جرم اور سیاست:جمہوریت کے لئے ایک مہلک معجون

0

اے- رحمان

جرم ا نسان کی سرشت میں ہے اور اب ماہر جرمیات اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا سے جرم کا مکمل تدارک ناممکن ہے۔ اخلاقیات، مذہب اور قانون جرم کی حدود متعین کر سکتے ہیں مجرم کو سزا دے سکتے ہیں اور بس۔ کسی بھی معاشرے میں جرم صرف دو اسباب کی بنا پر پنپتا ہے۔ انسداد و تفتیش جرائم کے اداروں( پولیس وغیرہ) میں بد عنوانی اور ارباب سیاست کے ذریعے جرم کی پشت پناہی۔ مؤخر الذکر معاملہ زیادہ سنگین ہے کہ کیونکہ جرم کی سیاست یا سیاسی جرائم معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے جرم سے وابستہ ’ برائی‘ یا گناہ کے تصور کو ہی زائل کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک ہوتے ہی متمدن ممالک نے سیاست کو جرم سے پاک کرنے اور رکھنے کا عزم کیا اور اس میں کافی حد تک کامیاب ہوئے۔ آزاد ہندوستان میں ساٹھ کی دہائی سے سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے ارتکابِ جرم اور مجرموں کا استعمال شروع ہوا جو بتدریج بڑھتا گیا اور 2014 میں بی۔ جے۔پی کے اقتدار میں آنے کے بعد تو یہ محسوس ہونے لگا گویاجرم اور سیاست لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔سیاست کے نام پر جرم اور جرم کے ذریعے سیاست کا دور دورہ ہو گیا لیکن اس تبدیلی یا فرق کے ساتھ کہ جہاں پہلے سیاسی امید وار اپنی مقصد برآری کے لیے مجرموں کا استعمال کرتے تھے وہاں اب پیشہ ور اور ہمہ وقتی مجرم خود میدانِ سیاست میں کود کر اقتدار حاصل کرنے لگے اور اقتدار میں آکر ان کے جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوا جس سے انھیں مزید اقتدار کے امکانات پیدا ہوئے یعنی تسلسل بدی کا دائرہVicious Circle قائم ہو گیا۔ ماہر جرمیات نے بیسویں صدی کے اوائل میں ایک اصولی نعرہ اختراع کیا تھاCrime Doesn’t Pay ’’جرم نفع بخش نہیں ہوتا‘‘ (یعنی آخر ش مجرم شدید نقصان ہی اٹھاتا ہے) لیکن جب مجرموں کو سیاسی تحفظ ملنا شروع ہوا اور خود مجرموں نے سیاسی اقتدار حاصل کرنا شروع کر دیا تو یہ نعرہ باطل و بے معنی ہو گیا۔
جنوری2017 میں When Crime Pays (جرم کب نفع بخش ہوتا ہے) کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی جس کے مصنف تھے کارنیگی وقف برائے امن عالم کی جنوب ایشیا شاخ کے ڈائریکٹر ملن ویشنو۔ کتاب کا ذیلی عنوان تھا ہندوستانی سیاست میں دولت اور قوتِ اعضا(غنڈہ گردی) کا مجرمانہ استعمال۔ ہمارے یہاں سیاست اور جرم کے گٹھ جوڑ پر یہ پہلا وقیع مطالعہ ہے جسے دستاویزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ فاضل مصنف نے جو سیاسی اقتصادیات کے ماہر ہیں اور امریکہ کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں، اپنی اس کتاب میں بڑی عمدگی سے سادہ اور عام فہم زبان میں تجزیہ کیا ہے کہ ہندوستانی سیاست کس طرح مافیاؤں کے چنگل میں ہے اور کیوں۔ انھوں نے یہ کتاب میز کرسی پر بیٹھ کر ہی نہیں لکھی بلکہ اعداد و شمار کھنگالنے کے بعد ہندوستان آکر 7سال تک میدان میں زمینی حقائق سے رو برو ہوئے اور سینکڑوں متعلقہ اور متاثرہ افراد سے انٹرویو کیے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ کتاب’ ہندوستانی سیاست میں جرم کے عنصر‘ پر حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ملن نے کتاب کے بنیادی تھیم کے طور پر اپنے سامنے دو سوال قائم کیے تھے۔ اول یہ کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جہاں شفاف اور آزاد انتخابات کے قوانین ہیں وہاں مجرمانہ عناصر کیوںکر پورے جمہوری عمل میں سرایت کر جاتے ہیں اور دوئم یہ کہ عوام جانے پہچانے مجرموں کو کس بنا پر ووٹ دے دیتے ہیں(2014 کے انتخابات میں تقریباً سوا سو ایسے امید وار منتخب ہوئے جن کے خلاف سنگین جرائم کے الزامات تھے اور یا مقدمے زیر سماعت تھے) پہلے سوال کا مصنف نے یہ جواب پیش کیا ہے کہ انتخابات کا عمل کاروباری بازار کی نوعیت اختیار کر چکا ہے جہاںDemandاورSupply کی قوتیں برسرِ کا رہتی ہیں۔ سیاسی امید واروں کو اثر اندازی کے لیے مجرمانہ قوت درکار ہے جسے وہ پیسے سے خریدتے ہیں اور یہاں ایک تیسرا زاویہ سامنے آتا ہے :بڑے کاروباری اور صنعت کارجو سیاسی جماعتوں اور انفرادی امید واروں کو مطلوبہ رقم فراہم کرتے ہیں۔نمائندے منتخب ہونے یعنی اقتدار میں آنے کے بعد اپنے سرمایہ کاروں کو سیاسی مدد اور مجرموں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں ایک تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ سیاسی نمائندوں کے معاون دنگائیوں اور دبنگوں کو اچانک یہ احساس ہوا کہ اگر وہ خود اپنے زیر اثر علاقوں سے سیاسی امید وار بن کر منتخب ہو جائیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے آقاؤں کے دست نگر نہیں رہیں گے بلکہ سیاسی قوت حاصل کرکے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کر سکیں گے ۔ دوسرا سوال ملن کے سامنے یہ تھا کہ رائے دہندگان یعنی عوام الناس ان لوگوں کو کیوں منتخب کرتے ہیں جن کے بارے میں علم ہو کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کے بیشتر مسائل سرکاری شعبوں اور محکموں سے متعلق ہوتے ہیں جہاں کوئی با اثر شخصیت ہی ان کا ’کام‘ کرا سکتی ہے۔اس ’کام کرانے‘ کی صلاحیت کو پیمانہ بنا کردہ کسی مرنجاں مرنج قسم کے ’شریف‘ امید وار کی نسبت کسی خیرہ سر کو منتخب کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مذکورہ کتاب کا نظر ثانی اور اضافہ شدہ ایڈیشن حال ہی میں شائع ہوا ہے جس میں اعداد و شمار کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اب حالات بد تر ہو چکے ہیں۔
لیکن اس پورے تماشے کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کا ذکر ملن ویشنو کی کتاب میں نہیں ہے۔ وہ ہے خود اربابِ سیاست کی (اقتدار میں آنے کے بعد) بدعنوانی اور ناجائز اکتساب زر جس کی اب کوئی حد ہے نہ حساب۔ سیاسی اقتدار دولت کے حصول کا آسان ترین ذریعہ ہے اور محفوظ ترین بھی۔
25ستمبر2018کو سپریم کورٹ نے 100 صفحات پر مشتمل اپنے ایک قانونی سنگ میل قسم کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایات صادر کی تھیںکہ ملکی سیاست میں تیزی سے بڑھتے ہوئے مجرمانہ رجحان اور عناصر کے سد باب کے لیے فوری تدابیر اختیار کی جائیں۔ اس ضمن میں عدالت نے تجویز کیا کہ ہر سیاسی امید وار ایک مقررہ فارم میں خود پر چل رہے کسی مجرمانہ مقدمے کی تفصیلات جلی حروف میں درج کرے۔ جس سیاسی جماعت سے وہ تعلق رکھتا ہو اس کی ویب سائٹ پروہ تفصیلات نمایاں کی جائیں نیز مقامی اخبارات میں شائع ہوں۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ اغوا، قتل اور زنا بالجبر جیسے گھناؤ نے اور سنگین جرائم میں ملوث اشخاص مجالس قانون ساز اور مرکزی پارلیمنٹ کے لیے منتخب نہ ہونے پائیں،لیکن ہوا کیا یہ دیکھیے۔National Election Watch (انتخابات نگرانی کی قومی تنظیم) اور تنظیم برائے جمہوری اصلاحات ( Association for Democratic Reforms ) کی مشترکہ رپورٹ مجریہ 2020 میں بتایا گیا کہ جہاں 2009 میں سنگین جرائم میں ماخوذ ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 76 تھی وہاں2019 میں یہ بڑھ کر 159 ہو گئی۔ (سنگین مجرمانہ معاملات اور مقدمات میں، قتل، ارادۂ قتل،اغوا،زنا بالجبر ،جبراً وصولی اور خواتین کی جنسی ہراسانی کے واقعات کو شمار کیا جاتا ہے) وجہ اس کی یہ ہے کہ جب کوئی نظام مکمل طور پر کرپٹ ہو تو اس کے مختلف اجزائے ترکیبی متحد ہو کر پوری قوت سے اپنے خلاف کارروائی کی مزاحمت کرتے ہیں،لیکن آزاد اور غیر جانبدارانہ تجزیے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ملکی سیاست میں یوں جرم اور مجرمان کے تسلط کے لئے کافی حد تک عام رائے دہندہ بھی ذمہ دار ہے کیونکہ ایک بہت بڑی تعداد میں ووٹ خوف ، لالچ ،ذات برادری اور نا مناسب لحاظ تعلقات کے زیر اثر دیے جاتے ہیں۔
معاشرے کے لیے سب سے زیادہ ضرر رساں اور تکلیف دہ وہ کھلے مجرم ہوتے ہیں جنھیں حکومت وقت نے سیاسی تحفظ عہدے کی شکل میں دے دیا ہو۔ ایسے لوگ علی الاعلان ہر طرح کی لوٹ، سرکشی اور من مانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور متاثرہ عوام بے بسی سے خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ صدائے احتجاج حکامِ بالا کے کان تک پہنچے بھی تو دوسرے کان سے نکال دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جب تک سیاست کو جرم سے پاک نہ کر دیا جائے جمہوری اقدار (اور معصوم عوام) کا خون ِنا حق جاری رہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS