بین الاقوامی دنیا میں شاید ہی ایسا کوئی ملک ہوگا جس کی تاریخ کے صفحات اتنی تیزی سے پلٹے ہوں گے جتنی تیزی سے افغانستان کی تاریخ بدلتی رہی ہے۔ کبھی ریشم مارگ اور انسانی ہجرت کا قدیم مرکز رہا یہ ملک آج پھر اسی دہانے پر آکھڑا ہوا ہے جہاں وہ ڈھائی دہائی قبل تھا۔ تختہ پلٹ کا عمل پورا ہونے کے ساتھ ہی افغانستان اب نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ یہ دور نہ تو افغان عوام کے لیے نیا ہے اور نہ ہی باقی دنیا کے لیے۔ طالبانی حکومت کی دو دہائی پرانی یادیں لوگوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ ان پرانے تجربات کی تاثیر ایسی ہے کہ ایک طرف افغانیوں کے اپنے ہی ملک کو چھوڑنے کا سلسلہ زور پکڑے ہوئے ہے تو دوسری طرف باقی دنیا طالبان کا توڑ ڈھونڈنے میں اپنا سر کھپا رہی ہے۔
بالخصوص پڑوسی ممالک میں تو اس تبدیلی نے خطرے کا الارم بجا دیا ہے۔ اس معاملہ میں ہندوستان کا رُخ ابھی تک اعتدال پسند رہا ہے۔ طالبان کی دعوت پر دونوں ممالک کے مابین دوحہ جیسی نیوٹرل لوکیشن پر رسمی بات چیت کا آغاز بھی ہوا ہے۔ اس بات چیت کے لیے طالبان سے افغانستان کی زمین کا ہندوستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی شرط منواکر حکومت نے ملک کو ایک بڑی تشویش سے تو راحت دلوائی ہے، لیکن کچھ اہم مسائل ابھی بھی بیچ میں لٹکے نظر آرہے ہیں۔ یہ مسائل اسٹرٹیجک بھی ہیں اور کاروباری بھی۔ سب سے بڑا سوال کشمیر کا ہے، جس پر طالبان گزشتہ پندرہ دن میں دو اسٹینڈ کا اظہار کرچکا ہے۔ کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ بتانے کے بعد اب طالبان جس طرح مسلمانوں کے حقوق کی آواز بننے کی بات کررہا ہے، اس سے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں پاکستان کے بعد ہمارے پڑوس میں دہشت گردی کی ایک اور پناہ گاہ نہ بن جائے۔
کاروبار اور نئی سرمایہ کاری کے لحاظ سے بھی فی الحال حالات تلوار کی دھار پر چلنے جیسے لگ رہے ہیں۔ ہندوستان اس وقت افغانستان کے سبھی 34صوبوں میں ترقی کے کسی نہ کسی پروجیکٹ پر کام کررہا ہے۔ گزشتہ دو مالی سال سے دونوں ممالک کے مابین کاروبار بھی 1.5ارب ڈالر کے قریب قائم ہوا ہے۔ اس کا بڑا ذریعہ ہوائی راستہ رہا ہے جو فی الحال بند ہے۔ زمین کے ذریعہ کاروبار کے لیے یا تو کراچی کے راستہ یا پھر ایران کی بندرگاہ عباس کے ذریعہ افغانستان تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ایک تیسرا متبادل ایران کی چاہ بہار بندرگاہ بھی ہے جسے طالبان کے آنے سے قبل ہندوستان کی اسٹرٹیجک کامیابی سمجھا جارہا تھا۔ ویسے بھی اس بندرگاہ کو ایران سے زیادہ افغانستان کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب اس راستہ سے کاروبار بہت کچھ طالبان کے رُخ پر منحصر ہوگا۔ حالاں کہ ابھی طالبان بھی اپنی پسند-ناپسند تھوپنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ بدحال معیشت اور بین الاقوامی مدد پر پابندی کے بعد اس کے ریونیو کے ذرائع بھی محدود ہوگئے ہیں۔
بات چیت کے نظریہ سے متبادل کا مسئلہ ہندوستان کے سامنے بھی ہے۔ امریکہ اب جاچکا ہے اور چین- پاکستان- روس- ایران سب اپنے اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ افغانستان میں اب نئی طالبانی حکومت بننے کے بعد اس کو تسلیم کرنے کا سوال بھی پیچھے چھوٹ چکا ہے۔ گزشتہ مرتبہ جب طالبان اقتدار میں آئے تھے تو اسے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ساتھ ملا تھا۔ اس مرتبہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ لیکن ان کی جگہ چین، روس اور ایران جیسے بڑے کھلاڑیوں نے لے لی ہے۔ ابھی اس فہرست میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایسے میں ہندوستان کو ویٹ اینڈ واچ پالیسی سے آگے نکل کر نئی اسٹرٹیجک راہ تیار کرنی ہی ہوگی۔ طالبان سے رسمی تعلقات کو زیادہ وقت تک ٹالا بھی نہیں جاسکتا کیوں کہ اس سے اسٹرٹیجک اور کاروباری دونوں محاذ پر ہندوستان کا ہی نقصان ہے۔ گزشتہ دو دہائی میں ہندوستان نے افغانستان میں پختہ زمین تیار کی ہے۔ اب ہندوستان جتنا افغانستان سے دور ہوگا، اس زمین پر چین اور پاکستان اپنا دبدبہ بڑھائیں گے۔ اس سے ایک طرف لشکر اور جیش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو کھلا کھیل کھیلنے کا موقع ملے گا، وہیں کاروبار کے معاملہ میں ہندوستان طالبان کے لیے غیراہم ہوتا جائے گا۔ بیشک اس سے ہندوستان کے معاشی مفادات کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا، لیکن ہندوستان کو مغرب اور وسطی ایشیا میں حاصل کی گئی برتری سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔
اس درمیان طالبان سے متعلق امریکہ میں دنیا کی دلچسپی ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے- بالخصوص دہشت گرد تنظیموں کے بے لگام ہونے کے خطرے کے سلسلہ میں۔ ایک طرف یہ سوچ ہے کہ جب امریکہ افغانستان میں رہتے ہوئے طالبان کو اپنی شرائط پر راضی نہیں کروا پایا تو وہاں سے باہر نکلنے کے بعد طالبان پر اس کا کتنا زور چلے گا؟ دوسری طرف امریکی انتظامیہ ہے جو مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ طالبان کو قابو میں رکھنے کے لیے اس کے پاس ابھی بھی کئی ’چراغ‘ باقی ہیں۔ جس طرح امریکہ نے کابل سے اپنا سفارتخانہ ہٹاکر دوحہ منتقل کردیا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی اسے کوئی جلدی نہیں ہے۔ ابھی وہ فی الحال گلوبل مارکیٹ میں اپنی پہنچ کا استعمال کرکے طالبان پر معاشی اسٹرائک کرسکتا ہے یا پھر افغانستان میں دہشت گردوں کے سر اٹھانے پر ایئراسٹرائک کا متبادل بھی آزما سکتا ہے۔
امریکہ بھی جانتا ہے کہ سال 2021میں اس کے سامنے کھڑے خطرات سال 2001سے بالکل علیحدہ ہیں۔ ایک طرف چین، روس، پاکستان اور ایران کی چوکڑی ہے تو دوسری طرف افغانستان کی حکومت میں طالبان کے ساتھ اہم کردار نبھانے والی القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی تنظیمیں بھی ہیں۔ القاعدہ اور آئی ایس کی بین الاقوامی موجودگی سے الگ طالبان صرف افغانستان میں مرکوز ہیں، لیکن امریکہ تینوں کا مشترکہ دشمن ہے۔ یہ تینوں مل کر مشرق وسطی اور وسطی ایشیا میں دہشت گردی کا ایک نیا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بھی صحیح ہے کہ آئی ایس اور طالبان کے رشتے ہموار نہیں رہ گئے ہیں۔ آئی ایس کی نظر میں طالبان امریکہ کا ’پٹھو‘ بن چکا ہے۔ آئی ایس پر لگام کسنے کے لیے امریکہ ’بھروسہ کی اس کمی‘ کو ہتھیار کی طرح استعمال کرسکتا ہے۔
دوسری طرف چین، روس، پاکستان اور ایران جیسے ممالک ہیں، جن کی امریکہ سے الگ الگ وجوہات سے کھینچ تان ہے۔ طالبان کے سامنے امریکہ کا پست پڑجانا، فوری طور پر ان کے خوش ہونے کی وجہ ضرور ہوسکتا ہے، لیکن آگے چل کر یہی طالبان ان ممالک کے لیے بھی پریشانی کھڑی کرسکتے ہیں۔ شی نی جیانگ صوبہ میں چین کی افغانستان سے ملحق8کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ یہ علاقہ اویغور مسلمانوں کا گھر ہے اور یہاں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ نام کی علیحدگی پسند تنظیم سرگرم ہے جو طالبان کا ساتھ ملنے پر چین کے لیے پریشانی کھڑی کرسکتی ہے۔ روس کی افغانستان کے ساتھ سرحد نہیں ہے، لیکن اس کے اثر والے تاجکستان اور ازبیکستان جیسے ممالک افغانستان سے ملے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں اسلامک شدت پسندی میں اضافہ ہوا تو وسطی ایشیا جنگ کا مرکز بنے گا اور اس کے اثر سے روس بھی نہیں محفوظ رہ سکے گا۔ ایران میں بھی افغانی پناہ گزیں پہلے سے ہی ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کا مطلب افغانستان میں سنی مسلمانوں کا دبدبہ قائم ہونا ہے جو شیعہ پرست ایران کے لیے دقتیں بڑھائے گا۔ گزشتہ مرتبہ طالبانی حکومت میں افغانستان ڈرگس کا اڈّہ بن گیا تھا اور مغربی ممالک میں زیادہ تر سپلائی ایران کے راستے سے ہی ہوتی تھی۔ ایران پر 20سال پرانی اس ’روایت‘ کی تلوار آج بھی لٹکی ہوئی ہے۔ باقی رہا پاکستان جس کی افغانستان سے 2,611کلومیٹر لمبی سرحد کی ہی طرح مسائل کی فہرست بھی کافی لمبی ہوسکتی ہے۔ ایک طرف پناہ گزینوں کا بحران ہے تو دوسری طرف پاکستان کے فوجی آپریشنز کے سبب افغانستان چلے گئے تحریک طالبان کی واپسی کا بھی خطرہ ہے۔یعنی طالبان بھلے ہی ایک ملک کی حکومت پر قابض ہورہے ہوں، اس کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔ لوکل ہوکر بھی افغان مسئلہ اب گلوبل بنتا جارہا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
لوکل سے گلوبل ہوتا افغان بحران
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS