرلیا ہے کہ اب اسے اس غیر جمہوری عمل کے ارتکاب میں ایک قسم کی لذت محسوس ہونے لگی ہے۔ اسی نسخہ کا استعمال کرکے بی جے پی نے کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں عوام کے ہاتھوں منتخب حکومتوں کو کمزور کیا تھا اور پھر اپنی حکومت قائم کی تھی۔ راجستھان میں بھی یہی نسخہ آزمایا گیا تھا لیکن وہاں ناکامی ہاتھ آئی۔ آج مہاراشٹر میں شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کے اتحاد کو توڑنے کے لیے بھی اسی مجرب نسخہ کا استعمال کیا ہے جس میں بی جے پی کے لیڈر فڑنویس اور آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ایکناتھ شندے کو محض ایک مہرہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر ہیمنت بسوا سرما کا رول اس میں نہیں ہوتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ شیو سینا کے باغی لیڈران کا استقبال کرنے اور انہیں ہوٹل تک آرام سے پہنچانے کے لیے بی جے پی کے مقامی لیڈران پہلے سے ہی موجود تھے؟ یہ سچ ہے کہ اگر شندے کی اپنی سیاسی تمنائیں نہ ہوتیں اور اپنے بیٹے کے سیاسی مستقبل کو بہتر بنانے کا لالچ نہیں ہوتا تو بی جے پی کے لیے ان سے یہ کام کروانا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن زیادہ سنجیدہ سوال ایک عام ہندوستانی کے سامنے یہ ہے کہ آخر اس ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ اگر اسی نہج پر عوام کے ذریعہ منتخب لیڈران کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہا تو کیا اس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ دستور ہند کی روح برقرار رہے گی؟ مہاراشٹر میں حکومت کو گرانے کا یہ کھیل ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب کہ ممبئی میں واقع اسٹاک مارکیٹ سے اربوں ڈالر کا انوسٹمنٹ نکالا جا رہا ہے اور بازار میں غیریقینی کیفیت طاری ہے۔ اقتصادی اعتبار سے ایسے نازک مرحلہ میں سیاسی بحران پیدا کرنا کسی بھی طرح ملک کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک ایسا لمحۂ فکریہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے اور اس کے حل کا موثر طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس قسم کی سیاسی بازیگری کا دروازہ بند ہو سکے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]