اجے ساہنی
جموں و کشمیر کے حالات مسلسل بہتر ہورہے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سال 2020 میں بین الاقوامی سرحد پار کرکے وادی میں گھسنے کی 99 کوششیں ہوئیں، جب کہ2019میں 216مرتبہ اس طرح کی دراندازی کی کوششیں کی گئی تھیں۔ اسی طرح دہشت گردانہ تشدد کے بھی 2019میں 594 واقعات کے مقابلہ 2020میں 244واقعات درج کیے گئے۔ پتھربازی بھی یہاں کم ہوئی ہے اور سال 2019 کے 2,000واقعات کے مقابلہ 2020 میں 327 مرتبہ ہی ایسا ہوا۔
ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان پھر سے سیزفائر کی شرائط پر واپس آگیا۔ بیشک یہ فیصلہ اس کی اعلیٰ قیادت کو کرنا ہے کہ وہ ان شرائط پر کتنا عمل کرے گی، کیوں کہ ان کے ارادے بدلتے ہی ایسے معاہدے ردی کے ٹکڑے بن جاتے ہیں، مگر سمجھا یہی جارہا ہے کہ امریکہ میں بائیڈن حکومت کی تاجپوشی، فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی کارروائی، اندرونی خستہ حالت اور خراب ہوتی مالی صحت کو دیکھتے ہوئے پاکستان ابھی کچھ وقت تک اس پر شاید عمل کرے گا۔ جموں و کشمیر بھی بلاشبہ اس سے متاثر ہوگا۔ یہاں کے کچھ علاقوں میں پرتشدد سرگرمیوں کے باوجود 1990کی دہائی یا 2006تک کے حالات سے اگر موازنہ کریں تو حالیہ برسوں میں وادی میں امن کا نظام قائم کرنے میں ہماری سکیورٹی فورسز کافی حد تک کامیاب رہی ہیں۔ یہ ٹرینڈ آگے بھی قائم رہ سکتا ہے۔
صف بندی کی سیاست نے وادی کو جموں سے علیحدہ کردیا۔ اس قسم کی سیاست یہاں کے لوگوں کو زخم دے رہی ہے، جس کا اُبال آنے والے دنوں میں نظر آسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پالیسیوں میں جو گڑبڑیاں پیدا کی گئی ہیں، ان میں بلاتاخیر اصلاح کی کوشش ہو۔ ہمیں دوراندیشانہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔ اگر ہم ایسا کرسکے تو یقینا آنے والے برسوں میں پرامن و خوشحال کشمیر کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔
پھر بھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سکیورٹی فورسز یہاں نت نئے چیلنجز سے دوچار ہورہی ہیں۔ میگنیٹک بم (مقناطیس کے سہارے بم کو گاڑیوں میں چسپاں کرنا اور پھر دھماکہ کرنا) ایسا ہی ایک نیا چیلنج ہے، جس کی کاٹ تلاش کی جارہی ہے۔ حالاں کہ متنازع علاقہ(Conflict zone) میں اس طرح کے خطرے ہمیشہ رہتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کو ان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا جاتا رہا ہے۔ ویسے بھی میگنیٹک بم لگانے کے لیے دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کے نزدیک آنا ہوگا جو قطعی آسان کام نہیں ہوگا۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ دہشت گردگروپوں کے پاس ایسے کتنے بم ہیں اور ان کی فائرپاور کتنی ہے؟ گزشتہ دنوں چھاپوں میں ایسے کچھ بم ضرور برآمد کیے گئے ہیں لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ دہشت گردوں نے اس بم میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے لیے نئی نئی تکنیک تلاش کرتے ہی رہتے ہیں اور سکیورٹی فورس بھی اس کے خلاف مؤثر قدم اٹھاتی رہی ہیں۔ کاربم، سائیکل یا موٹرسائیکل بم، ڈرون حملے جیسی تکنیکوں سے بخوبی لڑنا ہم نے سیکھا ہی ہے۔ لہٰذا میگنیٹک بم بھی شاید ہی بہت زیادہ مؤثر ہوسکیں گے۔
یہ امید اس لیے بھی ہے کیوں کہ وادی میں جتنی بھی دہشت گردانہ تنظیمیں ہیں، ان سب کی کمر تقریباً ٹوٹ چکی ہے۔ وہ ضلع سطح کا کمانڈر بھی اعلان کرتے ہیں تو ہفتہ نہیں تو مہینہ بھر میں وہ یا تو گرفتار کرلیا جاتا ہے یا سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو جموں و کشمیر اب پوری طرح سے سکیورٹی فورسز کے ماتحت ہے۔ یہاں ان کا کنٹرول قائم ہوچکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان کے آپریشن ’نیرولی ٹارگیٹ‘ ہونے لگے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اب پرانے دنوں کی طرح کسی دہشت گرد کی تلاش کے لیے پورے گاؤں کا محاصرہ کرکے گھر گھر تلاشی نہیں لی جاتی، بلکہ سکیورٹی فورسز کو یہ علم ہوتا ہے کہ کس مکان میں کتنی تعداد میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور وہ راست وہیں کامیاب کارروائی کرتی ہیں۔ اس میں مقامی لوگ سکیورٹی فورسز کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں۔ بغیر ان کی مدد و اطلاع کے اتنی سٹیک کارروائی ممکن بھی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صف بندی کی سیاست کو یہاں کا سب سے بڑا چیلنج سمجھنا چاہیے۔ فرقہ پرست سیاست میں دراصل ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے خلاف کھڑا کردیا جاتا ہے، جس سے فطری طور پر لوگوں میں عدم اعتماد کا جذبہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس سے معاشرتی ہم آہنگی ختم ہونے لگتی ہے۔ اگر یہ شک پھر سے وادی کے لوگوں میں گھر کرگیا تو بیشک وہ بندوق نہ اٹھائیں، لیکن ابھی کی طرح اطلاعات دینے سے کترا سکتے ہیں۔ اس سے سکیورٹی فورسز کو کافی نقصان ہوسکتا ہے۔ نتیجتاً یہاں پھر سے پرانے طریقہ سے فوجی آپریشن شروع ہوسکتے ہیں جو لوگوں کو کہیں زیادہ جذباتی چوٹ پہنچاتے تھے اور اس کا فائدہ دہشت گرد تنظیمیں اٹھا لیتی ہیں۔ نیرولی ٹارگیٹڈ آپریشن سے لوگوں میں سسٹم کے خلاف نسبتاً کم غصہ پیدا ہوتا ہے۔
قابل ذکر یہ بھی ہے کہ آرٹیکل 370ہٹانے سے قبل یہاں پتھربازی یا تشدد کے جتنے بھی واقعات ہوتے تھے، ان میں سے 55سے 65فیصد پانچ تحصیلوں میں ہی محدود ہوتے تھے۔تب یہاں 82تحصیلیں ہوا کرتی تھیں۔ اس کا یہ اشارہ ہے کہ وادی کے باقی حصوں میں لوگ دہشت گردی کے خلاف سخت تھے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ سرگرم طریقہ سے سکیورٹی فورسز کی مدد بھی کررہے ہوں۔ لہٰذا وہ صحیح وقت تھا کہ سیاسی دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے باقی لوگوں کے اعتماد کو جیتنے کی بھی کوشش کی جاتی۔ مگر صف بندی کی سیاست نے وادی کو جموں سے علیحدہ کردیا۔
اس قسم کی سیاست یہاں کے لوگوں کو زخم دے رہی ہے، جس کا اُبال آنے والے دنوں میں نظر آسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پالیسیوں میں جو گڑبڑیاں پیدا کی گئی ہیں، ان میں بلاتاخیر اصلاح کی کوشش ہو۔ ہمیں دوراندیشانہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔ اگر ہم ایسا کرسکے تو یقینا آنے والے برسوں میں پرامن و خوشحال کشمیر کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگار داخلی سلامتی کے ماہر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)