لیبیا میں دوقبیلوں کی حکومت یا مغربی ممالک کا کھیل

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

2010 دسمبر میں ’عرب بہاریہ‘ کے نام سے جس طوفان کا آغاز تیونس سے ہوا تھا اور چشم زدن میں شمالی افریقہ سے ہوتے ہوئے مصر و شام اور اردن تک پہنچ گیا تھا اور جس کا بنیادی مقصد جمہوریت کی بحالی، انتخابات میں شفافیت، اقتصادی آزادی کا حصول، انسانی حقوق کی حفاظت اور ظلم و جبر پر قائم حکومتوں کو بدل کر عوام کے ذریعہ منتخب حکومتوں کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا بتایا گیا تھا، وہ دراصل مغربی ممالک خاص طور سے ناٹو ممبران کی سازش کا وہ جال تھا جس میں عوام و خواص سبھی پھنس گئے اور آج تک اس سے نکل نہیں پائے ہیں۔ تیونس و مصر میں قائدین کے چہرے تو ضرور بدلے لیکن عوام کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا ہونے کے بجائے مزید مسائل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ملک شام تو شامی عوام کے لئے جس جہنم ارضی کا نشان بن گیا اس کی مثال عہد جدید کی تاریخ میں بہت کم ہی ملتی ہے۔ لیکن اس عوامی بغاوت کی سب سے بڑی قیمت معمر قذافی (1942-2011) کو چکانی پڑی تھی۔ چار دہائیوں پر محیط معمر قذافی کی حکمرانی کا خاتمہ بڑا دردناک تھا۔ انہیں اس وقت لوگوں نے پکڑ کر مار ڈالا تھا جب وہ جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ معمر قذافی کی موت شمالی افریقہ میں ایک عہد کا خاتمہ تھا۔ مغربی ممالک جہاں ان سے سخت نفرت کرتے تھے وہیں افریقی ممالک کے عوام ان کے تئیں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ان کی موت پر امریکی صدر براک اوبامہ نے کہا تھا کہ ’لیبیا کے اوپر سے ظلم کا بادل چھٹ گیا ہے‘ جبکہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بیان دیا تھا کہ اسے اس بات پر فخر ہے کہ اس کے ملک نے اس ’ظالم ڈکٹیٹر‘ کو ہٹانے میں اپنا کردار نبھایا۔ البتہ کیوبا کے انقلابی لیڈر فیڈیل کاسترو نے انہیں عظیم شخصیت کہہ کر یاد کیا تھا اور جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے قذافی کی موت پر اپنے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا تھا اور اپارتھائیڈ کے خلاف تحریک میں ان کی مدد کو یاد کرتے ہوئے ان کی بڑی تعریف کی تھی۔ گویا معمر قذافی کے بارے میں آپ جو بھی رائے رکھیں گے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ آپ کس قسم کی تحریریں پڑھتے رہے ہیں۔ خیر یہاں آج معمر قذافی کے دور حکومت کا جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ گیارہ برس گزر جانے کے بعد کیا لیبیا کے عوام کے وہ مقاصد پورے ہوئے جن کے حصول کی خاطر انہوں نے قذافی کے خلاف بغاوت کی تھی اور انہیں جان سے مار ڈالا تھا؟ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدل و انصاف اور جمہوریت و آزادی کا خواب صرف ایک سراب محض ہی ثابت ہوا ہے۔ قذافی کے بعد لیبیا جن مراحل سے گزرا ہے ان پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ آج تک ایک مستحکم حکومت اس ملک کو نصیب نہیں ہوسکی۔ اس کے برعکس خانہ جنگی نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا اور 2014 کے بعد لیبیا کے مشرقی اور مغربی حصے دو الگ الگ پاور کے مراکز بن کر ابھرے اور ان کے درمیان اتفاق کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہو پارہی ہے کیونکہ مغربی ممالک اور روس دونوں کا اثر و رسوخ لیبیا میں کافی گہرا ہے اور ہر گروہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دو چکیوں کے بیچ لیبیا کے عوام کو پیس رہا ہے۔
معمر قذافی کی موت کے بعد 24 نومبر 2011 کو ڈاکٹر عبدالرحیم الکیب کی قیادت میں پہلی عبوری حکومت تشکیل دی گئی تھی جو ایک سال تک جاری رہی۔ کیب اس اعتبار سے کامیاب رہے کہ ان کے دور میں مسلح جماعتوں کو کنٹرول میں رکھا گیا۔ 14 نومبر 2012 کو کیب نے استعفیٰ دے دیا اور حکومت کی باگ ڈور پرامن طریقہ سے علی زیدان کے حوالہ کر دی۔ ان کا عہد جنگ و جدال اور مسلح جماعتوں کے درمیان گھمسان کے لئے معروف ہے۔ خود علی زیدان کو 2013 میں ایک مسلح باغی جماعت نے اغوا کر لیا۔ زیدان کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہوگیا جب 11 مارچ 2014 کو ’جنرل نیشنل کانگریس‘ نے ان کی سرکار کے خلاف ووٹ ڈال کر ان سے اپنا اعتماد واپس لے لیا تھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے عبداللہ الثنی، عمر المحاسی اور خلیفہ الغویل کے ہاتھوں حکومت کی ڈور منتقل ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ 2015 تک چلتا رہا۔ یہی وہ وقت ہے جبکہ لیبیا میں سیاسی بحران اپنے عروج تک پہنچ گیا۔ مشرق کے طبرق اور مغرب کے طرابلس میں دو الگ الگ حکومتیں قائم ہوگئیں۔ مشرقی حصہ میں جو حکومت قائم تھی اس کو اقوام متحدہ نے قبول نہیں کیا تھا جبکہ طرابلس میں ’قومی وفاق‘ کی جو حکومت فروری 2016 میں تشکیل پائی تھی اس کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس حکومت کی تشکیل میں اس معاہدہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس پر 17 دسمبر 2015 کو مراکش میں دستخط ہوا تھا اور ’صخیرات معاہدہ‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اقوام متحدہ نے اس معاہدہ کو کامیاب بنانے میں بڑی محنت کی تھی۔ اس کے علاوہ جنیوا اور برلن میں بھی اقوام متحدہ کی نگرانی میں میٹنگیں ہوئیں تاکہ لیبیا کے سیاسی بحران کو ختم کیا جاسکے اور عبوری دور سے گزر کر یہ ملک ایک مستحکم نظام حکومت کے دور میں داخل ہو پائے۔ البتہ طبرق اور طرابلس میں دو الگ الگ حکومتوں کے قیام نے بحران اور انتشار کے دور کو ختم نہیں ہونے دیا اور معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ مشرقی فوج کا کمانڈر خلیفہ حفتر اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف اپریل 2019 میں طرابلس پر چڑھ آیا اور قریب تھا کہ فائز سراج کی حکومت کو ختم کردے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حفتر کو روس کی مدد حاصل تھی اور اس کے کرایہ کے جنگجو جنہیں واگنار ملیشیا کہا جاتا ہے حفتر کی فوج میں ایک ہزار کی تعداد میں موجود تھے۔ یہ وہی کرایہ کے روسی جنگجو ہیں جن کا استعمال پوتن نے ملک شام میں بھی تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لئے کیا تھا اور لیبیا اور شام دونوں ملکوں میں نہتھے عوام کو بے دردی سے قتل کرنے کے لئے بدنام ہے۔ یہ تو بھلا ہو ترکی فوج کا جس کو صدر اردگان نے بروقت فائز سراج کی اپیل پر مدد کے لئے بھیج دیا اور بالآخر اکتوبر 2020 میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا، لیکن سیاسی بحران کا مسئلہ پھر بھی برقرار رہا۔ اس پیچیدگی کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے اپنی نمائندہ اسٹیفنی ویلئیمز کی نگرانی میں ایک روڈ میپ تیار کروایا جس کے نتیجہ میں نیشنل یونیٹی گورنمنٹ کا وجود عمل میں آیا۔ عبدالحمید الدبیبہ کو فروری 2021 میں حکومت کی باگ ڈور دی گئی اور روڈ میپ کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ طبرق میں عقیلہ صالح کی صدارت میں چلنے والی پارلیمنٹ اور طرابلس میں واقع خالد المشری کی قیادت والی سپریم کاؤنسل آف اسٹیٹ مل کر ایک مشترک کمیٹی تشکیل دیں گی جس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ انتخابات سے متعلق قوانین وضع کرے اور 24 دسمبر 2021 کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ کروائے۔ البتہ اس روڈمیپ کی خلاف ورزی عقیلہ صالح کی قیادت والی پارلیمنٹ نے کردی اور سپریم کاؤنسل کو شامل کئے بغیر ہی انتخابات سے متعلق قوانین وضع کر دیے اور صدارتی اور پارلیمانی انتخابات قائم کرنے کی امید پر پانی پھیر دیا۔ اگر اس روڈمیپ کو نافذ کر دیا جاتا تو بروقت انتخابات کے نتیجہ میں عبوری حکومتوں کا دور ختم ہوجاتا اور جمہوری طور پر منتخب حکومت اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتی اور اس طرح لیبیا کو استحکام نصیب ہوجاتا۔ لیکن شرائط پوری نہ ہونے کے بہانہ الیکشن کو ملتوی کر دیا گیا۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ عقیلہ صالح کی صدارت والی پارلیمنٹ نے عبدالحمید الدبیبہ کی جگہ فتحی باشاغا کو حکومت سازی کی ذمہ داری دے دی جبکہ دبیبہ اپنے عہدہ سے ہٹنا گوارہ نہیں کر رہے ہیں۔ دبیبہ کا کہنا ہے کہ اسی برس جون تک الیکشن کروانے کے بعد ہی وہ منتخب حکومت کے حوالہ کرکے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو ں گے جبکہ فتحی باشاغا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ نے جب باشاغا کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا تو پھر دبیبہ کو ہٹ جانا چاہئے۔ دونوں فریقوں کے پاس چونکہ مسلح جماعتیں ہیں جو اپنے اپنے آقاؤں کی حمایت کر رہی ہیں لہٰذا اس بات کا خطرہ منڈلا رہا ہے کہ شاید دوبارہ مسلح جھڑپوں کا سلسلہ نہ شروع ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مغربی ممالک لیبیا کے مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدگی دکھائیں تو دبیبہ اور باشاغا اپنی اپنی ضد پر قائم نہیں رہ سکتے۔ لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ باشاغا کو روس کی حمایت حاصل ہے کیونکہ دبیبہ نے یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت کر دی تھی جبکہ دوسری طرف امریکہ اس انتظار میں ہے کہ کس طرح لیبیا میں روس کا اثر و رسوخ ختم کرکے وہاں کے تیل کے ذخائر کا استعمال کرکے اس کمی کو پورا کیا جائے جو روس پر مغربی ممالک کی جانب سے عائد پابندیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوگئی ہے۔ مغرب کا یہ وہی پرانا سامراجی مزاج ہے جس نے تیسری دنیا کے ممالک کو رزم گاہ میں تبدیل کر رکھا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS