لاک ڈائون مسئلہ کا حل نہیں

0

زشتہ10 دنوں سے ہندوستان میں روزانہ3لاکھ سے زیادہ کورونا انفیکشن کے سنگین معاملات سامنے آرہے ہیں اور اسی تناسب میں اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ا نفیکشن کی مثبت شرح 15% سے زیادہ ہوگئی ہے۔ہندوستان میں کورونا متاثرین اور مہلوکین کی یہ تعداد دنیا کے50مختلف ممالک میں مجموعی طور پر کورونا کے معاملات سے کہیں زیادہ ہیں۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر کچھ طبقوں کی جانب سے ملک گیر مکمل لاک ڈائون لگائے جانے کے مطالبات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔دوسری لہرکی غضب ناکی و سفاکی پر بند باندھنے اور انفیکشن کاسلسلہ توڑنے کیلئے کووڈ ٹاسک فورس کے چند ممبران نے یہ سفارش کی ہے کہ دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈائون لگایا جائے۔امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ میں طبی مشاورت کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی ایس فوسی کا بھی کہنا ہے کہ ہندوستان میں کورونا کی قہرناکی پر قابو پانے کیلئے ملک کو چند ہفتوں کیلئے مکمل طور پر بند کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ڈاکٹر انتھونی امریکہ کے سات صدور کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور دنیا بھر کے طبی معاملات پربالخصوص کووڈ19-کے معاملات پر ان کی گہری نظر ہے۔ڈاکٹر انتھونی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی صورتحال ابھی انتہائی خطرناک ہے۔ان حالات سے نکلنے کیلئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے ’ چند ہفتوں‘ کے لیے ملک کو مکمل بند کرکے انفیکشن کا یہ دائرہ توڑا جاسکتا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لاک ڈائون سے قبل آکسیجن، ادویا ت اور پی پی ای کٹس وغیرہ کی سپلائی بھی یقینی بنانالازمی ہے۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کہی تھی۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستوں کی حکومتیں انفیکشن روکنے کیلئے لاک ڈائون لگانے پر غور کریں۔ایسا نہیں ہے کہ عدالت عظمیٰ لاک ڈائون کے اثرات اور مابعد اثرات سے ناواقف ہو،اس کے باوجود عدالت کی جانب سے حکومتوں کو اس پر غور کرنے کی دعوت دیاجانا سنگین تر حالات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
مکمل لاک ڈائون کی بابت مرکزی حکومت نے اب تک کوئی وضاحت نہیں کی ہے بلکہ اس نے ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ لاک ڈائون کے بجائے اپنے اپنے یہاں ایسی پابندیاں لگائیں جن سے انفیکشن کے اس دائرہ کو توڑا جاسکے۔مرکز کی اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کم و بیش 10ریاستوں اور مرکزی علاقوں نے اپنے اپنے یہاں لاک ڈائون جیسی ہی پابندیاں لگارکھی ہیں۔بعض ریاستوں نے تو اپنے اپنے یہاں مکمل لاک ڈائون بھی لگادیا ہے۔ سب سے پہلے مہاراشٹرنے اپنے یہاں یہ اقدام کیاتھا، اس کے بعد اڈیشہ اور آج منگل سے بہار میں15دنوں کیلئے مکمل لاک ڈائون لگادیا گیا ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر 150اضلاع میں بھی منی لاک ڈائون جاری ہے۔ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہندوستان میں مکمل لاک ڈائون کے بغیر اس موذی وبا کو قابو میں نہیں کیاجاسکتا ہے؟ بلا شبہ دنیا کے کئی ممالک نے لاک ڈائون کی تدبیر اپنا کر یہ جنگ جیت لی ہے لیکن ہندوستان میں کورونا وائرس کی یہ جنگ جیتنے کیلئے کیا صرف لاک ڈائون ہی ایک تدبیر رہ گئی ہے ؟
گزشتہ سال بھی یہ تدبیر اپنائی گئی تھی کورونا وائرس سے بچائو کیلئے پورے ملک کو قربان گاہ پر چڑھادیاگیا تھا۔ ملک کا کمزور اور پسماند ہ طبقہ کورونا کے بجائے بھوک سے تڑپ تڑپ کر موت کو گلے لگانے پر مجبور ہوگیا۔ہندوستان کا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ اپنی نوعیت میں انتہائی منفرد ہے۔ ملک کی اکثریت جو روز کمانے اور کھانے پر مجبور ہے، پچھلے سال کے لاک ڈائون میں اس کی جو حالت ہوئی اس کے سامنے کورونا کی سفاکی بھی ماند ہے۔ ملک کی معیشت پچھلے سال کے لاک ڈائون کی نذر ہوگئی، بحران ایسا آیا کہ ملک اب تک اس سے نکل نہیں پایا ہے۔ ان تجربات کے ہوتے ہوئے اگر ایک بار پھر ملک میں مکمل لاک ڈائون لگادیاگیا تو ملک کی مجموعی معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کے کمزور اور پسماندہ طبقہ کی جو حالت ہوگی اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہے۔
کورونا کی دوسری لہر کے دوران غفلت، لاپروائی اور بدانتظامی کی بدترین مثال بن کر سامنے آنے والے صحت نظام کو دیکھ کر یہ سوچابھی نہیں جاسکتا ہے کہ لاک ڈائون کے بعد برباد ہونے والی معیشت کو یہ حکومت بچاپائے گی۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس پرا س لاک ڈائون کا اثر نہ پڑے۔ سب سے برا حال غیر منظم زمرہ کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کا ہوگا یہی وہ طبقہ ہے جو ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار جی ڈی پی میں سب سے زیادہ اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ جو حکومت اپنے شہریوں کو دوا، آکسیجن اور ضروری طبی مدد نہیں فراہم کرسکتی ہو، وہ لاک ڈائون سے پیدا ہونے والی صورتحال سے کیسے نمٹے گی؟ یہ ایک بڑاسوال ہے۔لاک ڈائون ہندوستان کیلئے اب مسئلہ کا حل نہیں بلکہ ایک دوسرا بڑا سنگین مسئلہ بن جائے گا۔اس لیے بہتر تو یہی ہوگا کہ ویکسین، آکسیجن اور دوائوں کی فراہمی بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل جاری رکھی جائے اور ملک کے ہر شہری کو ویکسی نیٹ کیا جانا لازمی بنایا جائے اور لوگوں میں کورونا سے پیدا ہونے والی دہشت دور کی جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS