خواجہ عبدالمنتقم
اگر کسی شخص کو کوئی مضرت پہنچی ہو، اسے کوئی نقصان ہوا ہو یا اس کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کا یہ حق ہے کہ فریق ثانی اس کے نقصان کو پورا کرے اور اس کا جو حق تلف ہوا ہے وہ حق اس کو ملے۔ دراصل اسی کا نام انصاف ہے۔ انصاف اس طرح کیا جانا چاہیے کہ متاثر شخص کو اس بات کا مکمل اطمینان ہوجائے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے بھی ایک کتاب کی رسم اجراء کی تقریب میں اپنے خطاب کے دوران اپنی اس رائے کا اظہارکیا کہ اس اصول کو اس صورت میں ہی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے جب عوام کو عدلیہ کی کارروائی بچشم خود دیکھنے کا موقع ملے۔ان کے مطابق عدالتی کارروائی کو دیکھ کر ہی وہ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دوران سماعت ججز کا رویہ، روش اورطرز عمل کیساتھا اور یہ کہ عدالت کی چار دیواری میں کیا کچھ ہوا۔ انہوں نے قانونی صحافت کے عروج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ عوام تک صرف وہی پہنچتا ہے جو میڈیا ان تک پہنچاتا ہے۔ اس طرح وہ ججز اور عدلیہ کی کار کردگی اور عدالتی کارروائی کی شفافیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ہمارے ملک میں تو پہلے سے ہی تمام کارروائی ما سوائے کیمرہ کارروائی کے، کھلی عدالت میں ہی ہوتی ہے۔ لیکن جج موصوف اس کی عوام تک رسائی کو وسیع تر بنانے کے حق میں ہیں۔ ان کی یہ رائے بادی النظر میں تو منصفانہ اور مبنی بر اصول نصفت نظر آتی ہے لیکن کورٹ روم میں ضرورت سے زیادہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے جگہ کم پڑسکتی ہے اور نظم و نسق کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ چونکہ لوگوں میں قوت برداشت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، ایسی صورت میں عدالتی احاطہ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ مشاہدہ ورچوئل طریقہ سے بھی کرانے کا فیصلہ لیا جائے توبھی ہمارے ملک میں بیشتر لوگوں کو اس طرح کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو انھیں ان سے مستفیض ہونے کی تکنیکی جانکاری نہیں ہے۔
جج موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ جج کو کسی مقدمے کی سماعت شروع کرتے وقت تعصبات سے آزاد ہو کر ایک باضمیر عادل کا کردار نبھانے کی نیت کرنی چاہیے۔ان کی یہ رائے قابل قدر ہے اور یہ سپریم کورٹ کے ججز کے کردار کی بابت سپریم کورٹ کے والسما پال والے معاملے(AIR 1996 SC 1011) میں دیے گئے اس کلیدی اور مقبول عام فیصلہ کا اعادہ ہے جس کا بار بار عدالتی فیصلوں اور قانون کی کتابوں میں حوالہ دیا جاتا ہے۔اس معاملہ میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جج ایک ایسا قانون داں ہونا چاہیے، جو ایک لیجسلیٹر کی طرح دانشمند ہو، ایک تاریخ داں کی طرح سچائی کا متلاشی ہواور اس میں حال و مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت ہو تاکہ وہ کسی اثر و رسوخ کے بغیر میلان طبع یا جانبدارانہ فکر و عمل سے پہلو تہی کرتے ہوئے ایک معروضی اور غیر جانبدارانہ فیصلہ دے سکے۔
انصاف ملنا، انصاف کرنا یا انصاف دلانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انصاف بروقت ملنا چاہیے۔کسی جمہوری نظام میں کسی ملک کا آئین ہی عدل و انصاف کا سرچشمہ ہوتا ہے اور اس سرچشمہ سے پیدا ہونے والے قوانین کے تحت فیصلے دینا عدلیہ کا کام ہے اور ان کا نفاذ انتظامیہ کی ذمہ داری۔ یہی وجہ ہے کہ دادرسی یا عدل گستری کو مملکت کا اولین فرض قرار دیا گیا ہے اور یہ ذمہ داری اس وقت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے جب لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لینے لگیں، یہاں تک کہ وہ کام بھی جو سرکار کے کرنے کے ہوں وہ بھی لوگ خود کرنے لگیں،عوام بھارت رتن جیسے سرکاری اعزازات خود ہی دینے لگیں، عدالت عظمیٰ سے مجرم قرار دیے گئے سزا یافتہ مجرموں کی بے گناہی کے گیت گائے جانے لگیں، کسی مخصوص فرقے کی خواتین کی شبیہ خراب کی جانے لگے، لوگوں کی عبادت میں خلل ڈالا جانے لگے، کھان پان اور لباس پر طنز کیا جانے لگے، ’الف ‘اور ’ب‘ دو باریش افراد کو ایک نظر سے نہ دیکھا جائے، سڑکوں پر عوام فیصلہ کرنے لگیں اورطعنہ زنی و تشدد آمیز حرکتوں کے ذریعہ سزا بھی دینے لگیں، عدالتیں تشدد آمیز واقعات کی بابت تفتیش کو جانبدارانہ قرار دینے لگیں، کھاپ پنچایتیں مرکزی سرکار کو وارننگ دینے لگیںاور عدالتیں استغاثہ کی پیش کردہ دلائل میں جانبداری اور رکشکوں کے بھکشک ہونے اور ان کی خاموش سازش کی جانب اشارہ کرنے لگیں اور با شعورو سمجھدار لوگ، جن میں حکومت میں شامل افراد بھی شامل ہیں، ایسی نازیبا حرکات کی مذمت کرنے لگیں اور منصف بھی انصاف مانگنے لگیں(کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی) تو انصاف اور انصاف رسانی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے مگر یاد رہے کہ کوئی بھی صورت حال کتنی ہی واضح، پر یقین، نمایاں یا ہویدا کیوں نہ ہو مبینہ ملزم کو مجرم یا مبینہ قصور وار کو قصور وار قرار دینے سے قبل اس بات کو یقینی بنانااور ثابت کرنا ضروری ہے کہ جس شخص پر یہ الزام لگایا جارہا ہے، اس کی اس طرح کا جرم کرنے کی نیت، غرض یا منشا تھی بھی یا نہیں یا یہ کہ صرف اتفاقی طور پر ایسا ہو گیا چونکہ کسی جرم کے ارتکاب کو ثابت کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے کہ مرتکب کا دماغی یا ذہنی رجحان ایسا تھا جس کے سبب اس نے ایسا کیا۔ یہ فیصلہ کرنا عدلیہ اور صرف عدلیہ کا کام ہے نہ کہ کسی اور کا۔یہ فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوا کرتے۔
جب انصاف کی بات کی جائے تو اس کے ساتھ ساتھ انصاف میں تاخیر کی بات کرنا بھی ضروری ہے چونکہ انصاف میں تاخیر، کسی حد تک انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ بعض اوقات انصاف میں تاخیر سے انصاف پانے کی جو غرض ہے وہی باقی نہیں رہ جاتی۔ مثلاً اگر کوئی ضعیف شخص ایک چھوٹی سی کوٹھری میں رہتا ہے اور اس کے چار کمروں پر کرایہ دار قابض ہیں اور وہ شخص عدالت میں اپنے کرایہ داروں کے خلاف بے دخلی کا مقدمہ دائر کرتا ہے جس کا حتمی فیصلہ اس کی موت کے بعد ہوتا ہے تو اسے سراسر ناانصافی(Torture of Justice) ہی کہا جائے گا۔ اسی طرح کسی انتخابی مہم میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ووٹروں کو لبھانے لیے کوئی ایسا گمراہ کن غیر قانونی پروپیگنڈا کیا جائے اور اس سے فائدہ اٹھا کر الیکشن جیت لیا جائے اور اس غیر قانونی فعل کی بابت تعزیری کارروائی میں فیصلہ ا لیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد آئے اور چند نمائندوں کو نااہل بھی قرار دے دیا جائے اور انھیں اپنے عہدے سے دستبردار بھی ہونا پڑے تو بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انصاف بروقت مل گیا۔ جسے فائدہ اٹھانا تھا اس نے تو فائدہ اٹھ ہی لیا۔بہرحال ایسی صورت حال میں بھی یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ تاخیری انصاف بھی کسی حد تک مکمل نا انصافی سے تو بہتر ہی ہے۔
عدالتی انصاف بہت سے ذرائع پر مبنی ہوتا ہے مثلاً ملکی و غیر ملکی عدالتی نظیریں، رسم ورواج، بین الاقوامی قوانین و قرار دادیں اور سب سے بڑھ کر اصول نصفت۔اصل انصاف وہ ہے جس سے طالب انصاف کو احساس محرومی نہ ہو۔ ہار جیت تو ہوتی ہی ہے لیکن فریق متعلق کو یہ اطمینان ضرور ہونا چاہیے کہ اس کی بات عدالت نے پوری طرح سنی ہے اور تمام حقائق پرغور کرنے کے بعد قانونی نقطۂ نظر سے غیر جانبدارانہ فیصلہ دیا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
[email protected]