خواجہ عبدالمنتقم: سزائے موت کے ا حکامات سے جرائم میں کمی کیوں نہیں آتی؟

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہمارے ملک میں جب جب کسی کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے تب تب بڑی بڑی آوازیں اٹھتی ہیں اور اس بات کی وکالت کی جاتی ہے کہ سزائے موت ختم ہونی چاہیے مگر کبھی کبھی جرم کی شدت اس قدر تشویش کا باعث ہوتی ہے کہ اگر متعلقہ مجرم یا مجرمین کو سزائے موت نہ دی جائے تو اس سے ملک کے نظم ونسق پر نہایت منفی اثر پڑنے کا امکان ہوسکتا ہے اور دہشت گردوں کے ارادے بھی مزید بلند ہوسکتے ہیں۔ قصاب والے معاملے میں جسٹس آفتاب عالم نے مجرم کو سزائے موت کی بابت فیصلہ قلم بند کرتے ہوئے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ تحریر کیا تھا کہ مجرم کی نیت اور فعل ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانا، ملک کو کمزور کرنا اور فرقہ وارانہ صورت حال بگاڑنا تھا۔ اس طرح یہ معاملہ تعزیری نقطۂ نظر سے پوری طرح یکتا اور نہایت شدید نوعیت کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو rarest of rare cases (نادر میں بھی نادر ترین)کے درجے میں رکھا اور مجرم کو سزائے موت دی۔ جہاں تک گورکھپور میں گورکھ ناتھ مندر کے سیکورٹی اہلکاروں پر قاتلانہ حملے کے مجرم احمد مرتضیٰ عباسی کو پھانسی کی سزا سنانے کی بات ہے، اس کے بارے میں کوئی رائے دینا قبل از وقت ہوگا چونکہ یہ فیصلہ نچلی خصوصی عدالت کا ہے اور کتنی ہی بار یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے موت کی سزا کو سزائے عمر قید میں بدل دیا یا مختلف نوعیت کا کوئی اور فیصلہ دے دیا حالانکہ اس معاملے میں خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پریہ بات کہی ہے کہ اے ٹی ایس کے ذریعہ پیش کیے گئے ثبوتوں کی روشنی میں مجرم مستوجب سزاہے اور یہ کہ پولیس یہ بات ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ اس نے ملک کے خلاف سازش رچنے کی نیت سے یہ مجرمانہ فعل انجام دیا تھا۔
سوال ہے کہ سزائے مو ت کے خاتمے کی وکالت کیوں کی جاتی ہے ؟ ایک طویل عرصے سے یہ بات بحث کا موضوع رہی ہے کہ پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا جائے یا دیگر 100سے زیادہ ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی اس سزا کو ختم کردیا جائے۔ہمارے معتبر شماریاتی اداروں کے ذریعے شائع کیے گئے اعداد وشمار سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے کہ سزائے موت کے احکامات کی تعداد، خاص کر نچلی عدالتوں کی سطح پر، تو برابر بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن جرائم میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔جہاں تک سزائے موت کی بات ہے انسانی حقوق کے علمبردارسزائے موت کو ایک ظالمانہ فعل کہتے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے کسی کے دل میں کوئی ڈر وخوف پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس طرح کے جرائم کے کم ہونے میں اس کا کوئی رول رہا ہے۔خود ہمارے ملک میں اخبارات کی سرخیاں بتا رہی ہیں کہ گزشتہ سال یعنی 2022میں 20سال میں پہلی بار سب سے زیادہ سزائے موت کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق منشور کے دوسرے پروٹوکال (1989) میںبھی سزائے موت ختم کرنے کی بات کہی گئی ہے اور کچھ ممالک نے یہ سزا ختم کربھی دی ہے اور جن ممالک نے یہ سزا ختم نہیں کی، وہ بھی یہ سزا شاذونادر ہی دیتے ہیں۔اس کے علاوہ موت کی سزا کے خاتمے کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بہت سے معاملات میں جب تک معتبر چشم دید گواہان کی ایک مخصوص تعداد موجود نہ ہو تب تک سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح بہت سی ایسی سازشیں بھی ہوتی ہیں جن میں کسی شخص کے ملوث ہونے کے بارے میں محض قیاس آرائی کرلی جاتی ہے جبکہ اس طرح کی قیاس آرائی کے لیے قابل اعتماد شواہد موجود نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سزائے موت کی صورت میں انسان ایک دفعہ مرتا ہے لیکن اگر عمرقید کی سزا دی جائے تو وہ سزائے موت سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوگی۔ جب جب بھی اس کے قریبی رشتہ داروں اوردوستوں کے یہاں کسی تقریب کا انعقاد ہوگا اور خاص کر، اگر وہ شادی شدہ ہے اور اس کے بچے ہیںتوجب جب اس کے اپنے بچے جوان ہوںگے اور ان کی شادیاں ہوںگی تو وہ قید میں رہتے ہوئے تڑپ تڑپ کر ہرروزموت کا سامناکرے گا اور اگر وہ چند روز کے لیے پیرول پر جیل سے باہر آ بھی جائے گا تو بھی اس مختصر مدت کے بعد جب وہ دوبارہ جیل میں واپس جائے گا تواس کی نم آنکھیں اور مجموعی طبعی صورت حال یقینی طور پر قابل رحم ہوگی اور اسے اس بات کا احساس ہوگا کہ کاش میں ایسا کام نہیں کرتا جس کے لیے میں آج یہ سزا بھگت رہا ہوں! ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان لوگوں کو سماج سے علیحدہ کرکے ایک اچھا شہری بھی بنایا جاسکتا ہے۔ سزائے موت دینے کے معاملے میں جو سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی بدعنوانی اور چشم دید گواہان نہ ملنے کے باعث اس بات کا فیصلہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے کہ موت کی سزا دی جائے یا نہیں اور ہمیشہ اس بات کا خدشہ بنا رہتا ہے کہ کہیں کسی بے گناہ کو پھانسی کی سزا نہ دے دی جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجرمین کو پھانسی کی سزا دینے کے معاملے میںاصلاحی اصول اپنایا جانا چاہیے نہ کہ انتقامی ومکافاتی۔
دریں صورت پھانسی کی سزا کا حکم صرف ایسی صورت میں ہی دیا جانا چاہیے جب صورت حال اتنی واضح ہوکہ جس کے بارے میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو اور ایک یا دو گواہ کیا کافی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہوں جو اس جرم کے راست گواہ ہوں۔ امریکہ جیسے ملک میں جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، وہاں پر بھی کتنے ہی معاملات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کچھ بے گناہوں کو موت کی سزا دینے کا حکم غلط تھا اور یہاں تک کہ امریکی عدلیاتی نظام جسے دنیا کا بہترین نظام سمجھا جاتا ہے وہاں پر بھی ’10 Infamous Cases of Wrongful Execution‘ کے نام سے موسوم یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ امریکہ میں بھی ایک طویل عرصے سے وقتاً فوقتاً بے گناہ لوگوں کو پھانسی دی جاتی رہی ہے۔
اگرچہ عدالتیں بھی سول سوسائٹی میں ہونے والی ہلچل اور اپنے ذاتی رجحانات سے متاثر ہوتی ہیں مگر پھر بھی عدالتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ فیصلہ دینے کے معاملے میں مکمل طور پر معروضی سوچ کا مظاہرہ کریںگی اور ان کے بارے میں ہرگز ہر گزیہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ارادتاً خلاف قانون کوئی فیصلہ صادر کر یں گی یا یہ کہ ان کے فیصلے ان کے ذاتی رجحانات سے متاثر ہوںگے۔ان کے لیے ہر حالت میںقانون کا احترام اور پاسداری لازمی ہے۔البتہ کوئی بھی ایسا شخص جس نے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے، ملک کو کمزور کرنے اور فرقہ وارانہ صورت حال بگاڑنے کی نیت سے شدید، کم شدید یا معمولی نوعیت کا بھی کوئی جرم کیا ہوتواسے لازمی طور پر سزا ملنی ہی چاہیے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS