مولانامحمدطارق نعمان
خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی للہ عنہ،خسر رسول ؐکا اسم مبارک عمر اور لقب فاروق ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا خاندانی شجرہ آٹھویں پشت میں حضور اکرم سے ملتا ہے۔ آپ ؓکے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عتمہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بعد پوری امت میں آپ کا مرتبہ سب سے افضل اور اعلی ہے۔ آپ ؓواقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے آپؓ عمر میں تقریبا گیارہ سال حضور اکرمؐ سے چھوٹے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ ؓقریش کے باعزت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اعلان نبوت کے چھ سال بعد آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپؓ مراد رسول ہیں یعنی حضور اکرم ؐنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کی اے پروردگار !عمر یا ابوجہل میں جو تجھے پیارا ہو اس سے اسلام کو عزت وطاقت عطا فرما۔ دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور آپ ؓمشرف باسلام ہو گئے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے39 مرد اسلام قبول کر چکے تھے آپ 40ویں مسلمان مرد تھے۔ آپ ؓکے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی اور انہیں حوصلہ ملا۔ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں کہ جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی مگر حضرت عمر ؓمسلح ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداوں کو للکارا اور فرمایا کہ جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے۔ حضرت عمر کی زبان سے نکلنے والے الفاظوں سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور کوئی مد مقابل نہ آیا۔ ہجرت کے بعد آپ ؓنے جان و مال سے اسلام کی خوب خدمت کی۔ آپ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ آپؓ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم کے رفیق رہے۔
فضائل ومناقب:سید نافاروق اعظم ؓ کامقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ کی فضیلت میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ سرکار دو عالمؐ کا ارشاد گرامی ہے۔ ترجمہ :۔ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (مشکوٰۃ شریف)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوا کہ حضور اکرم آخری نبی ہیں۔ آپ پر نبوت و رسالت ختم ہو چکی۔ اب قیامت تک کوئی بھی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ جو اس واضح حقیقت کے باوجود دعوی نبوت کرے وہ ملعون کذاب کافر و مرتد ہے۔ مذکورہ حدیث سے حضرت عمر فاروق کے مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر حضور پر نبوت ختم نہ ہوتی تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروق نبی ہوتے۔ حضور اکرم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا۔ بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ (مشکوٰ ۃشریف)
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ؐنے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرما دیا۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق اسلام لائے تو حضرت جبرائیل حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ !آسمان والے عمر کے اسلام پر خوش ہوئے ہیں۔
سیدنا حضرت عمر فاروق کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئیں۔
تاریخ خلفاء میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کسی معاملہ میں کوئی مشورہ دیتے تو قرآن مجید کی آیتیں آپ کے مشورے کے مطابق نازل ہوتیں۔ایک مرتبہ سرور کونین ؐجبل احد پر تشریف لے گئے اس موقع پر پہاڑ میں کچھ حرکت سی پیدا ہوئی تو آپ ؐ نے فرمایا اے احد ٹھہر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ؐ،ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
خلیفہ سیدنا فاروق اعظم کو اسلام میں اعلی مقام حاصل ہے ۔آپ ؓکے سنہرے کارناموں سے تاریخ اسلام کا چہرہ دمک رہاہے عدل و انصاف کے باب میں آپ کا کوئی ثانی نہیں آپ ؓکے عالی اطوار ، شاندار کردار اور قابل رشک اسوہ حسنہ سے غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپؓ کی شان اقدس میں چالیس سے زائد احادیث رسول ؐ موجود ہیں آپؓ کو سسر رسول ؐہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔آپ کے عقد میں آنحضرت ؐ کی نواسی اور سیدنا علی المرتضی ؓ،فاتح خیبر کی صاحبزادی حضرت ا م کلثومؓ بھی آئیں اس لئے آپ کو خسر رسول ؐ اور داماد علی المرتضی ؓ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں ہوتے تھے، سفر کے دوران نیند کے وقت زمین پر اینٹ کا تکیہ بنا کر سو جایا کرتے تھے، آپ ؓکے کرتے پر کئی پیوند رہا کرتے تھے، آپؓ موٹا کھردرا کپڑا پہنا کرتے تھے اور آپ کو باریک ملایم کپڑے سے نفرت تھی آپ ؓجب بھی کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو تاکید کرتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا آپ ؓفرماتے تھے کہ عادل حکمران بے خوف ہو کر سوتا ہے آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھا عمر !نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے
آپؓ فرماتے ظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے کے برابر ہے اور آپ کا یہ فقرہ آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے چارٹر کا درجہ رکھتا ہے کہ ‘ مائیں اپنے بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا؟ آپ ؓکے عدل کی وجہ سے رسول اللہؐ نے آپ کو ’’فاروق‘‘کا لقب دیا اور آج دنیا میں عدل فاروقی ایک مثال بن گیا ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت مقروض تھے ، وصیت کے مطابق آپ کا مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کیا گیا۔
آپ ؓ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے ۔فرمایاکرتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمرسے اس بارے میں پوچھ ہو گی ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو ایسے ایسے نظام دیے جو آج تک تک کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہیں دینی فیصلوں میں آپ نے فجر کی اذان میںالصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ فرمایا، آپ کے عہد میں با قاعدہ تراویح کا سلسلہ شروع ہوا، شراب نوشی کی سزا مقرر ہوئی اور آپ نے سنہ ہجری کا آغاز کروایا، مئوذنوں کی تنخواہ مقرر کی اور تمام مسجدوں میں روشنی کا بندوبست فرمایا – دنیاوی فیصلوں میں آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام تشکیل دیا اور جیل کا تصور دیا، آبپاشی کا نظام بنایا، فوجی چھائونیاں بنوائیں اور فوج کا با قاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپؓ نے دنیا بھر میں پہلی مرتبہ دودھ پیتے بچوں، بیواؤں اور معذوروں کے لئے وظائف مقرر کئے ۔
شہادتِ حضرت عمر فاروق ؓ: صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا۔ اس کا نام ابو لولو تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓکے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المئومنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بری طرح زخمی ہو گئے اور یکم محرم الحرام کودس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی تدفین حضرت عائشہ ؓکی اجازت سے حضور ؐکے پہلومیںہوئی۔ آپ کی نمازجنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔آج امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ روضہ رسول میں آنحضرت ؐ کے پہلو مبارک میں مدفون ہیں۔