صدقہ کرنے کے فائدے

0

ابونصر فاروق

صدقہ کہتے ہیں سچ کر دکھانے کو۔ آدمی دنیا کے سامنے جب کوئی بات کہتا ہے تو اُس وقت تک وہ صرف بات ہوتی ہے جب تک اُس پر عمل کر کے نہ دکھایا جائے۔قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں وہ اللہ سے انتہائی شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘ساری دنیا جانتی ہے کہ محبت قربانی چاہتی ہے۔ محبت کرنے والا اپنے محبوب کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔ وطن سے محبت کرنے والے اپنے وطن کے لئے جان دیتے ہیں۔ دولت کو خدا سمجھنے والے دولت کی حفاظت کے لئے اپنی جان دے کر دولت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ماں اپنے بچے سے بے انتہا محبت کرتی ہے اور وہ اپنے بچے کی زندگی کے لئے اپنی جان دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ انسان ہو یا حیوان۔ اسی طرح جو ایمان والے اللہ سے سچی محبت کرتے ہیں وہ اللہ کے حکم پر اپنا مال پوری خوش دلی اور مکمل آمادگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں خر چ کرتے ہیں۔ اسی کو شریعت کی اصطلاح میں صدقہ کہا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ بھی کہتا ہے کہ ’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے ہو جب تک کہ اپنا محبوب مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ (آل عمران:۹۲)یعنی جو آدمی اللہ کی راہ میںمحتاج مجبور و معذور بندوں پر خرچ نہیں کرتا وہ نیک ہو ہی نہیں سکتا ہے، چاہے کتنا بڑا نمازی ہو اور اُس نے کتنی بار حج کر لیا ہو۔صدقہ جب اتنا بڑا عمل ہے تو اس کا اجر و انعام بھی تمام عبادتوں میں سب سے بڑھ چڑھ کر اور زیادہ ہے۔ قرآن میں صدقہ کرنے کا حکم شروع سے آخر تک بھرا پڑا ہے۔
صدقہ کے متعلق اللہ اور پیارے نبی ؐ کے ا ن احکام کو پڑھئے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو جو کچھ مال و متاع ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کاطریقہ اپناتے ہیں۔ (البقرہ: ۲۵۴) قیامت کے دن ہر آدمی کو اپنی فکر لگی ہوئی ہوگی کہ کیسے جہنم کی آگ سے خود کو بچائے۔ اُس نے جو مال دنیا میں جمع کررکھا تھا وہ اُسے دنیا میں چھوڑ آیا۔ یہاں وہ مال اُس کے پاس ہے ہی نہیں کہ اُس سے وہ اپنے لئے جنت خرید سکے۔ دنیا میں اُس کے جتنے دوست تھے وہ سب اُس کو پہچاننے سے بھی انکار کر رہے ہیں، کیونکہ اُن کو ڈر ہے کہ کہیں اُس کی دوستی کی وجہ سے وہ بھی جہنم میں نہ چلے جائیں۔ اُس کے سارے دوست وہاں اُسے بھول جائیں گے اور اُس کے گناہوں کے سبب کوئی اُس کی سفارش کرنے والا بھی نہیں ہوگا۔ سنگین بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہیں کرتے ہیں ان کو ظالم اور کفر کرنے والا کہا جارہا ہے۔
اے ایمان لانے والو اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال صرف لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ آخرت پر۔ (البقرہ)
حضرت عقبہؓ بن عامرؓ کہتے ہیں،میں نے سنا رسول اللہؐ فرمارہے تھے : قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک بندہ اپنے صدقہ کے سائے میں رہے گا۔حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہؐ نے فرمایا:انسان مرجاتا ہے تو اُس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتاہے مگر صدقہ جاریہ، نفع پہنچانے والے علم یا نیک اولاد جو والدین کے لئے دعا کرے۔حضرت سلمان بن عامرؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہؐنے فرمایا:غریب اور محتاج کو خیرات دینے پر صدقہ کا اجر ہے اور رشتہ دارو کو خیرات دینے پر صدقہ کرنے کا اجر ہے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب بھی۔ر سول اللہؐکی وہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ’’مال کی لالچ اور ایمان دونوں کسی بندے کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ہیں۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہؐنے فرمایا:خدا کی راہ میں دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور جب کوئی بندہ مال دینے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو سائل کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے۔ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:جوآدمی اپنے بھائی کی ضرورت کے وقت اس کے کام آئے گا، اللہ اس کی ضرورت کے وقت اُس کے کام آئے گا۔اس حدیث میں کتنی قیمتی بات کہی جا رہی ہے کہ جو آدمی اللہ کے محتاج بندے کی مدد کرے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ اُس مدد کرنے والے کی مدد کرنا فرض کرلے گا۔ اللہ کی مدد انسانوں کے مقابلے میں کتنی شاندار ہوگی اس کا اندازہ کوئی ایمان والا ہی کر سکتا ہے۔
غور فرمائیے جو مسلمان اپنی آمدنی کا بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اُس کی کاشتکاری یا کاروبار یا کارخانے کی حفاظت اور ترقی کا انتظام اللہ تعالیٰ غیب سے کرتا ہے۔ آج کا مسلمان اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ دنیا کے اسباب اور طور طریقے پر ایمان و یقین رکھتا ہے کہ جس کے ذریعہ اُس کے مال کی حفاظت اور ترقی ہوگی۔ جبکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
کا ش آج کا نادان مسلمان یہ بات سمجھتا اور اس پر عمل کرتا کہ اصل حکومت اور طاقت اللہ کے پاس ہے۔ وہ جب اپنے کسی بندے کو دنیا میں سرفراز اور کامیاب کرنا چاہتا ہے تو غیب سے اُس کے لئے اسباب مہیا کر دیتا ہے۔ اور جس نافرمان بندے سے ناراض ہو جاتا ہے تو دنیا میں اُس کو سب کچھ دے کر بھی سچی خوشی، دل و دماغ کے سکون اورامن چین سے محروم کر دیتا ہے۔اور اُس بد نصیب کی محرومی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ اُس کو دنیا کی کسی لذت میں مزا ملتا ہی نہیں۔ ہر لطف و لذت سے اُس کا دل او ب چکا ہوتا ہے۔ او ر آخر میں تنگ آ کر وہ بد نصیب خود کشی کر لیتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS