سال گزشتہ کا مایوس کن دھچکا اور سال نو کا پیغام

0

صبیح احمد
نئے سال کی آمد کا سب کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے اور بڑے جوش و خروش سے اس کا استقبال کیا جاتا ہے۔ ویسے تو پوری دنیا میں نیا سال الگ الگ دن منایا جاتا ہے اور ہندوستان کے الگ الگ علاقوں میں بھی نئے سال کا آغاز الگ الگ وقت پر ہوتا ہے لیکن انگریزی کلینڈر کے مطابق یکم جنوری سے نئے سال کی شروعات مانی جاتی ہے کیونکہ انگریزی کلینڈر کے حساب سے 31 دسمبر کو ایک سال کا اختتام ہونے کے بعد یکم جنوری سے نئے کلینڈر سال کا آغاز ہوتا ہے، اس لیے اس دن کو پوری دنیا میں نیا سال شروع ہونے کے موقع پر تہوار کی طرح منایا جاتا ہے۔ نیا سال نئی توقعات، نئے خواب، نئے اہداف اور نئے آئیڈیاز کے ساتھ آتا ہے، اس لیے سبھی لوگ خوشی سے اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ سال کا پہلا دن اگر جوش و خروش اور خوشی کے ساتھ منایا جائے تو پورا سال اسی جوش و خروش اور خوشیوں کے ساتھ گزرے گا۔
سال 2021 اچھی بری یادوں کے ساتھ گزر چکا ہے۔ ایک نیا سال نئی توقعات کے ساتھ آگیا ہے۔ بہرحال اس گزرے سال کی یادیں اب تک لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں اور شاید بہت دنوں تک تازہ رہیں گی۔ ویسے تو 2021 کا آغاز کورونا وائرس کے خطرے، ضروری طبی سہولتوں کی کمی کے درمیان ہوا جب لوگوں کو کورونا کے خوف کے سایے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آکسیجن کی کمی، اسپتالوں میں بستروں کی قلت اور انفیکشن سے بچائو کے لیے عائد پابندیوں کو لوگوں نے اس پورے سال میں جھیلا۔ بہرحال کورونا سے ہٹ کر بھی ملک میں کئی بڑے واقعات پیش آئے جو ملک کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے درج ہو گئے ہیں اور لوگ ان واقعات کو بہت دنوں تک یاد کریں گے۔ 26 جنوری کی ٹریکٹر ریلی سے لے کر تینوں زرعی قوانین کو حکومت ہند کے ذریعہ واپس لیے جانے تک تمام صعوبتوں اور اذیتوں کو سہتے ہوئے کسانو ں کی تاریخی تحریک پورے سال چھائی رہی۔
متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسان 2020 سے دھرنے پر بیٹھے تھے، تحریک چلا رہے تھے لیکن 2021 کے آغاز میں کسانوں کا غصہ اس وقت پھوٹ پڑا جب یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے ٹریکٹر مارچ نکالا۔ دہلی کی سرحد پر دھرنا دینے والے کسان جب لال قلعہ کی جانب بڑھے تو جم کر لاٹھی چارج ہوا۔ پولیس اور کسانوں کے درمیان تنازع بڑھ گیا۔ کسان مشتعل ہوگئے۔ مبینہ طور پر کسان تحریک میں شامل کچھ مظاہرین لال قلعہ پر چڑھ گئے اور نشان صاحب کا جھنڈا لہرانے لگے۔ ٹریکٹر مارچ کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہوئے جس میں کئی لوگ زخمی بھی ہو ئے۔ ان حالات کے لیے کون ذمہ دار تھے؟ قطعی طور پر اس کے بارے میں کچھ کہانہیں جا سکتا، کیونکہ مختلف فریقوں کی مختلف آرا ہیں اور سب ایک دوسرے کو اس کے لیے ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ بہرحال اس کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تحریک اب آگے نہیں بڑھ پائے گی لیکن ’سنیکت کسان مورچہ‘ کی قیادت میں کسان تحریک میں ایک نئی جان پڑ گئی اور یہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ آگے بڑھنے لگی اور بالآخر سال کے اختتام تک کسانوں نے اپنی کامیابی کے پرچم گاڑ دیے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے قوم کے نام خطاب میں کیے گئے اعلان کے مطابق 29 نومبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متنازع زرعی قوانین کو مسترد کرنے والے ’زرعی قانون کو مسترد کرنے سے متعلق ایکٹ 2021‘ کو کسی بحث کے بغیر منظوری دے دی۔ یکم دسمبر کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے بھی اسے منظوری دے دی۔ زرعی قوانین کے رد ہونے کے ساتھ ہی کسانوں کی ایک سال سے زائد وقت سے جاری تحریک بھی ختم ہو گئی۔ اس دوران کسانوں کو بہت پریشانیاں جھیلنی پڑیں اور طرح طرح کی تہمتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ ان پر ملک سے غداری تک کا الزام بھی لگایا گیا۔ اس کا تفصیل سے ذکر ابھی ممکن نہیں ہے۔
گزشتہ سال جس واقعہ نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ کورونا وائرس کی جان لیوا دوسری لہر تھی۔ خاص طور پر یوروپی ملکوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی کووڈ19- وبا اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اپریل2021 کے پہلے عشرہ میں کووڈ19- کے معاملوں میں امریکہ اور برازیل کے بعد ہندوستان تیسرے نمبر پر تھا۔ سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں میں مہاراشٹر، کیرالہ، کرناٹک، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، دہلی، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل تھیں۔ اس وبا نے ہندوستانی آبادی کو بہت ہی خطرناک حد تک متاثر کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق 18 مئی2021 تک 2,80,683 معصوم لوگوں کی جانیں جا چکی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً 100 برسوں کے بعد یہ دوسری انتہائی خطرناک وبا تھی جس نے ملک کو اتنا متاثر کیا۔ اس سے پہلے اس طرح کی وبا 1918 میں انفلوئنزا کی شکل میں پھوٹی تھی جس میں 12 ملین افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ کورورنا کی دوسری لہر شروع ہونے کے فوراً بعد ہی تمام وسائل نے جواب دینا شروع کردیا۔ اسپتالوں میں آئی سی یو اور آئسولیشن وارڈس کی کمی پڑ گئی، مریضوں کو اسپتال میں بیڈ اور سانس لینے کے لیے آکسیجن سلنڈر نہیں مل پا رہا تھا۔حیات بخش دواؤں اور آکسیجن کی زبردست قلت ہوگئی۔ ہر جگہ لاشیں بکھری پڑی نظر آ رہی تھیں۔ حکومت کی بد نظمی اور عام لوگوں کے لاپروائی والے رویے نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا۔
اس صورتحال میں بھی کئی ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کرائے گئے۔ انتخابی مہم کے دوران بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا پروٹوکول کی خوب دھجیاں اڑائی گئیں۔ انہی حالات میں بہرحال یہ انتخابات مکمل کرائے گئے۔ 2021 میں ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی سیاست میں مغربی بنگال اسمبلی کا الیکشن سب کی نگاہوں میں اول تھا۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے 200 سے زائد سیٹیں جیتیں۔ اس کے ساتھ ہی ممتابنرجی مسلسل تیسری بار ریاست کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ ان کا ’کھیلا ہوبے‘ کا نعرہ بی جے پی کے تمام نعروں اور حربوں پر بھاری پڑا۔ بی جے پی کو مغربی بنگال میں ملنے والی شکست کے فوراً بعد پیگاسس جاسوسی معاملے کو لے کر اپوزیشن کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ مرکزی سرکار پر اپوزیشن نے الزام لگایا کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سے ملک کے کئی بڑے صحافیوں، سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں کے موبائل فون ہیک کر کے ان کی جاسوسی کی گئی۔ پرائیویسی کی خلاف ورزی بتا کر اس معاملے کو اپوزیشن نے خوب طول دیا۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس ایک دن بھی نہیں چل سکا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور جانچ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل بھی کی گئی۔زندگی خوشی اور غم کے امتزاج کا نام ہے۔ کبھی غم تو کبھی خوشی کا لمحہ بھی ہوتا ہے۔ 2021 میں کچھ خوشخبریاںبھی ملیں۔ جولائی-اگست میں منعقدہ ٹوکیو اولمپک میں ہندوستان کے کھلاڑیوں نے 7 میڈل حاصل کیے جس میں نیرج چوپڑا نے جیولن تھرو میں ہندوستان کے لیے گولڈ میڈل جیتا۔ ہندوستانی ہاکی ٹیم نے 41 سال بعد میڈل حاصل کیا۔ کورونا انفیکشن کے خطرے کے درمیان اکتوبر میں ہندوستان نے 100 کروڑ ویکسین کے ڈوز پورے کرکے تاریخ رقم کر دی۔
گزشتہ سال نے جاتے جاتے ایک انتہائی مایوس کن دھچکا دیا۔ کچھ ناپسندیدہ اور سماج دشمن عناصر نے ’دھرم سنسد‘ کے نام پر ہمارے وطن عزیز کی گنگا جمنی تہذیب اور اتحاد و سالمیت کے سینے میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں نہیں معلوم کہ ہندوستان ایک ایسی کشتی ہے جو ہچکولے تو کھا سکتی ہے لیکن کبھی ڈوب نہیں سکتی اور یہ حقیقت ہزاروں سالوں سے ثابت ہوتی آئی ہے۔ بہرحال نیا سال ایک نئی شروعات کا پیغام اور ہمیشہ آگے بڑھنے کا سبق دیتا ہے۔ پرانے سال میں ہم نے جو بھی کیا، سیکھا، کامیاب یا ناکام ہوئے، اس سے سبق لے کر ایک نئی امید کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ جس طرح ہم پرانے سال کے ختم ہونے پر دکھی نہیں ہوتے بلکہ نئے سال کا خیر مقدم بڑے جوش وخروش اور خوشی کے ساتھ کرتے ہیں، اسی طرح زندگی میں بھی گزرے ہوئے وقت کے حوالے سے ہمیں دکھی نہیں ہونا چاہیے۔ جو گزر گیا اس کے بارے میں سوچنے کے بجائے آنے والے مواقع کا استقبال کیا جائے اور زندگی کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS