افسانہ: وظیفہ

0

حسیب جاوید
مشراجی اور ان کی دھرم پتنی پونم مشرا ایک عرصہ بعد بھرت پور جانے والے تھے۔ بھرت پور میں پونم جی کے ایک کزن کی بیٹی کی شادی تھی۔ بھرت پور سے پچاس کلومیٹر پہلے راستے میں مرشدآباد پڑتا تھا۔ مشراجی کو مرشدآباد بھی جانا تھا۔ طے یہ ہوا کہ مرشدآباد سے ہوتے ہوئے بھرت پور جائیں گے۔
مشرا جی اور پونم جی کچھ دن پہلے ہی دبئی سے واپس لوٹے تھے۔ دبئی میں ان کا بڑا لڑکا ونود ایک کمپنی میں اکاؤنٹنٹ تھا۔ وہ جب بھی دبئی جاتے، اپنی بہو اور پوتی کے ساتھ گلوبل ولیج ضرور جاتے۔ پونم جی پویلین سے اپنے لیے سوٹ ضرور خرید لیتیں اور مشراجی دوسرے پویلینس میں آفرس ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اپنے لیے کچھ ڈرائی فروٹس خرید لیتے۔ وہ ہمیشہ محتاط رہتے کہ اپنے بیٹے کی محنت کی کمائی کم سے کم خرچ ہو۔
مشراجی نے اپنی اکلوتی لڑکی کی شادی دلی کے ایک بزنس گھرانے میں کی تھی۔ داماد ایک کامیاب اور مصروف ترین بزنس مین تھے۔ مشراجی اور پونم جی سال میں دو بار دلی بھی ہو آتے اور وہاں پر اپنے دو نواسوں کے ساتھ خوب مستی کرتے۔
مشراجی کا چھوٹا بیٹا بھی کافی ہونہار لڑکا تھا۔ اس نے خود اپنے طور پر کوشش کی اور ماسٹرس کی پڑھائی کے لیے کینیڈا پہنچ گیا۔ اب پونم جی کو اسی مناسبت سے چھوٹی بہو ڈھونڈنی پڑے گی اور پھر ان کی کینیڈا کی سیر بھی شروع ہوجائے گی۔
مشرا جی اور پونم جی اپنے بچوں کے علاوہ رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی خوب ملاقاتیں کرتے رہتے ۔ ضرورت پڑنے پر ان کی مالی مدد بھی کردیتے۔ تیوہاروں اور تقریبات میں شامل ہوتے رہتے۔ غرض یہ کہ دونوں ہی گھومنے پھرنے کے عادی ہوچکے تھے، اور کیوں نہ ہوں گھر بیٹھے وظیفے کے پیسے کیا کرنے تھے؟
اس دن بھی مشراجی رومانی موڈ میں آگئے۔ وظیفے کے پیسے پونم جی کے ہاتھ میں رکھ کر کہنے لگے بتائیے مسز مشرا ان پیسوں کا کیا کریں؟ پونم جی نے بناوٹی ناراضگی جتائی، کہنے لگیں ریٹائرمنٹ تک بیوی کا خیال نہیں آیا۔ پیسے چھپا چھپا کر رکھتے تھے۔ اب بڑھاپے میں یاد آرہے ہیں پونم کے ہاتھ ۔ مشراجی نے دیوار پر ٹنگی فیملی فوٹو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ بھاگیاوان! تمہارے پتی نے اپنی ساری سرویس بچوں کے نام کردی تھی۔ ان کی پڑھائی اور شادی بیاہ میں ایک زندگی لگا دی۔ لیکن زندگی ابھی باقی ہے مسز مشرا۔ چلو اب یہ باقی زندگی تمہارے نام۔ اب اس زندگی میں جو تم کو ہو پسند وہی کام کریں گے۔ پونم جی اپنی ہنسی نہ روک سکیں اور ہنس دیں پھر ہنستے ہنستے کہا۔ چلیے مسٹر سب سے پہلے یہ کام کیجیے کہ باہر جائیے۔ کسی اچھی سی ہوٹل سے ناشتہ لے آئیے اور آتے آتے میرے جو سوٹ استری کے لیے دیے ہیں وہ بھی لیتے آئیے۔ ناشتہ کرکے نکلتے ہیں۔ مشراجی اپنا رومانٹک موڈ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ جاتے جاتے وہ رکے، پلٹے اور کہا۔ مسز مشرا سوٹ تو بہت اچھے ہیں لیکن آپ ہندوستانی ساڑی میں اور بھی اچھی لگتی ہیں۔ پونم جی کھل کھلا اٹھیں اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوگئیں۔
کچھ دیر بعد مشراجی ناشتہ اور سوٹ کے ساتھ واپس پہنچے تو پونم جی نے چھیڑ خانی کرتے ہوئے پوچھا۔ اتنی دیر کیوں لگادی کہیں نکڑ کی مٹھائی کی دکان سے دو گلاب جامن تو نہیں کھالیے۔ مشرا جی نے پونم جی کو گھور کر دیکھا اور کہا۔ اب تو زندگی تمہارے نام کر چکے ہیں۔ اب گلاب جامن بیچ میں نہیں آسکتے۔ بہت گلاب جامن کھا چکے رحمت علی کے ساتھ۔
اوہ رحمت علی۔ اچانک مشراجی چونک پڑے۔ ارے پونم میرا فون کہاں ہے۔ میں نے ابھی تک اس ظالم رحمت علی کو فون نہیں کیا ہے۔ اسے اطلاع دیے بغیر ہم نہیں نکل سکتے ورنہ وہ چھوڑے گا نہیں مجھے۔ پونم جی فون ڈھونڈھ لائیں۔ مشرا جی نے پہلے مرشد آباد جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کمپنی سے کار بک کی اور پھر رحمت علی کا نمبر ملایا۔ اوئے مشرا! تم ابھی تک نہیں نکلے ہو۔ رحمت علی کی آواز گونجی میں نے تو تمہیں ناشتہ پر یہاں پہنچنے کو کہا تھا۔ مشرا جی نے بھی ڈانٹ پلائی۔ ارے ظالم تمہارا مرشد آباد یہاں سے دیڑھ سو کیلو میٹر دور ہے۔ ناشتہ پر کیسے پہنچیں گے سردی کے موسم میں۔ رحمت علی نے بدستور اونچی آواز لگائی۔ اوئے بہانے باز جلدی نکلو۔ بس نکلتے ہیں ہلکا سا ناشتہ کر کے۔ مشراجی نے رحمت علی کو تیقن دلاتے ہوئے کہا ہم لنچ تک تو پہنچ ہی جائیں گے تم بریانی کی تیاری شروع کردو۔ رحمت علی کی آواز کچھ ہلکی ہوئی۔ کہا کہ تمہاری بھابھی بریانی بنانے لگی ہیں جلدی نکلو ورنہ بریانی ٹھنڈی ہو جائےگی۔ پھر مشرا جی نے سرگوشی والے انداز میں کہا رحمت علی میں میٹھا نہیں کھاؤں گا۔ پونم نے منع کیا ہے۔ اؤے ڈرپوک حوالدار۔۔رحمت علی نے قہقہہ لگایا۔
مشرا جی اور پونم جی تیار ہو کر ناشتہ کی میز پر بیٹھ گئے۔ پونم جی نے پھر سے چٹکی لی۔ دوست کی ڈانٹ بہت کھالی۔ ناشتہ کے لیے جگہ بچی کہ نہیں۔ مشرا جی نے مسکراتے ہوئے ثبوت کے طور پر ناشتہ شروع کرتے ہوئے کہا۔ واقعی پونم رحمت علی کی ڈانٹ نے مجھے سنبھال رکھا تھا۔ آج ہماری زندگی میں سکون و اطمینان اور امن و شانتی ہے تو اس میں رحمت علی کے مفید مشوروں کا بڑا دخل ہے۔ میرے لیے یہ بہت اچھا ہوا کہ مرشدآباد پوسٹنگ کے بعد آفس میں مجھے اس جیسا ساتھی مل گیا اور ریٹائرمنٹ تک ہم دونوں ساتھ ساتھ رہے۔ اس بار پونم جی بھی کچھ سنجیدہ ہوئیں اور ہاں میں ہاں ملائیں، کہا یہ بات تو ہے۔ مشرا جی رحمت علی کو یاد کرتے رہے۔ پونم وہ ہمیشہ مجھے ٹوکتا اور سمجھاتا رہتا تھا۔ فضول خرچی نہ کرو۔ بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرو لیکن بچوں کو ایسے ہی نہ چھوڑو ان کی ضرورتیں پوری کرو لیکن انہیں کھینچ کر بھی رکھو۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرو لیکن انہیں مشکلات کا مزہ بھی چکھاؤ۔ پونم جی نے سنجیدگی کو توڑتے ہوئے مذاق کیا۔ اچھا تو آپ دوست کی باتوں میں آکر ہمارے بچوں کو تنگ کرتے رہے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے رہے۔ مشرا جی نے بھی سنجیدگی سے ابھرتے ہوئے جواب دیا۔ مسز مشرا! اسی سختی نے تو ہمارے بچوں کو مضبوطی عطا کی ہے اور آج وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں‘ اور میں نے کچھ زیادہ سختی نہیں کی لیکن وہ ظالم رحمت علی تو اپنے بچوں پر بڑا سخت تھا۔ اس نے تو اپنے بیٹوں سے کہہ رکھا تھا کہ جب تم بیس سال کے ہو جاؤ گے اس وقت گھر کا کھانا کھاؤ گے تو اس کے پیسے دوگے۔ میں نے اسے سمجھایا ارے ظالم آج کے زمانے میں بیس سال کے بچے پیسے کہاں سے کمائیں گے۔ تھوڑا وقت بڑھا دے۔ انہیں جد وجہد کی تھوڑی مہلت دے دے۔ میرے کہنے پر اس نے وہ مدت بیس سے بڑھا کر پچیس کر دی تھی۔
مشرا جی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔ پونم وہ بچوں کے علاوہ ہماری بھی بہت فکر کرتا تھا۔ مجھ سے کہتا تھا مشرا سروس رہنے تک بچوں کی ساری ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاؤ۔ وظیفہ پر صرف اپنا اور اپنی شریک حیات کا قبضہ رکھو تو باقی زندگی آرام سے کٹے گی۔ پونم جی کو پھر مذاق سوجھا۔ شریک حیات یعنی کہ دھرم پتنی۔ شریمان مشرا جی آپ رحمت علی صاحب کے کہنے پر آجکل اپنا وظیفہ اپنی شریک حیات کے قبضے میں دے رہے ہیں۔ اس بار مشراجی بھی ہنس پڑے اور بتانے لگے کہ رحمت علی نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے لیے ایک کار بھی خرید لی ہے۔
پونم جی نے رحمت علی کی بیگم کو یاد کیا۔ بھابھی بھی بہت اچھی ہیں۔ وہ بھی اکثر ہمارے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہتی ہیں۔ مجھے تو ان کے ہاتھ کی بنی بریانی بہت پسند ہے۔ جب بھی ہم ان کی ہاں جاتے ہیں، میری پسند کا خیال رکھ کر وہ بریانی ضرور بناتی ہیں۔ مشرا جی نے پونم جی کو یاد دلایا کہ بھابھی میٹھا بھی بہت اچھا بناتی ہیں۔ ان کی ڈرائی فروٹس کی کھیر تو بہت مزیدار ہوتی ہے۔ پونم جی نے پھر سے چٹکی لی۔ مسٹر آپ کھیر تو بھول ہی جائیے بریانی پر اکتفا کر لیجیے۔ مشرا جی نے اداس سی شکل بنا کر بناوٹی ناراضگی جتائی۔
مشرا جی اور پونم جی چائے کی چسکیاں لے ہی رہے تھے کہ مشرا جی کا فون بجنے لگا۔ ڈرائیور کا فون تھا۔ کار آچکی تھی۔ مشرا جی نے گھر مقفل کیا اور وہ دونوں سامان سمیت کار میں جا بیٹھے۔چند منٹوں بعد کار شہر کی ٹریفک کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ہائی وے پر دوڑنے لگی۔ سڑک کی دونوں جانب قطار میں کھڑے اونچے پیڑ اور ڈیوائیڈر میں لگی خوبصورت جھاڑیوں سے چھن کر آتی ہوئی دھوپ اور ہوا کے جھونکوں سے بڑا دلفریب منظر وجود میں آرہا تھا۔ کار رحمت علی کے شہر مرشد آباد کی طرف رواں دواں تھی۔ ڈرائیور نے کار کی رفتار بڑھائی تو مشرا جی نے منع کیا۔ وہ موسم کا لطف لے رہے تھے۔
پونم جی نے پھر سے رحمت علی کا ذکر چھیڑ دیا۔ پوچھنے لگیں کہ کیا وہ گلاب جامن کی کہانی ابھی تک چل رہی ہے۔مشرا جی نے جواب دیا ابھی کا پتہ نہیں لیکن ریٹائرمنٹ تک وہ کہانی چلتی رہی تھی۔ وہ پھر سے سنانے لگے کہ دراصل رحمت علی متوازن اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔ وہ واقعی اپنی عمر سے کم نظر آتا تھا۔
(جاری )
ایک بار آفس میں اس پر ہنسی مذاق کا سلسلہ چل رہا تھا۔ اسی وقت ایک اجنبی داخل ہوا۔ ہم سب نے رحمت علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس اجنبی سے پوچھ لیا کہ ذرا بتائیے ان صاحب کی عمر کیا ہوگی۔ اس وقت رحمت علی کی عمر لگ بھگ پچاس برس تھی۔ اس اجنبی نے رحمت علی کا بغور جائزہ لیا اور کہا کہ میرے خیال میں یہ پینتالیس کے آس پاس ہیں۔ آفس میں قہقہے بلند ہوئے۔ ایک اسٹاف نے مطالبہ کر دیا کہ رحمت علی کی طرف سے مٹھائی ملنی چاہیے۔ پھر کیا تھا رحمت علی قریب کی ہوٹل پہنچ گیا اور سب کے لیے گلاب جامن لے آیا۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جب بھی کوئی رحمت علی کی عمر کم بتاتا، گلاب جامن کی پارٹی ہو جاتی۔ پونم جی نے دلچسپی دکھاتے ہوئے پوچھ لیا کہ آخر مٹھائی میں گلاب جامن ہی کیوں؟ مشراجی نے راز کی بات بتادی۔ رحمت علی دل والا تھا لیکن کافی ہوشیار بھی تھا۔مٹھائی میں سب سے کم قیمت پر گلاب جامن دستیاب تھے تو وہ بس اسی پر رکا ہوا تھا۔
کار اسی خوشگوار ماحول میں گزرتی چلی جا رہی تھی۔ منزل قریب آرہی تھی۔ پونم جی نے رحمت علی کے بچوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں مشرا جی نے بتایا کہ بڑا لڑکا ایم بی اے ہے اور فیملی کے ساتھ جدہ میں مقیم ہے۔ رحمت علی نے اپنی اکلوتی لڑکی کی شادی رشتہ داری میں کی ہے۔ دوسرا لڑکا جو انجنیئر ہے گزشتہ سال ہی اس کی شادی ہوئی ہے اور وہ بھی شاید دبئی گیا ہوا ہے اور سب سے چھوٹے لڑکے کا پتہ نہیں وہ کیا کر رہا ہے۔
اس دوران مشرا جی نے محسوس کیا کہ ڈرائیور ان کی باتوں کو غور سے سن رہا ہے۔وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بھائی صاحب آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ ڈرائیور نے کارکی رفتار کچھ کم کی اور بتایا کہ میں بھی مرشدآباد کا رہنے والا ہوں۔ اچھا کیا تم رحمت علی کو جانتے ہو مشراجی نے دلچسپی سے سوال کیا۔ ڈرائیور نے کہا ہاں۔ تو مشرا جی خوش ہوگئے۔ پونم جی سے کہا دیکھو رحمت علی کو کون نہیں جانتا۔ پھر ڈرائیور سے مخاطب ہوئے۔ بھائی صاحب اسپیڈ بڑھا لو۔ ہمیں جلد سے جلد رحمت علی کے پاس پہنچا دو۔ دیر ہوگئی تو وہ اپنی کار لے کر سڑک پر آجائے گا۔ ڈرائیور نے جب اطلاع دی کہ رحمت علی کے پاس کار نہیں رہی تو مشرا جی حیران رہ گئے۔ اس نے بتایا کہ دوسرے لڑکے کو دبئی بھیجنے کے لیے رحمت علی نے اپنی کار بیچ دی تھی۔ مشرا جی خاموش ہو گئے۔ ڈرائیور نے آگے کہا کہ صاحب ان کے لڑکے نے اچھا نہیں کیا۔ دبئی میں کام کی سختی برداشت نہ کر سکا۔ چار مہینوں میں واپس آگیا اور باپ کا خسارہ کروا دیا۔ مشرا جی کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ انہوں نے جاننا چاہا کہ رحمت علی کا چھوٹا لڑکا کیا کر رہا ہے۔ ڈرائیورنے ایک پراسرار سی خاموشی اختیار کرلی۔
منزل قریب آگئی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ڈرائیور نے رحمت علی کے گھر کے آگے کار روک دی۔ کار کی آواز سن کر رحمت علی باہر نکل آیا اور مشراجی سے بغل گیر ہوگیا ۔ مشرا جی رحمت علی کی حالت دیکھ کر رنجیدہ ہوگئے۔ وہ کافی کمزور نظر آرہا تھا ۔
رحمت علی نے وقت ضائع کیے بغیر لنچ کا انتظام کر دیا۔ بریانی سے فارغ ہو کر پونم جی بھابھی جی کے ساتھ اندر مصروف ہو گئیں۔ رحمت علی اور مشرا جی ڈرائینگ روم میں آبیٹھے۔ رحمت علی لگاتار بولے جا رہا تھا۔ ادھر ادھر کے قصے سنا رہا تھا۔ مشرا جی نے بے چین ہوکر بیچ میں ٹوکا۔ دوسروں کی چھوڑو رحمت علی تم اپنی سناؤ۔ تم نے اپنی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔ ہم دونوں باسٹھ سال کے ہیں لیکن تم ستر سال کے لگ رہے ہو۔ رحمت علی نے قہقہہ لگایا۔ مشرا تم نے میری عمر غلط بتادی۔ گلاب جامن پیش کر دوں کیا۔ مشرا جی مذاق کے موڈ میں نہ آسکے۔ وہ سنجیدہ ہو گئے۔ رحمت علی نے بھانپ لیا کہ مشرا جی کو کچھ پتہ چل گیا ہے۔ پھر اس نے مشرا جی کو وہ سب کچھ سنا دیا جو ڈرائیور بتا چکا تھا۔ رحمت علی کی طرف ہمدردانہ نظر ڈالتے ہوئے مشرا جی نے پوچھا کہ دبئی سے واپس آکر اب وہ انجنیئر کیا کر رہا ہے۔ آسان کام کی تلاش کر رہا ہے۔ رحمت علی نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔ مشرا جی کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ سوال کیا کہ چھوٹا لڑکا کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ رحمت علی نے گویا سنا ہی نہیں اندر آواز لگائی۔ بیگم! کیا مشراجی کو میٹھا نہیں کھلاؤ گی۔ مشرا جی کا تجسس بڑھنے لگا۔ اندر بھابھی جی پونم جی کو کچن میں لے گئیں۔ پونم جی نے دیکھا کہ بھابھی نے ڈرائی فروٹس کی کھیر نہیں بنائی تھی۔ گلاب جامن بنا رکھے تھے۔ پونم جی وہ ڈرائینگ روم میں لے آئیں۔ مشرا جی کی نظر رحمت علی اور پونم جی سے ہوتی ہوئی گلاب جامن پر آکر رکی اور انہوں نے دو گلاب جامن کھالیے۔
مشرا جی نے رحمت علی کو گویا گھیرتے ہوئے چھوٹے لڑکے کے بارے میں پھر سے پوچھ لیا۔ رحمت علی کچھ دیرچپ رہا۔ پھر سنبھلا، پھر بولا۔ چھوٹے صاحب عشق میں گرفتار ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے کہ بدنامی ہوجاتی، ہم نے شادی کروا دی۔ مشرا جی غصے میں صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ کیا کیا لڑکے نے۔ کہاں ہے وہ میں اس کی خبر لیتا ہوں۔ پھر وہ بھی سنبھلے۔ اپنے آپ کو واپس صوفے پر گرا دیا۔ افسوس جتاتے ہوئے رحمت علی سے پوچھا کہ اب وہ کیا کرتا ہے۔ گزارہ کیسے ہورہا ہے اس کا۔
رحمت علی نے ایک کھوکھلا سا قہقہہ لگایا۔ مشرا چاچا! ابھی عاشق کے پچیس سال مکمل نہیں ہوئے ہیں۔ باپ کی کمائی کھا رہا ہے۔ مشرا جی تڑپ کر چیخ اٹھے۔ باپ کی کمائی یعنی باپ کا وظیفہ کھا رہا ہے؟
اس بار رحمت علی نے نظریں جھکائے جھکائے گمبھیر آواز میں کہا۔ ہاں مشرا! تنخواہ کی طرح وظیفہ بھی نہ میرے ہاتھ میں رکتا ہے اور نہ بیگم کے ہاتھوں کو چھوتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح بچوں میں بٹ جاتا ہے۔
***

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS