کیرالہ سب سے امیر بہار سب سے غریب

ہندی بیلٹ کی پانچ ریاستوں میں سب سے زیادہ غربت

0

عبیداللّٰہ ناصر

ملک خاص کر ہماری ہندی بیلٹ سیاست ہی نہیں صحافت بھی ذات برادری اور فرقہ پرستی کے مکڑ جال میں کچھ ایسی الجھی ہوئی ہے کہ ہم معاشی اور سماجی طور سے تباہی کے کس دہانہ پر کھڑے ہیں، اس کی ہمیں نظیر نہیں ملتی اور ہم زیادہ فکر بھی نہیں کرتے۔ حکومت ہند فخریہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے 80کروڑ لوگوں کو مفت اناج دیا، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ فخر کی بات ہے یا شرم کی۔ 130کروڑ کی آبادی والے ملک میں اگر80کروڑ مفت اناج پانے کے مستحق ہیں تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت کس مقام پر پہنچ چکی ہے۔ یہی نہیں گزشتہ دنوں اپوزیشن کی کسی پارٹی یا کسی لیڈر نے نہیں بلکہ خود حکومت ہند کے ادارہ نیتی آیوگ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ملک کی غریب ترین پانچ ریاستوں میں ہندی بیلٹ کی ہی ریاستیں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بہار میں 52فیصد آبادی غریب ہے، جھارکھنڈ میں 42فیصد، اترپردیش میں38فیصد، مدھیہ پردیش میں 37فیصد اور میگھالیہ میں 33فیصد آبادی غریب ہے، اس کے مقابلہ کیرالہ میں اعشاریہ 71فیصد، گوا اور سکم میں تقریباً 4فیصد، تمل ناڈو میں 5فیصد اور پنجاب میں 6فیصد آبادی غریب ہے۔غور کیجیے تو سمجھ سکیںگے کہ سب سے زیادہ غریب ریاستو ں میں وہ ریاستیں ہی شامل ہیں جہاں حکومتوں کا انتخاب عوام اپنے مسائل حل کرنے، اپنے لیے بہتر زندگی اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے نہیں، بلکہ اپنی ذات اور اپنے مذہب کی بالادستی قائم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔یہ بھی سمجھ سکیںگے کہ ان میں سے زیادہ تر میں ڈبل انجن والی سرکاریں ہیں یعنی مرکز اور ریاستوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے ۔
نیتی آیوگ کی جانب سے جاری کی گئی پہلی ملٹی پاورٹی انڈیکس رپورٹ جہاں الگ الگ ریاستوں کے حالات کا احاطہ کرتی ہے، وہیں پالیسی سازوں کے لیے ایک بہتر پیمانہ بھی فراہم کرتی ہے۔ آیوگ کی مذکورہ رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ جن ریاستوں میں فروعی مسائل مذہب اور ذات برادری کی بالادستی قائم کرنے کی خواہش کے بجائے اپنی بہتر زندگی اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کو مد نظر رکھ کر عوام اپنی حکومت منتخب کرتے ہیں، وہاں عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے حکومتوں نے بہترین کام کیا ہے جبکہ ذات برادری اور مذہب کے مکڑ جال میں الجھی ریاستیں اور وہاں کی حکومتیں اس معاملہ میں پھسڈی رہیں۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ غلطی، کمزوری اور خامی ان حکومتوں کی نہیں بلکہ ان ریاستوں کے عوام کی ہے۔جب آپ بہتر معیار زندگی، بہتر تعلیمی اداروں، جدید ترین اسپتالوں اور زندگی کی دیگر ضروریات کوخارج کرتے ہوے مندر مسجد کے لیے ووٹ دیں گے، آپ کے سامنے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے بجائے آپ کے مذہب اور ذات کی بالادستی قائم کرنا زیادہ اہم ہے توآپ وہی سب حاصل کر کے خوش رہیے، آپ کی صحت پر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ کی ریاست کی نصف سے زیادہ آبادی اب بھی غریب ہے اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
عام طور سے کسی ریاست میں سرمایہ کاری اور فی کس آمدنی کے پیمانہ سے غربت کی سطح کا اندازہ لگایا جاتا رہا ہے لیکن نیتی آیوگ نے اس کے لیے ایک خاص پیمانہ طے کیا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ مختلف سرکاروں کی جانب سے شروع کی گئی اسکیموں اور پالیسیوں کا زمینی سطح پر کیا اثر پڑا ہے اور ان ریاستوں نے ان پالیسیوں اور پروگراموں میں عمل پر جو رقم خرچ کی ہے، وہ عوام کے کس حد تک مفاد میں رہی ہے اور ان کی زندگی میں کتنا اور کیسا بدلاؤ آیا ہے، ان کا معیار زندگی کتنا بلند ہوا ہے، اس معاملہ میں یہ ایک نیا اور بہت اہم پیمانہ ہے۔ملٹی ڈائی مینشنل پاورٹی انڈیکس عمومی اہمیت کے تین فیکٹر صحت، تعلیم اور معیار زندگی کی بنیادی صورت حال کا جائزہ لیتا ہے اور اس کے 12انڈیکٹر س کا استعمال کرتا ہے۔ یہ محض خط افلاس کی بنیاد پر غربت کی سطح ناپنے کے روایتی فارمولہ سے الگ ہے اور 2015میں تقریباً193 ملکوں میں نافذ کیے گئے فارمولہ اور طریق کار کے مطابق ہے جسے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گول کا نام دیا گیا تھا ۔
نیتی آیوگ کی اس رپورٹ کے لیے اعداد و شمار قومی خاندانی حفظان صحت سروے(این ایف ایچ ایس) کی2015-16 کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں زمینی حقیقت میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوئی ہوگی، ایسا سوچنا ہی فضول ہے لیکن نیتی آیوگ نے واضح کیا ہے کہ مذکورہ سروے کی تازہ ترین رپورٹ دستیاب ہونے کے بعد ایم پی آئی کی دوسری رپورٹ تیار کی جائے گی اور اس میں اس دوران ہوئی پیش رفت کا احاطہ کر لیا جائے گا۔۔۔ لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوگا کہ وہ اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کو نیتی آیوگ کی کسوٹی پر کھرا اتاریں، اس کے لیے فروعی مسائل میں الجھنے کے بجاے حکمرانی کے اصل معیار پر کھرا اترنا ہوگا، محض اعداد و شمار کی بازیگری، لفاظی اور اشتہار بازی پر کھربوں روپیہ خرچ کر دینے سے زمینی حقائق نہیں تبدیل ہو سکتے۔ بات چاہے سرمایہ کاری کی ہو یا مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) میں اضافہ کی، اصل پیمانہ عوام کو ملنے والی سہولیات اور ان کے معیار زندگی میں آئی بہتر تبدیلی ہی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کے کاموں کو ایسے ہی پیمانوں پر کسا جائے۔
ویسے تو حکومت معیشت میں تیز رفتاری کے دعوے کر رہی ہے، اس کا کہنا ہے کہ معیشت کورونا کی تباہ کاری سے نہ صرف ابھر رہی ہے بلکہ رفتار بھی پکڑ رہی ہے۔ عوام نے خریداریاں شروع کر دی ہیں اور رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 8.40فیصد رہی حالانکہ اسے بہت اچھا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ 20.10فیصد تھی پھر بھی مسلسل چوتھی سہ ماہی میں مثبت حلقہ میں رہنا اچھا اشارہ تو ہے ہی۔ وزارت مالیات کے خصوصی مشیر کے وی سبرا منیم کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے اور رواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح دو ہندسوں میں جا سکتی ہے۔
نہ صرف جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے بلکہ جی ایس ٹی کلیکشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے بتایا ہے کہ نومبر میں اس مد میں ایک لاکھ 31ہزار 526کروڑ روپے جمع ہوئے جو 2017میں جی ایس ٹی لاگو ہونے کے بعد دوسرا سب سے بڑا کلیکشن ہے جبکہ سب سے بڑی وصولی اس سال اپریل میں ایک لاکھ 41ہزارکروڑ روپے کی ہوئی تھی۔
لیکن اہم سوال یہی ہے کہ بے روزگاری کی شرح کیوں بڑھتی جا رہی ہے، کیا سماج کے ہر طبقہ کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے ویسے تو ایک ’’دھنا سیٹھ‘‘کو پچھاڑ کر دوسرا دھنا سیٹھ دنیا کے امیر ترین لوگوں کے گروپ میں شامل ہو گیا ہے لیکن کیا اسے ملکی معیشت میں سدھار سمجھا جا سکتا ہے۔ایک طرف بے روزگاروں کی بڑھتی فوج ہے، دوسری طرف اشیائے ضروری کی آسمان چھوتی قیمتیں، تیسری طرف اندھا دھند فروخت ہو رہی عوامی زمرہ کی کمپنیاں اور چوتھی طرف زرعی زمرہ کی پریشانیاں، ان سب پر اگر سنجیدگی اور ایمانداری سے غور کیا جائے تو حکومت کے دعوے کھوکھلے اور اعداد و شمار بازیگری ہی معلوم پڑتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS