یمن پر مسلط طویل جنگ اور انسانی بحران

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
سعودی عرب 27 مارچ 2022 کو منعقد ہونے والے فارمولا ون مقابلے کی تیاری میں مصروف تھا کہ اس سے دو دن قبل 25 مارچ بروز جمعہ یمن کی باغی جماعت حوثی نے راکٹ اور ڈرون سے سعودی عرب کے مختلف شہروں کو نشانہ بنا لیا۔ خود حوثی کے ملٹری ترجمان جنرل یحییٰ ساریہ کے بقول انہوں نے آرامکو کے اہم مقامات کو میزائلوں سے جب کہ راس تنورہ اور رابغ ریفائنریز کو ڈرون سے نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ جنرل یحییٰ نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب کی راجدھانی ریاض کے اہم دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ سعودی عرب کے جنوبی حصے نجران اور جازان پر میزائل اور ڈرون کے حملے تو اکثر و بیشتر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس بار بھی نجران و جازان کو نہیں بخشا گیا جبکہ سعودی عرب نے دعویٰ کیا کہ اس کے فضائی دفاع کے نظام نے نجران کی طرف جارہے حوثی کے دو میزائل سے لیس ڈرون کو فضا میں ہی تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ باغی جماعت حوثی کے دعوؤں کے علاوہ خود سعودی میڈیا نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب پر جمعہ کو تقریباً 16 حملے باغیوں کی جانب سے ہوئے ہیں جن میں آرامکو کے تیل کو محفوظ رکھنے والے خزانے بنیادی طور پر نشانے پر رہے۔ چونکہ اس وقت پوری دنیا یوکرین پر روسی جارحیت کے نتیجے میں اتھل پتھل کا شکار ہے اور انرجی سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہے، اس لیے سعودی عرب نے بھی حوثی کے اس حملے کو بڑی سنجیدگی سے لیا اور دوسرے ہی دن صنعاء اور حدیدہ میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر سعودی کی قیادت والی اتحادی فوج نے سخت فضائی حملوں کا آغاز کر دیا۔ اس حملے کے لیے سعودی عرب نے جو دلیل دی وہ یہ تھی کہ ان کا مقصد تیل سپلائی کے سلسلے کو متاثر ہونے سے بچانا ہے تاکہ عالمی بازار انرجی کے بحران سے محفوظ رہ سکے۔ تیل اور گیس چونکہ اس وقت سب سے اہم مادے ہیں، اس لیے حملے کے لیے جواز کے طور پر اس کو پیش کرنا بھی آسان ہے۔ روس پر پابندی کے نتیجے میں عالمی منڈی کو انرجی کے سیکٹر میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کا اندازہ تیل کی لگاتار بڑھتی قیمت سے لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی نظام کی باگ ڈور سنبھالنے والا ملک امریکہ اس مسئلے سے اس قدر پریشان ہے کہ وینزویلا اور ایران جیسے ممالک جن پر امریکہ نے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ان کے ساتھ اچانک نرم رویہ اختیار کر لیا ہے۔ ایک طرف جہاں وینزویلا سے پابندیاں ہٹاکر اس کے تیل کے ذخائر کو روسی تیل کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہیں دوسری طرف ایران کے ساتھ جاری نیوکلیائی معاہدے سے متعلق بات چیت کو جلد مکمل کرکے اسے بھی امریکی اور مغربی پابندیوں سے آزاد کرکے اس کے تیل اور گیس کے ذخائر سے استفادے کی راہ ہموار کرنے کی سعی جاری ہے۔ ایسے ماحول میں ظاہر ہے کہ باغی حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کی فوجی کارروائی کے لیے تیل کے ذخائر اور اس کی سپلائی لائن کی حفاظت سب سے موثر دلیل ہے۔ ویسے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ جب حوثی کے حملوں کا شکار سعودی کے اہم مقامات ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی حوثیوں نے جدہ میں آرامکو کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا اور تقریباً ایک ہفتے کے لیے تیل سپلائی کرنے والے نظام کو معطل کر دیا تھا جس کو درست کرنے میں سعودی عرب کو پندرہ لاکھ ڈالر کا خرچ برداشت کرنا پڑا تھا۔ حوثیوں کا حملہ صرف سعودی عرب تک محدود نہیں رہا ہے۔ اتحادی فوج کا حصہ بننے والے ملک متحدہ عرب امارات پر بھی حوثیوں نے چند مہینے قبل حملہ کر دیا تھا اور اس کی اقتصادی اہمیت کے حامل مقامات اور علاقوں کو نشانہ بنایا تھا۔ حوثیوں کے ان حملوں کی نوعیت کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ان علاقوں کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہیں جو سیاحت کے مراکز شمار کیے جاتے ہیں خواہ وہ عرب امارات میں ابوظہبی اور دبئی ہوں یا سعودی عرب میں جدہ اور ریاض کے علاقے ہوں۔ غالباً اس بار بھی جدہ کو نشانہ بنانے کے پیچھے حوثی جماعت کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہو کہ ایسے وقت میں جب کہ ہم محاصرے کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، سعودی عرب جشن کے ماحول میں نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس پورے معاملے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ باغی حوثی جماعت جسے ایران کی حمایت حاصل ہے ان دنوں چو طرفہ دباؤ جھیل رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر حوثی کو یہ نقصان پہنچا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے حال ہی میں اسے دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر جو لگاتار سیاسی کوششیں یمن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہو رہی تھیں ان کو مسلسل ٹھکرانے کی وجہ سے حوثی اپنی مصداقیت کھو چکے ہیں جبکہ مقامی سطح پر بڑھتے انسانی بحران کی بنا پر ان پر سخت دباؤ ہے کہ وہ نیشنل ڈائیلاگ پروگرام میں شمولیت اختیار کریں جس میں یمن کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں شامل ہیں اور یمن کے مسئلے کا حل مشترکہ کوششوں سے ڈھونڈنے کی سعی کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ حوثی قیادت 2013 سے ہی اس گروپ میں شامل ہونے سے انکار کر رہی ہے جس کے بڑے سنگین نتائج بر آمد ہوئے ہیں۔ یمن کے اندر جنگی محاذ پر بھی حوثیوں نے شبوہ اور مأرب کے جنوبی علاقوں کو کھویا ہے اس کی وجہ سے بھی مسائل سے دوچار ہے۔ اور اب جبکہ سعودی پر ڈرون حملے کے جواب میں اتحادی فوج نے حوثی کے ٹھکانوں پر حملہ شروع کر دیا ہے تو حوثی کے پاس اپنے موقف کے دفاع میں کہنے کے لیے زیادہ کچھ بچا نہیں ہے۔ شاید اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے حوثی گورننگ کونسل کے صدر مہدی مشاط نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے تاکہ سیاسی اور عسکری خساروں سے بچا جا سکے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ پیشکش بھی کر دی ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ اور حدیدہ بندرگاہ کو کھول دیا جائے گا تاکہ باقی دنیا سے رابطہ ممکن ہو سکے۔ حوثی کی اس پیشکش پر بین الاقوامی کمیونٹی بھروسہ کر پائے گی یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ کیوں کہ ماضی میں حوثی کا ریکارڈ اس اعتبار سے خراب رہا ہے کہ وہ اپنا موقف مسلسل بدلتے رہے ہیں۔
یمن پر سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی فوج نے مارچ 2015 میں جنگ کا اعلان کر دیا تھا۔ عرب بہاریہ کی عوامی تحریک میں جو عرب حکومتیں ختم ہوئی تھیں ان میں ایک یمن کے حکمراں علی عبد اللہ صالح بھی تھے۔ سعودی عرب کی ثالثی میں علی عبداللہ صالح نے حکومت سے دستبرداری قبول کر لی تھی اور عبد ربہ منصور ہادی کی قیادت میں ایک عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی تھی جس کو بین الاقوامی سطح پر منظوری مل گئی تھی۔ ابھی اس عبوری حکومت کو زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ایران کی حمایت میں یمن کے زیدی شیعہ طبقے سے تعلق رکھنے والی حوثی جماعت نے مسلح بغاوت کا اعلان کر دیا اور علی عبداللہ صالح نے بھی حوثی کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ علی عبداللہ صالح کا یہ عمل ریاض معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔ بہرکیف ان کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ ستمبر 2014 میں یمن کی راجدھانی صنعاء پر حوثیوں نے قبضہ کر لیا اور عبد ربہ منصور ہادی کو بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی۔ اس کے بعد سے ہی سعودی عرب حوثیوں کا دشمن قرار پایا۔ یمن کی یہ جنگ دراصل ایران اور سعودی عرب کے درمیان خطے میں اثر و رسوخ کے لیے محاذ آرائی کا مظہر ہے۔ البتہ 2015 سے اب تک یمن کے عوام اس جنگ کی سب سے بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تین لاکھ 77 ہزار یمنی اب تک بیماری اور بھوک کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں جن میں ستر فیصد بچے ہیں۔ یمن کی تین کروڑ کی آبادی میں سے دو کروڑ انسانوں کو ہر قسم کے تعاون پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کے پاس اشیاء خوردنی تک کافی مقدار میں مہیا نہیں ہیں جب کہ چالیس لاکھ لوگ گھر بدر ہوچکے ہیں۔ یمن میں اقوام متحدہ کے نمائندے مارٹن گریفٹ کے مطابق وہاں انسانی بحران مزید بدتر ہونے کا اندیشہ ہے، کیوں کہ یوکرین سے چالیس فیصد گیہوں یمن کے لیے برآمد کیا جاتا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے وہاں سے گیہوں کے آنے کا امکان تقریباً معدوم ہے۔ 16 مارچ کو جنیوا میں یمن سے متعلق جو کانفرنس منعقد ہونے والی تھی اس سے قبل جو اعداد و شمار اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے گئے تھے وہ چونکانے والے ہیں۔ اس کے مطابق چار میں سے تین یمنی 2022 میں غذائی تعاون پر منحصر ہوں گے۔ صرف اس برس یمن کی غذائی ضرورتوں کے لیے لگ بھگ ساڑھے چار ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو دو کروڑ لوگ بھکمری کا شکار ہو جائیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے مسائل پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ جتنا دباؤ روس پر مغربی ممالک نے ڈالا اگر اس کا آدھا بھی ایران اور حوثی پر ڈالا جاتا تو یہ جنگ ختم ہو جاتی اور انسانی بحران کا یہ بدترین منظر نہیں دیکھنا پڑتا۔ حوثی اور سعودی عرب دونوں ہی یمن کے عوام کی زندگی کو جہنم زار بنانے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ عالمی برادری کو سنجیدگی سے اس مسئلے کی طرف توجہ کرنی چاہیے تاکہ جنگ کا یہ تباہ کن سلسلہ ختم ہو اور یمن کے عوام کو سکون کی سانس لینا میسر ہو سکے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS