پارلیمانی جمہوریت کی تذلیل

0

اقتدار کیلئے کس حد تک اور کتنی بے دردی کے ساتھ اصول، ضابطے، آئین، قانون اور جمہوریت کی کھلی تذلیل کی جاسکتی ہے، اس کامظاہرہ ان دنوں مہاراشٹر میں ہورہا ہے۔ ایک طرف ادھو ٹھاکرے مہاوکاس اگھاڑی حکومت بچانے کیلئے وزارت علیا کی قربانی دینے کوبھی تیار ہیں تو دوسری طرف ان کی پارٹی کے رہنما سنجے راوت نے مہا وکاس اگھاڑی اتحاد سے نکلنے کا کھلا عندیہ دے دیا ہے، تیسری طرف اتحاد بچانے کی کوشش کررہی کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ہے جن کو سنجے راوت کا کھلا اشارہ باغی ارکان اسمبلی کو اپنے خیمہ میں واپس لانے کی حکمت عملی محسوس ہورہی ہے۔
مقابلہ میںبھارتیہ جنتاپارٹی کی سرپرستی میںکابینہ وزیر ایکناتھ شندے ہیں جنہیں مبینہ طور پر 46ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ایکناتھ شندے ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا کے مقابلے اپنی شیوسینا کو اصل پارٹی بتارہے ہیں اور خود کو بال ٹھاکرے کے سچے پیروکار اور ہندوتو کے محافظ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی سے علیحدگی اوراپنی پارٹی کا باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن اپنی طرف سے اپنے حامی ایم ایل اے بھرت گوگاوالے کو شیوسینا کاچیف وہپ بناکرایم ایل اے کی تعداد کی بنیاد پرا پنی شیوسینا کو حقیقی شیوسیناکہنے کا دائو چل دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے گوہاٹی کے ہوٹل میں موجود تمام ایم ایل ایز کا گروپ فوٹو اور ویڈیو بھی جاری کیا ہے۔یہ تمام ایم ایل اے ایک ساتھ بیٹھے شیو سینا زندہ باد، بالا صاحب ٹھاکرے کی جئے اور ایکناتھ شندے تم جدوجہد کرو، ہم تمہارے ساتھ ہیں، کے نعرے بھی لگا رہے ہیں۔گوہاٹی میں بیٹھے ہوئے شندے بغاوت کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مہاوکاس اگھاڑی بناکر شیوسینا ہندوتو کے راستہ سے ہٹ گئی اورروزبروز کمزور ہوتی جارہی ہے جب کہ کانگریس اور این سی پی اپنی طاقت بڑھارہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ شیوسینا بھارتیہ جنتاپارٹی کی اتحادی رہ چکی ہے اور 2019کا اسمبلی انتخاب دونوں نے ساتھ مل کر لڑاتھا اورا کثریت بھی حاصل کی تھی تاہم شیوسینا نے وزیراعلیٰ کے عہدہ پر تنازع پیدا ہونے کے بعد بی جے پی سے اپنا اتحاد ختم کرکے کانگریس اور این سی پی سے ہاتھ ملالیا تھا۔ان کے ساتھ تین چار علاقائی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار بھی شامل ہوگئے جس کے بعد مہاوکاس اگھاڑی اتحاد کا قیام عمل میں آیا۔ کانگریس اور این سی پی نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے ادھو ٹھاکرے کو سرآنکھوں پر بیٹھایا اور ان کی قیادت میںحکومت قائم ہوگئی۔
لیکن اب بال ٹھاکرے اور ہندوتو کو بنیادبناکر مہاراشٹر میں جو کھیل کھیلاجارہا ہے وہ صحت مند سیاست اور پارلیمانی جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کی کھلی تذلیل اور عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔
ایکناتھ شندے کے الزام کی صفائی دیتے ہوئے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ شیوسینا آج بھی وہی ہے جو بالاصاحب ٹھاکرے کے زمانے میں تھی، شیوسینا کو ہندوتو سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہندوتو کو شیوسینا سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ بالاصاحب کے انتقال کے بعد ہم 2014میں اکیلے انتخاب لڑے تھے اور وہ پچھلے ڈھائی سال سے وزیر اعلیٰ ہیں اور جتنے بھی لیڈر منتخب ہوئے ہیں، وہ بال ٹھاکرے کی شیوسینا پارٹی سے ہیں۔ مہاوکاس اگھاڑی اتحاد مضبوط ہے اور کانگریس-این سی پی دونوں چاہتی ہیں کہ وہی وزیر اعلیٰ رہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے شیوسینا کے ممبران اسمبلی کو چیلنج بھی کیا کہ وہ ان کے سامنے آئیں یا فون پر کہیں کہ وہ انہیں وزیر اعلیٰ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ اب باغی ایم ایل اے میں سے کتنے لوگ یہ کام کر پائیں گے، اس کا اب تک کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔ لیکن ان ہی کی پارٹی کے لیڈر سنجے راوت نے مہاوکاس اگھاڑی اتحاد سے باہر نکلنے کی با ت کہہ کر یہ جتادیا ہے کہ شیو سینا کسی بھی حا ل میں حکومت سے باہر نہیں رہنا چاہتی ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ ایکناتھ شندے کی شرطیں تسلیم کرتے ہیں اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ مل کر اپنی اکثریت ثابت کردیں گے، بھلے ہی وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے بجائے ایکناتھ شندے ہی کیوں نہ بن جائیں۔
تین دنوں پہلے تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن اچانک ایکناتھ شندے کی قیادت میں ایم ایل اے باغی ہوجاتے ہیں،ا نہیں سورت سے ہوتے ہوئے بھیڑ بکریوں کی طرح گوہاٹی لے جاکر ایک ہوٹل میں نظر بند کردیاجاتا ہے۔بزور طاقت انہیں مہاراشٹر سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا پردہ شیو سینا کے ایم ایل اے نتین دیش مکھ نے اٹھادیا۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں زبردستی سورت لے جایا گیا اور انہیں دل کا مریض سمجھ کر اسپتال میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے قبل ان کی اہلیہ نے پولیس میں ان کے لاپتہ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔اگر جمہوری طور پر منتخب عوامی نمائندوں کو اس طرح قید کیا جاتا ہے،روپے دے کر ان کو توڑا جاتا ہے، اور پھرمطلوبہ اکثریت جمع کرنے کے بعد آئین کا حلف اٹھا کر حکومت بنائی جاتی ہے، تو یہ انتخاب،عوام کے مینڈیٹ، آئین،قانون اورپارلیمانی جمہوریت کا کھلا مذا ق ہے جسے روکنا ضروری ہے اوراس معاملہ میں عدالت کو بھی از خود نوٹس لینا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS