نہیں ختم ہورہا ہے لبنان کا اقتصادی بحران

0

مغربی ایشیاکے ایک اہم ملک لبنان جس کو چند دہائی قبل دنیا کے جدید ترین ترقی پسند، روشن خیال اور مالدار ملکوں میں شمار کیا جاتا تھا آج پھر ایک نئے بحران سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے خانہ جنگی بیرونی مداخلت اور پڑوسی ممالک شام اور لبنان کی جارحیت جھیلنے والا لبنان اگرچہ کسی حد تک خانہ جنگی زدہ نہیں ہے مگر اقتصادی اور سماجی مسائل نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ 2019سے یہ ملک بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ مگر کوووڈ-19کے بعد جب پوری دنیا دوبارہ اقتصادی بحران کی زد میں آگئی تو لبنان کا اقتصادی بحران مزید سنگین ہوگیا۔ اس صورت حال میں اس وقت شدید پیچیدگیاں پیدا ہوگئی تھیں جب اگست 2020میں بیروت میں ساحل پر ہونے والے ایک بھیانک ترین بم دھماکوں نے مسائل کو اور خطرناک بنا دیا۔ یہ تینوں بحران اور اقتصادی بدحالی اگرچہ آس پاس کے ملکوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے مگر 2021میں پیدا ہونے والا اقتصادی بحران دنیا کی اس صدی کا سب سے بدترین بحران سمجھا جاتا ہے۔ لبنان کی معیشت کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا کررہی ہے۔ لبنان کی جی ڈی پی جو کہ 2019میں 52بلین امریکی ڈالر کی تھی ۔ 2021 میں گر کر 23.1فیصد ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ اس مجموعی صورت حال کا براہ راست اثر عام آدمی کی جیب پر پڑ رہا ہے اور 2021میں فی کس آمد میں 36.5کی گراوٹ ریکارڈ کی گئی اور عالمی بینک نے اعلان کردیا کہ لبنان دنیا کا سب سے غریب ترین ملک ہے۔
جہاں متوسط طبقے کی آمدنی سب سے کم ہے۔ یہ صورت حال جولائی 2022تک اور خراب ہوتی گئی او رخانہ جنگی ، پڑوسی ملکوں سے تنازعات نے حالات کو مزید ابتر بنا دیا ہے ۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ لبنان کو آج ایسے فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں جو کہ عام حالات میں کسی طور گوارہ نہیں تھی۔ پڑوسی ملک اسرائیل جو اس کی سرزمین پر طویل عرصے تک قابض رہا اور ابھی بھی اس کے ساتھ لبنان کی حالات جنگ میں ہے کو اس سے معاہدہ کرنا پڑا۔ لبنان اسرائیل کے ساتھ بحر روم میں قدرتی گیس اور پٹرولیم کے ذخائر کی تلاش میں دشمن ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ جبکہ اس سمجھوتے کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں فرانس نے ایک حتمی رول ادا کیا اور لبنان جو کہ اسرائیل کو خودمختار ملک تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا ہے اس کے باوجود وہ گیس کی نکاسی کے لیے اس کے ساتھ سمجھوتے کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ اسرائیل کے امریکہ کے سے پہلے ہونے والے اس سمجھوتے کو اسرائیل بڑی فتح قرار داددیتا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں لبنان کے رخصت پذیر صدر جنرل (سبکدوش)آعون نے اپنی مدت کار ختم ہونے سے چند دن قبل اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیاتھا اور اس کے بعد انہوںنے اپنے عہدے سے استعفیٰـ دے دیا۔ یہ اپنے آپ میں غیر معمولی صورتحال ان معنو ںمیں تھی کہ جنرل آعون کے بعد لبنان کا صدر کون ہوگا۔ اس کا فیصلہ لبنانی پارلیمنٹ نہیں کرپائی تھی۔ خیال رہے کہ لبنان میں سیاسی بحران کی سی کیفیت ہے وہاں پر نہ تو کوئی مستقل وزیراعظم ہے اور نہ ہی صدر آعون کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد سارنیمنٹ ان کے جانشین کا انتخاب ہوپایا ہے۔ لبنان کی اکثریتی پارٹی جس کے سربراہ اور وزیراعظم کے نامزد وزیراعظم کے درمیان کچھ وازارتوں کی تقسیم کے معاملے میں اختلافات برقرار ہیں۔ جنرل آعون وزیراعظم کے کئی کابینی رفقاء کے نام سے متفق نہیں تھے لہٰذا لبنان میں فی الحال کوئی کل وقتی حکومت نہیں ہے۔ ایسے حالات میں یہ بحران اور شدید ہوگیا ہے۔ اس کا اثر لبنان کے دیگر ممالک اور مالیاتی ادارو ںکے ساتھ مذاکرات پر ہورہا ہے۔ جنرل آعون جو کہ لبنان کی طرف سے انٹرنیشنل مائنیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوششیں کررہے تھے لیکن کسی بھی سمجھوتے پر پہنچنے سے قبل ان کا اقتدار سے الگ ہونا اور ان کی جگہ کسی دوسرے جانشین کا صدر کے عہدے پر ذمہ داریاں سنبھالنا اس پوری صورتحال پر بہت منفی اثرات ڈال رہاہے۔
اقتصادی بحران سے دوچار سری لنکا سے دور مغربی ایشا کے ملی جلی آبادی والے لبنان میں بھی مالی بحران کی وجہ سے عوامی مظاہرے ہورہے ہیں، مگر بعد ازاں مظاہرین جب زیادہ دونوں تک سڑکوں اور شاہراہوں کو بلاک کرکے رکھا تو صدر نے فوج کو ہدایت کہ وہ آمد ورفت کے لیے راستوں کو کھلوائیں اس وقت آرمی کے سربراہ نے بھی عوام کے مطالبات کو درست اور جائز قرار دیا اور کہاکہ فوجی بھی بھوکے ہیں۔ جن کو نہ تو وقت پر تنخواہ مل رہی ہے او رنہ ہی سہولیات مل رہی ہیں۔ توانائی کے دہانے پر قائم لبنان میں پٹرولیم اور قدرتی گیس کے بحران نے کئی مسائل کو ہوا دی۔ بجلی پانی اور ایندھن کی بڑی قیمتوں کالابازاری کی وجہ سے عام زندگی درہم برہم ہوگئی۔ غذائی اجناس کی قیمتوں میں 350فیصد اضافہ، دکانوں، پٹرول پمپوں اور سول سپلائی کے مراکز پر تشدد اور ہجوم کی وجہ سے بدنظمی نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ 2021میں بدترین فسادات پھوٹ پڑے اور مختلف طبقات اور فرقوں کے آپسی رقابت نے جلتی میں تیل کا کام کیا۔
بیروت کی سڑکوں پر ہنگامہ اور تشدد نے تقریباً سول وار کی شکل اختیار کرلی اور اب 2022میں یہ بحران انسانی اقدار کے بحران میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ملک میں غیریت، اقربا پروری، بدنظمی نے سیکورٹی پیدا کردیے ہیں۔ یہ صورت اس لیے بھی خطرناک ہے کہ سکورٹی فورس بھی اندرونی خلفشار کی شکار ہیں، فوجیوں کو تنخواہ نہیں مل رہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ لبنان کے غیر مستحکم ہونے کا اندیشہ شدید سے شدید ہوتا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS