عبیداللّٰہ ناصر
حکومت ہند نے کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج ہٹانے کا ایک قابل تعریف فیصلہ کیا ہے۔کشمیری عوام کا دل جیتنے کی جانب اس سے اہم اور مثبت قدم اس سے قبل کبھی نہیں اٹھایا گیا کیونکہ فوج وہاں بھلے ہی بہت سخت حالات میں اپنا فرض اداکررہی تھی اور دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے ہندوستان کے سیکڑوں جواں شہید ہو گئے لیکن اگر کسی کے سر پر ہمہ وقت بندوق لیے سپاہی کھڑا ہو تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی، یہ سمجھا جاسکتا ہے۔کشمیری عوام گزشتہ30-35 برسوں سے اسی کربناک حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کی پر سکون زندگی پاکستانی فوج اور رسوا زمانہ آئی ایس آئی کی مجرمانہ ظالمانہ اور غیر انسانی سازشوں اور ہندوستان کو ہزار زخم دینے کی پا لیسی کے چلتے جہنم بن گئی تھی۔ ان برسوں میں کشمیری عوام نے جو جھیلا، جن اذیتوں سے گزرے جو قربانیاں دیں، وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہوگئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہاں تعینات فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کے جوانوں نے بھی ہندوستان کے اتحاد، سلامتی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے مثالی قربانیاں پیش کیں لیکن اتنے لمبے وقفے کی تعیناتی میں عوام اور فوج کے درمیان دوریاں اتنی بڑھ گئیں کہ عام کشمیری ہندوستانی فوج کو ایک غاصب فوج سمجھنے لگا حالانکہ فوج اور عوام کے بیچ کی دوری کم کرنے کے لیے فوج نے کئی مہم چلائی لیکن مجبوریاں دونوں طرف رہیں اور کھائی بڑھتی گئی۔
آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی کوششوں سے کشمیر کے حالات کافی سدھر گئے تھے، ان کے بعد منموہن سنگھ کی حکومت میں بھی وہی پالیسی جاری رکھی گئی جس کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔ کشمیر میں معمولات زندگی بحال ہونے لگے تھے۔ سیاحت جو کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ پورے زور شور سے پھل پھول رہی تھی۔ فلم سازوں کے لیے کشمیر ہمیشہ سے پسندیدہ لوکیشن رہی ہے، فلم نگری ادھر کا رخ کرنے لگی تھی، ان حالات میں اس وقت کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کیا لیکن تب بی جے پی نے اس کے خلاف سب سے زیادہ شور مچایا تھا اور سیکورٹی کا حوالہ دے کر حکومت کو یہ خطرناک قدم نہ اٹھانے پر زور ڈالا تھا۔ فوج بھی اس کے لیے رضامند نہیں تھی، اس لیے عمرعبداللہ کا مطالبہ منظور نہیں کیا گیا تھا۔خوشی کی بات ہے کہ آج بنا کسی مطالبہ کے ہی مودی سرکار نے کشمیر سے فوج ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امید ہے فوج اور سیکورٹی ماہرین سے اس پر گہرائی سے صلاح مشورہ اور غور و خوص کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ حکومت کا یہ دعویٰ بھی خوش آئند ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردانہ واقعات بھی کم ہونے لگے ہیں۔امید ہے پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی جانب بھی ٹھوس مثبت قدم اٹھائے جائیں گے کیونکہ پاکستان کشمیر میں شرارت روک دے تو وہاں مکمل امن قائم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔کشمیر میں معمولات زندگی واپس آئیں، سرحد پرامن ہو اور سیکورٹی پر جو کھربوں کھرب روپے خرچ ہوتے ہیں وہ بچیں اور انہیں ترقیاتی کاموں اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے پر خرچ کیا جائے، اس سے خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ قتل و خون وغارت گری کا جو شیطانی عمل چل رہا ہے، وہ رکے۔ کسی ماں کی گود نہ اجڑے، کسی بہن بیٹی کا سہاگ نہ لٹے، بہنیں بھائیوں کی کلائی پر راکھی باندھنے کو نہ ترسیں، انسانیت کی اس سے بڑی معراج اور کیا ہو سکتی ہے۔ہر خون ناحق، چاہے وہ کسی فوجی کا ہو یا کسی عام انسان کا، انسانیت پر دھبہ ہوتا ہے۔اے کاش یہ سلسلہ رک جائے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے، بھلے ہی اسے حکومت اور بھکت عوام نہ تسلیم کریں کہ مودی حکومت نے آپریشن لوٹس کے تحت کشمیر میں جو کچھ کیا، اس کے حصہ بخرے کیے، اس سے ریاست کا درجہ چھینا، اس کو ملنے والے آئینی تحفظ یعنی دفعہ 370 اور35اے ختم کرکے سیکورٹی اور سخت کر دی، اس سے وہاں کے عوام کے دلوں میں دوری اور بڑھی۔آج بھی کشمیری عوام پر ان کی منتخب حکومت نہیں بلکہ دہلی سے بھیجا گیا لیفٹیننٹ گورنر حکومت کرتا ہے۔ وہاں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اسمبلی حلقوں کی ایسی حلقہ بندی کی گئی ہے جس کا فرقہ وارانہ بنیاد پر بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکے۔ مودی حکومت کی ان کارروائیوں سے ہندوستان بھر خاص کر ہندی پٹی میں بی جے پی کو سیاسی فائدہ بھلے ہی ملا ہو لیکن کشمیری عوام کے جذبات مشتعل ہیں، بندوق کے بل پر انہیں خاموش بھلے ہی کر دیا جائے لیکن ایک لاوا اندر ہی اندر سلگ رہا تھا، حکومت کو شاید اس لاوے کی حدت کا احساس ہوگیا اور اس نے اس جانب ایک بڑا اور مثبت قدم اٹھا لیا۔ کشمیر کے لوگوں پر اس کا یقینی طور سے اچھا ردعمل سامنے آئے گا لیکن چناب میں ابھی بھی شورش ہے، اس کو سمجھنا ہی نہیں ہوگا بلکہ اس کا سدبا ب بھی کرنا ہوگا۔ دفعہ370 ہٹائے جانے کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاچکا ہے جس پر عدالت عا لیہ نے ابھی شاید ابتدائی سماعت بھی نہیں شروع کی ہے، بہتر ہوگا سپریم کورٹ پوری ایمانداری سے اس معاملہ کو آئین کی روشنی میں ہمیشہ کے لیے حل کر دے تاکہ بے یقینی کی صورت حال ختم ہو۔
مبصرین اور سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج ہٹانے کے منصوبے کی دو اہم وجوہات ہیں، اول فوج کی سخت کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوگئے ہیں، دوسرے پاکستان کی تباہ معیشت اور سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے انہیں وہاں سے اب وہ سپورٹ نہیں مل پا رہا ہے جس کے دم پر وہ کشمیر میں اپنی شیطانی حرکتیں کرتے تھے۔ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کو لے کر امریکہ اور یوروپی ملکوں میں ہندوستان کی پوزیشن کمزور ہو رہی تھی، ایسے میں اسے جی20کی صدارت مل گئی جس کااجلاس بھی اس سال کے اواخر میں ہوگا۔حکومت کشمیر سے فوج ہٹا کر اور وہاں انتخابات کراکے دنیا کے سامنے اپنی پوزیشن بھی بہتر کرنا چاہتی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج ہٹا کے حکومت کشمیری عوام کو ایک مثبت پیغام ہی نہیں دے گی بلکہ کشمیر میں سیکورٹی پر تقریباً100کرو ڑ روپے یومیہ خرچ ہوتا ہے جو سرکاری خزانہ پر ایک زبردست بوجھ ہے، فوج ہٹا کر یہ خرچ بھی کافی کم کیا جا سکتا ہے۔ منصوبہ کے مطابق کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج ہٹا کر اس کی جگہ نیم فوجی دستوں کی ٹکڑیاں تعینات کی جائیں گی اور کشمیر پولیس کی بھی مزید مضبوط اور بہتر تربیت کی جائے گی تاکہ وہ دہشت گردوں سے اسی صلاحیت سے نمٹ سکے جیسے فوج نمٹتی رہی ہے ۔
کشمیر کے عوام کا دل جیت کر ہی وہاں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور سماج کے سبھی طبقوں کو ایمانداری سے سوچنا ہوگا کہ جن کشمیریوں نے کبھی پاکستانی فوج کا لاٹھی ڈنڈوں سے مقابلہ کر کے کئی دنوں تک انہیں روکے رکھا تھا، وہ پاکستان کے بہکاوے میں کیسے آگئے، اس کے لیے خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ حکومت دیر سے ہی سہی ایک صحیح اور مثبت قدم اٹھانے جا رہی ہے، کشمیر میں قیام امن کے لیے اسے سیاسی فائدہ سے زیادہ قومی مفاد مد نظر رکھنا ہوگا۔ یاد کیجیے آسام میں قیام امن کے لیے راجیو گاندھی نے اپنی ریاستی حکومت قربان کر کے الیکشن اور آسام اسٹوڈنٹ یونین کو جیت جانے دیا تاکہ وہ امن کی راہ ہموار کرسکے۔ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے قربانی تو دینی ہی پڑتی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]