کے وکرم راؤ: چیتا پر بڑا پیار آتا ہے

0

کے وکرم راؤ

کیا منظر ہے! آج بہتر بسنت دیکھ چکے 14 ویں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سالگرہ پر سات دہائیوں بعد جارحانہ جانور چیتا کو بھارت میں دوبارہ بسا دیا۔ جنون کے ساتھ۔ وقت بھی ان کا، زمیں بھی انہیں کی۔ بڑا علامتی ہے۔ ٹھیک جیسے پلوامہ کا بدلہ لیا۔ بالا کوٹ پر بمباری کے ذریعے۔ رفتار چیتے جیسی، اقتدار میں، سماج میں بھی۔ انتخاب میں بھی۔ سمرقند سے سیدھے کنو نیشنل پارک آکر مودی نے تیمور کی سلطنت میں چین پاکستان کی ہم آہنگی دیکھی۔ تو راجپوتانہ کی زمین پر پہنچ کر شجاعت بھی دیکھا۔ ان کے وارثوں کو بھی آگاہ کردیا کہ وہ پاکستان اور چین سے سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ ان دونوں کے لیڈر تھے سمر قند میں۔
مگر یاد آتا ہے اسی دور کا دوسرا نظارہ۔ 60 سال پہلے۔ پہلے وزیر اعظم صرف پرندوں کے پریمی تھے، جانوروں میں کتا ان کا سب سے زیادہ پسندیدہ تھا جو ہمیشہ فرمانبردار ہی رہتا ہے۔ وہ، جواہر لعل نہرو، سفید کبوتر اڑاتے تھے۔ کبوتر امن کی علامت ہوتے ہیں مگر اس امن پسندی کا نتیجہ ملک نے کیا پایا؟ چین نے 38 ہزار مربع کلو میٹر زمین ہڑپ لی۔امن کا نوبل پانے کی حسرت لیے نہرو چل بسے۔
فی الحال چیتے کی واپسی ہی آج ایک واحد موضوع ہے۔ زمین پر سب سے زیادہ تیز دوڑنے والے (100کلو میٹر فی گھنٹہ)، اسپورٹس سپر کار سے بھی زیادہ رفتار والا، یہ چوپایہ پتلی ٹانگوں، ہلکا وزن، (72 کلو)، لمبی دم، گول سر، صراحی جیسی گردن، بدن پر کالی کالی لکیریں، آنسو نما آنکھیں جو دل کو پگھلا دیتی ہیں۔ شرمیلی آنکھیں جو دوربین سے بھی (پانچ کلو میٹر سے بھی) دور دیکھ سکتی ہیں۔ بس 20 سے 60 سیکنڈوں میں شکار پر قابض ہو جاتا ہے۔ اپنی قسم کا انوکھا ہے یہ۔ ایک معنی میں آدم زاد سے بہتر جوڑا ہوتا ہے چیتوں کا جوڑا! ملن کے بعدمادہ تو تنہائی پسند ہوجاتی ہے۔ نر چیتا سنجیدگی سے رہتا ہے۔ اس کی دیکھ بھال میں مصروف رہتا ہے۔ چیتا دہاڑ نہیں سکتا۔ بس گھر گھراتا ہے۔شکار کرتے وقت گلا دھیما ہوجاتا ہے مگر رفتار ویسے ہی تیز رہتی ہے صرف تین سیکنڈ میں رفتار پکڑلیتا ہے۔ شاید ہی کوئی پکڑ میں نہ آئے۔
چیتا جب بھارت میں ہوا کرتا تھا تو وہ پورے ملک میں تھا۔ پنجاب کے جنگلوں سے ترن لویلی (تمل ناڈو) تک پھیلا ہوا تھا۔ اتنا زمینی حصہ۔ کیونکہ جانور کا من پسند کھانا جنگل کے چارہ گاہ، ہری گھاس والے حصے پر چر رہے چیتل، ہرن، خرگوش وغیرہ سے بھرا علاقہ رہا۔
مگر چیتے کے کٹر دشمن بھی کئی ہیں۔ مثلاً تیندوا۔ شیر بھی۔ وہ چیتے پر بھاری پڑتے ہے۔ کنو (مدھیہ پردیش) نیشنل پارک میں تیندوے بہت ہیں۔ اس لیے بھی چیتے کے وجود پر ہی مصیبت ہے۔ کنو جنگل کے نزدیک مندسور کے گاندھی ساگر جنگلی جانوروں کے علاقوں میں ان چیتوں کو دوسرے پارک کی ضرورت ہوگی مگر شیر اور تیندوا اپنی زمین چھوڑیں گے نہیں۔ انہیں چنبل گھاٹی بہت پسندہے۔ ڈاکوئوں کی طرح ۔ تو منصوبہ بنانا ہوگا۔
ایک عجوبہ ہے۔ چیتے کے پنجے کمزور ہوتے ہیں۔ وہ انہیں موڑ نہیں سکتے۔ بند نہیں کرسکتے۔ پکڑ ڈھیلی ہو جاتی ہے۔ شکار اکثر چھوٹ جاتا ہے۔ اپنی موسی دہلی کی طرح پیڑ پر چڑھ بھی نہیں پاتا۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ سوا سو سال پہلے بھارت میں ایک لاکھ چیتے ہوتے تھے۔ بادشاہ اکبر کے پاس ایک ہزار تھے۔ 1952میں آخری تین چیتے بھی شکاریوں کی ہوس کے شکار بن گئے تھے۔ اس وقت شیر 360تھے۔ ’پروجیکٹ ٹائیگر‘کی وجہ سے انہیں تو بچا لیا گیا۔ آج وہ قریب تین ہزار ہیں۔ جنوبی افریقہ کا نمیبیا جمہوریہ جو جرمن سامراجیت کا نوآبادیات تھا ، دنیا کے بہترین جنگلی جانوروں کا پناہ گاہ ہے۔
چیتوں کی حال ہی میں بھارت آمد بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے، بھوشن رام کرشن گوئی(امراوتی) اور جسٹس سوریہ کانت (حصار) کی مشترکہ بنچ نے بہت غور کرکے چیتوں کے بھارت میں داخل کی اجازت دی تھی۔ مگر 2009 میںاسی اعلیٰ عدالت نے اس ایشو پر مفصل غور کی بات کہی تھی۔ تب مختلف طرح کے اعتراض ہوئے تھے۔ آخر کار 2009 میں پھر 2013 میں سنجیدہ غوروخوض ہوا۔ اس تجزیے سے کئی نتائج نکالے جا سکتے ہیں جو اہم ایشو ہے۔
حالانکہ پالتو چیتا 1952 تک بھارت میں دکھتا رہا۔ اس کے بعد کوئی زندہ نہیں ملا۔ مگر ممبئی میں چیتے کو دیکھنے کا موقع مجھے ملا تب مشہور پہلوان (ٹی وی شو رامائن کے ہنومان )دارا سنگھ رندھاوا اور ہنگری (مشرقی یوروپ) کے کنگ کانگ (ایمل جاجا) کی کشتی کی تجویز تھی۔ میں اس وقت جونیئر رپورٹر تھا، ’ٹائمس آف انڈیا‘کے کھیل محکمے میں۔ ایڈیٹر تھے کے این پربھوجن کی صلاحیت تھی کرکٹ رپورٹنگ میں۔ چونکہ تب میں اکیلا ہندی جاننے والا تھا، باقی رپورٹر ہندی سے نابلد جنوبی ہند سے تھے، تو ایڈیٹر نے مجھے دارا سنگھ رندھاوا کا انٹرویو کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ چرچ گیٹ پر واقع ہوٹل میں انٹرویو کے لیے پہنچا۔ وہیں کنگ کانگ بھی بیٹھے تھے۔ ان کے پاس ان کا پالتو چیتا زنجیر سے بندھا بیٹھا تھا۔ کنگ کانگ کو اسے پچکارتے دیکھا۔ مگر میں سہما سا تھا۔ آخر چیتا تو پرتشدد جانور تھا۔ آدمی کا گوشت تو سبھی کو ذائقہ دار لگتا ہے۔ دارا سنگھ سے میں نے گزارش کی کہ بغل والے کمرے میں چلیں۔ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے۔ وہ مانے نہیں۔ مگر پوری طرح میرے سوالوں کا جواب دیا۔ اس لیے کنو چیتا افزائش منصوبہ کامیاب ہونا چاہیے، کیونکہ شائقین اور سیاح کی قریب تین نسلیں بھارت کے چیتا کے نظارے سے ابھی تک محروم رہیں۔ انہیں بھی جنگلی جانور سے لطف تو ملے۔
یہاں اس واقعہ کا ذکر کردوں۔ تب عالمی رپورٹرس اجلاس ہرارے (زمباوے) میں ہوا تھا۔ میں آئی ایف ڈبلیو جے کا نمائندہ تھا۔ دہلی واپسی والے روٹ پر نیروبی (کینیا) رکا۔ وہاں سفاری پارک کافی بڑا ہے۔ چیتے کا جھنڈ دیکھنے کو ملا۔ تصور والا نظارہ تھا۔ پر وہ چیتے آنکھ ہی نہیں ملا رہے تھے۔ بادشاہت جو بھری تھی ان میں۔ مجھ میں رعایا ہونے کی احساس کمتری بھر گئی تھی۔ مگر چاہت رہی فوٹو کھنچوانے کی۔ ڈر بہت تھا، اور ہمت جٹائی۔ تجربہ ہیبت ناک تھا۔ یادگار بھی۔ کچھ برسوں بعد کنو نیشنل پارک بھی نیروبی ہی ہوگا۔ تصور کرتا ہوں۔ مودی کو سالگرہ مبارک، بھارت کو پیارا چیتا مبارک۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS