دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

0

محمد عباس دھالیوال
اب جبکہ روس یوکرین کے بیچ چل رہی جنگ کو ایک سال سے بھی اوپر وقت گزر چکا ہے تو ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کروانے کی کوششیں بھی تیز ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس سلسلے میں کل جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی سے ملاقات اور روسی صدر پوتن نے منگل کو ماسکو میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ ان دونوں ملاقاتوں میں روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے حوالے سے ہی تبادلہ خیال کیا گیا۔اس سلسلے میں جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی سے ملاقات کے لیے منگل کے روز کیف پہنچے۔دراصل ان کی آمد کا اصل مقصد یوکرین کے ساتھ اپنی حمایت کا اظہار کرنا تھا۔ ویسے جاپانی رہنما کا دورہ ایسے وقت ہوا ہے جبکہ ادھر روسی صدر ولادیمیر پوتن چینی رہنما شی جن پنگ کی میزبانی کر رہے تھے۔
دریں اثنا جاپانی وزارت خارجہ نے کہا کہ جاپانی وزیر اعظم اپنے دورے کے دوران کیشیدا ’ یوکرین کے عوام کی ہمت اور صبروتحمل کو خراج تحسین پیش کریں گے جو صدر زیلینسکی کی قیادت میں اپنے وطن کے دفاع کے لیے ڈٹ گئے ہیں اوروہ جاپان کے سربراہ اورجی 7-کے چیئرمین کی حیثیت سے یوکرین کے لیے یکجہتی اور غیر متزلزل حمایت کا اظہار کریں گے۔‘ اس کے ساتھ ساتھ کیشیدا ’روس کی جانب سے جارحیت اور طاقت کے ذریعے یک طرفہ طور پر موجودہ صورت حال کی تبدیلی‘ کے اقدام کوجاپان کی طرف سے مسترد کرنے کا اظہار کریں گے۔ اسی بیچ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا ہے کہ ’ روس آج اپنی جنگ ختم کر سکتا ہے لیکن جب تک روس ایسا نہیں کرتا ہم یوکرین کے ساتھ اس وقت تک متحد رہیں گے جب تک یہ جنگ جاری رہے گی ۔‘ جبکہ دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ یوکرین کے لیے چین کے امن منصوبے کو جنگ کے خاتمے کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ اسی وقت پیش کیا جا سکتا ہے جب لوگ ’مغرب اور کیئو میں‘ اس کے لیے تیار ہوں۔ روسی رہنما نے منگل کو ماسکو میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی جس میں روس یوکرین جنگ اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ گزشتہ مہینے شائع ہونے والے چین کے منصوبے میں واضح طور پر روس سے یوکرین چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ 12 نکاتی اس منصوبے میں امن مذاکرات اور قومی خود مختاری کے احترام کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن اس میں خاص تجاویز نہیں دی گئی ہیں۔
لیکن ادھر یوکرین اس بات پر زور دے رہا ہے کہ کوئی بھی بات اسی شرط پر ہو سکتی ہے جب روس اس کی سرزمین چھوڑ دے اور روس کی جانب سے اس پر آمادگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پیر کے روز کہا کہ روس کے یوکرین کی سرزمین سے واپسی سے قبل جنگ بندی کا مطالبہ ’روسی فتح کی توثیق کی مؤثر حمایت ہوگا۔‘
چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت کے اختتام پر ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں روسی صدر پوتن نے کہا: ’جب بھی مغرب اور کیئو اس کے لیے تیار ہوں تو چینی امن منصوبے کی بہت سی شقوں کو یوکرین میں تنازعے کے حل کی بنیاد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ لیکن روس کو ابھی تک دوسری طرف سے اس پر ’آمادگی‘نظر نہیں آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ چین یوکرین کے تنازعے پر ’غیر جانبدارانہ موقف‘ رکھتا ہے، جو کہ بیجنگ کو ممکنہ امن ساز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ملاقات کے دوران دونوں صدور نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت، توانائی اور سیاسی تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔صدر پوتن نے کہا کہ ’چین روس کا سب سے بڑا غیر ملکی تجارتی پارٹنر ہے۔‘ اور اس کے ساتھ انھوں نے گزشتہ سال حاصل کردہ تجارت کی ’اعلیٰ سطح‘ کو برقرار رکھنے اور اس سے آگے بڑھنے کا عہد بھی کیا۔ جبکہ اس سے قبل صدر شی نے چین اور روس کو ’عظیم ہمسایہ طاقتیں اور جامع اسٹریٹجک شراکت دار‘ قرار دیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مندرجہ ذیل چیزوں پر اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے کہ انھوں نے دو مشترکہ دستاویزات پر دستخط کیے۔ ایک اقتصادی تعاون کے منصوبوں کی تفصیل کے متعلق تھا جبکہ دوسرا روس- چین شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کے منصوبوں پر مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ منگولیا کے راستے چین کو روسی گیس پہنچانے کے لیے سائبیریا میں ایک منصوبہ بند پائپ لائن پر معاہدہ طے پایا ہے. اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ جوہری جنگ ’کبھی نہیں چھیڑنی چاہیے۔‘ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی جانب سے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدے نئے آکس معاہدے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔’فوجی اور سکیورٹی کے مسائل‘پر ایشیا میں ناٹو کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔مغربی ممالک میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ چین روس کو فوجی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر پوتن نے پریس کانفرنس میں مغرب پر یہ الزام لگایا ہے کہ انھوں نے ’جوہری اجزا‘ کے ساتھ ہتھیار تعینات کیے ہیں اور کہا ہے کہ اگر برطانیہ یورینیم سے تیار کردہ گولے یوکرین کو بھیجتا ہے تو روس ’ردعمل دینے پر مجبور‘ ہوگا۔
جبکہ ادھر جاپانی وزیراعظم کے یوکرین دورہ کے حوالے سے نیوز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا کا اچانک دورہ کیئو یہ عکاسی کرتا ہے کہ یہ دورہ دوسری جنگ عظیم کے بعد تنازعات میں گھرے کسی ملک کا دورہ کرنے والے جاپان کے پہلے رہنما کا دورہ ہے۔ اسی بیچ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ وہ مسٹر کشیدا کی دعوت پر مئی میں جاپان میں ہونے والے جی 7 کے سربراہی اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہوں گے۔ انھوں نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انھوں نے چین سے بھی بات چیت میں شامل ہونے کو کہا تھا لیکن وہ ابھی بھی جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے چین کو امن فارمولے پر عمل درآمد میں شراکت دار بننے کی پیشکش کی۔ ’ہم آپ کو مکالمے کی دعوت دیتے ہیں، ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔‘
چنانچہ اس مضمون کو اس شعر کے ساتھ ہی اختتام پذیر کروں گا کہ :
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS