تقسیم کرو اور راج کرو، ہے بھگوان! انہیں معاف کرو

0

نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے دو کھیل ’خوب‘ کھیلے۔ اس ’خوب‘ لفظ کا استعمال مقداری اور معیاری دونوں طرح سے کیا جاسکتا ہے اور یہ دونوں معنی میں فٹ بیٹھتا ہے۔ جن دو کھیلوں کے تناظر میں اس کا استعمال کیا گیا ہے، ان میں سے ایک تو ہے کرکٹ کا کھیل اور دوسرا ہے ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ والا کھیل۔ صدیوں تک یہ ’کھیل‘ انگریزوں کے گورننس سسٹم کے اہم ہتھیار رہے۔ جن ممالک پر انہوں نے حکومت کی وہاں وہ تاجر بن کر پہنچے اور پھر مقامی حکومتی نظام میں پھوٹ ڈال کر پہلے تو اسے کمزور کیا اور پھر اس پر قبضہ کرلیا۔ جو ممالک غلام بنتے گئے، وہاں ڈیرا ڈالنے والے انگریز افسران اور فوج کے لیے کرکٹ کا کھیل تفریح کا ذریعہ بنا جس میں گیند کے پیچھے دوڑنے- بھاگنے، اسے باؤنڈری پار سے اٹھاکر لانے اور کھلاڑیوں کے لیے میدان پر پانی لے جانے جیسے ’چاکری‘ والے کاموں کے لیے مقامی لوگوں کو بھی اس سے جوڑا گیا۔ وقت گزر ا تو آہستہ آہستہ انگریزوں کا سورج بھی ڈوبتے ڈوبتے برطانیہ تک محدود ہوکر رہ گیا، لیکن کبھی ان کے غلام رہے ممالک میں پیچھے چھوٹ گیا کرکٹ اور پھوٹ ڈالو-راج کرو والی ’وراثت‘ خوب پھلتی پھولتی رہی۔
گزشتہ اتوار اس ’وراثت‘ کا مضحکہ خیز دنیا کے سامنے آیا۔ موقع تھا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئے ٹی-20ورلڈ کپ میچ کا، جس میں پاکستان نے کسی بھی ورلڈ کپ میچ میں پہلی مرتبہ ہندوستان کو شکست دی۔ ریکارڈ کی کتابوں میں لکھے جانے کے لیے یہ فاصلہ 29سال کا تھا، لیکن بڑی بات یہی تھی کہ ورلڈ کپ میں پاکستان نے ہندوستان پر پہلی مرتبہ جیت درج کی۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، کھیل کے میدان پر بھی ہندوستان-پاکستان مقابلہ کسی جنگ سے کم نہیں ہوتا اور میدان کے اندر باہر ایک جیسا ماحول ہوتا ہے۔ کھلاڑیوں کا کھیل اور دونوںممالک کے لوگوں کے بیان ہی اس جنگ کے گولہ-بارود ہوتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ بات کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئی اور کھیل کھیل میں تحمل اور سمجھداری کی ’لکشمن ریکھا‘ کو بھی پار کرگئی۔
اس کی شروعات ہوئی پاکستان کے وزیرداخلہ شیخ رشید کے بیان سے جنہوں نے ہندوستان پر پاکستان کی جیت کو اسلام کی جیت قرار دے دیا۔ اِدھر میچ ختم ہوا، اُدھر ٹوئیٹر پر شیخ رشید کی ’چڑیا‘ چہکی- دنیا کے مسلمان سمیت ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات پاکستان کے ساتھ ہیں، اسلام کی فتح مبارک ہو، پاکستان زندہ آباد۔ یقینا اس دن کھیل کے میدان میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے اپنے ملک کو زندہ آباد کرنے والا کام کیا تھا، لیکن اس کا اسلام سے کیا لینا دینا؟ اس واقعہ پر پاکستان کی سیاسی جماعت سے ایک اوربیان نکل کر آیا جو تقریباً اتنا ہی قابل اعتراض تھا لیکن چرچہ کا موضوع نہیں بن پایا۔ اس کے لیے پاکستان کے ایک اور وزیر اسد عمر نے بھی ٹوئیٹر کو ہی اپنی بیہودہ سوچ کا اسٹیج بنایا اور لکھا کہ پہلے ہم ان کو(ہندوستان کو) ہراتے ہیں اور جب وہ(ہندوستانی) زمین پر گرجاتے ہیں تو چائے دیتے ہیں۔ عمر کی ’نظریں‘ تو وِنگ کمانڈر ابھینندن پر تھیں، لیکن ’نشانہ‘ یقینا ہندوستان کی شکست پر تھا۔
صرف سیاستداں ہی نہیں، اس گرماگرمی میں ہندوستان سے مسلسل ہار جھیلے بیٹھے کچھ پرانے پاکستانی کھلاڑیوں کی ٹیم بھی باہر نکل آئی۔ وقار یونس کا ’ہندوؤں کے سامنے رضوان کا نماز پڑھنے کا لمحہ بیحد خاص تھا۔‘ والا بیان بھی شیخ رشید کی ہی طرح مذہبی اکساوے سے کسی طرح کم نہیں ہے، حالاں کہ اس کے لیے معافی مانگ کر انہوں نے فوراً ہی اپنی غلطی کی اصلاح بھی کرلی۔
ایسا نہیں ہے کہ کرکٹ کے نام پر یہ بھدّاپن صرف پاکستان کے کچھ سرپھرے لوگوں کا ہی کاپی رائٹ ہے۔ سرحد کے اس پار ہندوستان میں ٹوئیٹر پر محمد شامی کے لیے ’غدار‘ ٹرینڈ کروانے اور اس میں شامل ہونے والے بھی اسی ذہنیت کے غلام ہیں۔
دراصل یہی وہ جذبہ ہے جو انگریزوں کی چھوڑی ہوئی ’وراثت‘ کے لیے کھاد-پانی کا کام کررہاہے۔ کھیل کو ہتھیار بناکر پھوٹ ڈالو اور راج کرو۔ پوری دنیا کا حکمراں طبقہ حقیقی سیاسی ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے کھیلوں کا استعمال کرتا ہے۔ پاکستان میں کرکٹ اس مقصد کو پورا کرتا ہے۔ وہاں جب بھی کرکٹ کا کوئی بڑا مقابلہ ہوتا ہے تو لوگ بدحکمرانی اور آسمان چھو رہی مہنگائی کو فراموش کرکے قومیت کی پناہ لیتے ہیں۔ پھر اس وقت تو پاکستان اپنے سب سے برے دور سے گزر رہا ہے۔ مہنگائی اور کرنسی کی قدر میں کمی سے لے کر کشمیر، چین اور طالبان کے مسائل پر پوری دنیا سے مل رہی لتاڑکے دوران وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت نچلی سطح میں پہنچ چکی ہے اور ان پر عہدہ سے محرومی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ایسے میں کرکٹ ان کے لیے سیاسی کوچ کا کام کرسکتا ہے۔
یہ پاکستان کی پرانی روایت بھی رہی ہے۔ جب اقتدار میں بیٹھے لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اسلام ان کے لیے آخری امید بن جاتا ہے اور کرکٹ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پایا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نمونہ خود عمران خان ہیں۔ برطانیہ سے تعلیم یافتہ عمران نے اپنے کرکٹ کے دنوں میں ’ازخود‘ پلے بوائے کی شبیہ بنائی لیکن سیاست میں آتے ہی قدامت پسندی کا چولہ اوڑھ لیا۔ آج کل ان کا ماننا یہ ہے کہ مغربی تہذیب پاکستانی نوجوانوں کو بگاڑ رہی ہے۔
اس رویہ کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں کئی پاکستانی کرکٹر تبلیغی جماعت میں بھی شامل ہوئے ہیں۔ تبلیغی جماعت ایک مشنری گروپ ہے جس کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ پاکستانی کرکٹر پریس کانفرنس میں مذہبی اصطلاحات کا کھل کر استعمال کرتے ہیں اورکچھ تو میدان پر ہی کھیل کے دوران نمازاور جیت کے بعد سجدہ بھی کرتے ہیں۔ ایک دیگر وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سیاسی لیڈر اور کرکٹر بھی معاشرہ کا حصہ ہوتے ہیں اور پاکستانی معاشرہ پر اسلام کی اجارہ داری ہے۔ لیڈر اورکھلاڑی ہی کیوں، وہاں تو فلم اسٹارس اور دوسری ہستیاں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پائی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے- اور یقینا آخری بھی نہیں- جب پاکستان کی جانب سے انسانیت کو تقسیم کرنے کا خطرہ پیدا کرنے والے بیانات آئے ہوں۔ 14برس قبل ٹی-20ورلڈ کپ میں جب پاکستان خطابی مقابلہ میں ہندوستان سے ہارا تھا، تو تب کے کپتان شعیب ملک نے ہار کے بعد پاکستان اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو زبردستی اس ’جنگ‘ سے منسلک کرتے ہوئے ان کی حمایت پر شکریہ اور شکست کے لیے معافی مانگی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میچ میں شعیب کا وکٹ بھی عرفان پٹھان نے لیا تھا اور فائنل کے مین آف دی میچ بھی عرفان ہی بنے تھے۔ ایک دوسرا اتفاق یہ بھی ہے کہ پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ میچ میں ہندوستان کو تین فتح محمد اظہرالدین کی کپتانی میں ملی ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو بنگلہ دیش سے بھی شکست ملی ہے۔ اسلام سے مقابلہ میں اسلام کی ہار پر شیخ رشید جیسے لوگ کیا کہیں گے، معلوم نہیں۔ بہتر ہوتا کھیل کوہتھیار بناکر اپنی منفی سیاست کو چمکانے کا ’کھیل‘ کھیلنے کے بجائے شیخ رشید اپنے پڑوس کے ہی اسلامک ملک افغانستان سے ترغیب حاصل کرلیتے، جہاں کرکٹ تقسیم کی نہیں، بلکہ طالبان کے خلاف ’متحدہ‘ مزاحمت کی علامت بنا ہے۔ اگر شیخ رشید نے اس جیت کو اسلام کی فتح بتانے کی جگہ اچھے کھیل کی جیت کہا ہوتا تو انہیں اتنی لعنت ملامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، بلکہ ہندوستان سمیت ہر مذہب کو ماننے اور کرکٹ کو سمجھنے والے دنیا جہاں کے لوگ ان کے ساتھ، ان کی حمایت میں کھڑے ہوتے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS