قابل تعریف ہیں کوہلی!

0

مختلف مذہبوں، تہذیبوں، زبانوں کے لوگوں سے مل کر جیسے ایک ملک بنتا ہے اسی طرح مختلف کھلاڑیوں سے مل کر ایک ٹیم بنتی ہے۔ یہ ٹیم ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔ ٹیم جیتتی ہے تو کہاجاتا ہے، ملک جیتا اور ٹیم ہارتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ملک ہارا۔ ہر کھلاڑی ٹیم کا نمائندہ ہوتا ہے یعنی بالواسطہ طور پر وہ ملک کا ہی نمائندہ ہوتا ہے،اس لیے کھلاڑی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تاکہ اس کا ملک جیتے۔ محمد شامی نے 54 ٹسٹ میں 27.56 کی اوسط سے 195، 79 وَن ڈے میں 25.62 کی اوسط سے 148 اور 13 ٹی-20 میں 39.25 کی اوسط سے 12 وکٹ لیے ہیں تو ظاہر ہے، وہ ایک اچھے بالر ہیں اور شاندار کارکردگی کے مظاہرے سے ٹیم انڈیا کو جتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اسی لیے اتنے وکٹ لے پائے مگر ایک بالر کی کارکردگی ہمیشہ ہی شاندار نہیں ہو سکتی۔ یہی شامی ہیں جنہوں نے 2015 کے آئی سی سی ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف ٹیم انڈیا کی طرف سے سب سے کامیاب بالنگ کی تھی اور 9 اووَر میں ایک میڈن اووَرڈالتے ہوئے 35 رن دے کر پاکستان کے 4 وکٹ لیے تھے، یہ میچ ہندوستان جیتا تھا، ایسی کامیابی شامی کو ٹی-20 ورلڈ کپ کے میچ میں نہیں ملی۔ بھونیشور کمار نے 3 اووَر میں 8.33 کی اوسط سے 25 رن دیے تو شامی نے 3.5 اووَر میں 11.22 کی اوسط سے 43 رن دیے مگر کیا کسی بالر کا کنٹرول کسی بلے باز پر ہوتا ہے یا اس کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے کہ وہ جس ٹیم کے بلے باز کو چاہے رن نہ لینے دے اور ان کے وکٹ جھٹکتا چلا جائے؟ ظاہر ہے، ایسی طاقت نہیں ہوتی اور سچ یہ بھی ہے کہ کوئی کھلاڑی اپنی ٹیم کی شکست دیکھنا نہیں چاہتا، چنانچہ پاکستان سے ٹیم انڈیا کی شکست کے بعد محمد شامی کو ٹرول کیا جانا واقعی افسوسناک تھا۔ وہ لوگ جو زندگی کے ہر شعبے کو مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں، یہ نہیں سمجھ پاتے کہ 1947 میں مسلمانوں کو انتخاب کا موقع دیا گیا تھا کہ وہ ہندوستان کو چنیں یا پاکستان چلے جائیں، اس وقت جن مسلمانوں نے ہندوستان کو وطن کے طور پر چنا، پاکستان کو ٹھکرا دیا، کیا اسی پاکستان کے خلاف کسی میچ میں کوئی مسلمان کھلاڑی دانستہ طور پر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا؟ ٹیم انڈیا کے کپتان وراٹ کوہلی نے بجا طور پر پاکستان کی جیت کے حوالے سے محمد شامی کو ٹرول کرنے والوں کو ’بنا ریڑھ کی ہڈی‘ کا اور ان کی حرکت کو ’اوچھی حرکت‘ بتایا ہے۔
وراٹ کوہلی کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ سوشل میڈیا پر ہیں جو اپنی پہچان چھپاکر اس طرح کی حرکت کرتے ہیں۔ آج کے وقت میں یہ ریگولر ہو گیا ہے۔ یہ ان کی زندگی کی سب سے نچلی سطح ہے، جب وہ کسی کو پریشان کرتے ہیں۔ ہم اپنے ڈریسنگ روم کے ماحول کو صحیح رکھتے ہیں اور اپنے کھلاڑیوں کو ساتھ رکھتے ہیں۔‘ اپنے ایک کھلاڑی محمد شامی کی حمایت میں کھل کر سامنے آکر اور ردعمل ظاہر کرکے وراٹ نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ واقعی کپتان ہیں۔ کپتان کو اپنی ٹیم کا نام نہاد سربراہ نہیں ہونا چاہیے، ہر کھلاڑی کے سکھ دکھ میں شریک ہونا چاہیے، ان کا محافظ ہونا چاہیے۔ آج کے دور میں وراٹ کا اس طرح کھل کر باتیں کرنا حیرت انگیز ہے۔ ان کے بڑے کھلاڑی ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر اپنی باتوں سے انہوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ ایک ایسے انسان ہیں جو کسی کے ساتھ غلط ہونے کا تماشہ نہیں دیکھ سکتے۔ وراٹ کوہلی سے ان لوگوں کو تحریک لینا چاہیے جو غلط پر بول نہیں سکتے، صحیح کی کھل کر حمایت نہیں کر سکتے۔ سنجے دت جیل گئے تھے تو اس وقت سنیل دت تنہا نہیں تھے، ان کی حمایت میں پوری فلم انڈسٹری سامنے آگئی تھی، فلم والوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کر کے یہ بتایا تھا کہ وہ سنجے کے معاملے میں کیا سوچتے ہیں مگر آرین خان گرفتار کیے گئے، عدالت نے انہیں ابھی مجرم قرار نہیں دیا ہے، کیونکہ ان کا معاملہ عدالت میں زیر غور ہے، اس کے باوجود فلم انڈسٹری کے کتنے لوگ شاہ رخ خان کے ساتھ آئے تاکہ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ یہاں بات قطعی ہندو-مسلمان کی نہیں ہے، کیونکہ آرین خان کے سارے بڑے وکلا غیر مسلم ہیں، یہاں بات ہے اظہار رائے کی آزادی کی اور اظہار رائے کی آزادی پر فلم والے بہت زور دیتے رہے ہیں تو ان کی اکثریت آرین کی گرفتاری پر واضح مؤقف کیوں نہیں رکھ سکی جیسے رتک روشن، سونو سود یا کنگنا رانوت نے رکھا۔
دراصل بیشتر پیشے کی بڑی شخصیتوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ وہ ’ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘ یعنی خود کو اس پوزیشن میں رکھنا چاہتے ہیں کہ ہر حالات میں فٹ بیٹھیں مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ وراٹ کوہلی سے انہیں یہ سیکھنا چاہیے کہ اگر ایک بات غلط ہے تو اسے غلط ہی کہنا چاہیے، کیونکہ غلط بات پر خاموشی بھی ایک جرم ہے، البتہ اس جرم کے کرنے کا احساس کئی بار ان لوگوں کو بھی نہیں ہوتا جو مذہب اور انسانیت کی باتیں کرتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS