سرکاری اسکول چھوڑ کر مدرسہ جارہے ہیں آدیواسی بچے

0

Mبھوپال، (ایجنسیاں)ودیشا میں سرکاری اسکول کی جانب سے منع کیے جانے پر 35 گونڈ قبائلی ہندو بچے مدرسے میں پڑھنے پہنچ گئے۔ ان میں سے 7 کے نام مدرسہ کے رجسٹر میں درج پائے گئے ہیں۔ اس مدرسہ کے داخلہ رجسٹر میں مزید 20 ہندو بچوں کے نام بھی درج ہیں۔ انتظامیہ بھلے ہی انکار کرے اور کہے کہ تمام بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں لیکن زمینی حقیقت حکومتی دعوو¿ں کے برعکس ہے۔ توپ پورہ کے مریم مدرسہ کی انتظامیہ نے یہاں 45 بچوں کے پڑھنے کا دعویٰ کیا، جن میں سے نصف بچے ہندو گونڈ قبائلی ہیں۔یہ مدرسہ سرکاری گرانٹ یافتہ ہے۔ 2002 سے ایک تنگ گلی کے چھوٹے سے کمرے میں چل رہا ہے۔ اس کمرے کے اوپر ایک اور کمرہ ہے، جس میں کچھ لوگ رہتے ہیں۔ مدرسہ میں 3 مسلمان اور ایک ہندو استاد ہیں۔ ہندو استاد سریش کمار آریہ نے بتایا کہ مدرسہ میں پہلے سے 45 بچے رجسٹرڈ ہیں۔ ان بچوں میں سے آدھے ہندو ہیں اور کچھ غیر اقلیتی برادریوں سے ہیں۔ توپ پورہ اور جترا پورہ کے سرکاری اسکولوں کے جن 35 بچوں کے مدرسہ میں داخلہ لینے کی شکایت کی ہے، ان میں سے صرف 7 بچوں کے نام انہوں نے جولائی میں رجسٹر میں لکھے ضرور تھے، لیکن فیس جمع نہیں ہونے، مجموعی آئی ڈی نمبر جنریٹ نہیں ہونے اور میپنگ نہیں ہونے کی وجہ سے انہیں مستقل داخلہ نہیں دیا گیا ہے۔ ان 7 بچوں میں سے صرف 4 بچے ہی باقاعدگی سے پڑھنے آتے ہیں جبکہ 3 کبھی کبھار آتے ہیں۔توپ پورہ گورنمنٹ پرائمری اسکول کی ٹیچر ریکھا چڑھار نے مدرسہ جانے والے بچوں کی جانکاری ہونے سے انکار کیا۔ بچوں کو اسکول سے بھگانے کی بات بھی نہیں مانی۔ ایک 9 سالہ قبائلی بچہ (بچے کی حفاظت کے لیے نام ظاہر نہیں کیا جا رہاہے) نے بتایا کہ ’سرکاری اسکول کی میڈم کہتی تھیں کہ تم نہاکر نہیں آتے ہو، اس لیے اسکول مت آیا کرو۔‘ شکایت کنندہ منوج کوشل نے بتایا کہ یہ بچے پننی چننے کا کام کرتے ہیں۔ کاغذات کی کمی کی وجہ سے اسے سرکاری اسکول میں پڑھنے سے روکا گیا، اس لیے اس نے مدرسہ جانا شروع کردیا۔ ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا کا کہنا ہے کہ ودیشا میں سرکاری اسکول چھوڑ کر 35 بچوں کے مدرسے میں داخلہ لینے کی رپورٹ غلط ہے۔ میں نے اس معاملے پر انتظامیہ سے بات کی ہے۔ جانچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ودیشا میں کسی بھی بچے نے مدرسے میں داخلہ نہیں لیا ہے۔
قومی اطفال کمیشن کے چیئرمین قانون گو جی کو اس کی اطلاع دے دی ہے۔ پرینک قانون گو کا کہنا ہے کہ ہمیں انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی تحقیقاتی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔ کسی بھی بچے کو اسکول جانے سے محروم رکھنا آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ودیشا کے کلکٹر اوماشنکر بھارگو کا کہنا ہے کہ کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی جانب سے ہمیں جن 33 بچوں کی فہرست ملی ہے، ان میں سے 22 بچے توپ پورہ اسکول میں رجسٹرڈ ہیں۔ کوئی بچہ مدرسے میں درج نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بچے مدرسے کے قریب رہتے ہیں تو وہاں چلے جاتے ہوں گے۔ بچوں کو اسکول سے بھگانے جیسی حقیقت تحقیقات میں نہیں ملی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS