یہ بات تو ہمیشہ کہی اوربولی جاتی ہے کہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے۔لیکن لوگوں کوانصاف نہ ملے تو سماج پر اس کے کیا کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔یہ بات بہت کم بتائی یا کہی جاتی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک صحت مند جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ لوگ محسوس کریں کہ ان کے حقوق اوروقار کو تسلیم کیا گیا ہے اوران کوتحفظ فراہم ہے ۔ تنازعات کا جلد فیصلہ صحت مند جمہوریت کی پہچان ہے ۔سری نگر میں ہائی کورٹ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد انہوں نے اس پر افسوس کا اظہارکیا کہ ہندوستان میں انصاف کی فراہمی کا نظام بہت پیچیدہ اور مہنگاہے، ملک عدالتوں کو سہل وقابل رسائی بنانے میں بہت پیچھے ہے اور عدالتی ڈھانچے کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے، جبکہ عام آدمی ناخواندہ اورقانون سے ناواقف ہوتاہے پھر بھی ہمیشہ عدلیہ کو حقوق اورآزادی کا حتمی محافظ سمجھتاہے۔فریقین کا حال ایسا ہوتا ہے کہ وہ اکثربہت زیادہ نفسیاتی دبائو کا شکار ہوتے ہیں اورمالی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی تو انصاف تک رسائی کا آئینی نظریہ ناکام ہوجائے گا۔ شاید اسی لئے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ انصاف سے انکاریا انصاف نہ ملنا بالآخر انارکی اورانتشار کا باعث بنے گا اور امن تبھی قائم ہوگا جب لوگوں کے حقوق ووقار کاتحفظ ہوگا ۔
ملک میں عدلیہ کا جوحال ہے اورمقدمات کاانبار ہے ، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ ابھی 29اپریل کو سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی طرف سے ہائی کورٹوں کے چیف جسٹسوں کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا انعقاد کیا گیا تھا ، جس میں چیف جسٹس رمن نے بھی عدالتوں میں مقدمات کے انبارپر اظہارخیال کیاتھااور اٹارنی جنرل کے وینوگوپال نے یہاں تک کہا تھا کہ ٹرائل کورٹوں میں 4کروڑ مقدمات زیر التوا ہیں جو خطرے کی گھنٹی ہے ۔ٹرائل کورٹوں میں-30 30 سال اورہائی کورٹوں میں 10-15سال مقدمات زیرالتواہونے سے عدلیہ پر عوام کا بھروسہ کرنا مشکل ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ عدالتوں میں سالہا سال کسی نہ کسی وجہ سے مقدمات کی سماعت نہیں ہوتی، چاہے وہ فریقین میں کسی کی غیرحاضری یا تاریخ لینے کی وجہ سے ہو یا تفتیشی ایجنسیوں کی سست روی کی وجہ سے۔ مقدمات کی تاریخ پڑتی ہے لیکن سماعت نہیں ہوتی۔کسی مقدمہ کی سماعت مکمل بھی ہوگئی توفیصلہ محفوظ ہوجاتا ہے اورجلد نہیں سنایا جاتا۔اس طرح انصاف میں تاخیر ہوتی رہتی ہے اورلوگوں کو وقت پر انصاف نہیں مل پاتا، دیوانی مقدمات تو اتنا طول کھینچتے ہیں کہ عرضی گزاروں کی کئی پشتیں گزر جاتی ہیں مگر مقدمے ہیں کہ وہیں پڑے رہتے ہیں۔کتنے ایسے مقدمات ہوں گے جن کا فیصلہ آتے آتے یاتو ملزمین کی موت ہوگئی یا عرضی گزار کی ۔ظاہر سی بات ہے کہ ایسے فیصلے بے مقصد ہوکر رہ جاتے ہیں ۔متاثرین کو بھی انصاف نہیں مل پاتا اورایک طرح سے عدالتوں کے قیمتی اوقات اورسماعتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوپاتا۔ اسے المیہ کہیں یا کچھ اورلیکن اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ ملک کا عدالتی وقانونی نظام کچھ ایسا ہے کہ بروقت متاثرین کو انصاف نہیں مل پاتا اور بہت سے بے تحاشاخرچ کرنے کے باوجود انصاف سے محروم ہی نہیں رہ جاتے بلکہ دنیا سے بھی چلے جاتے ہیں ۔ایسے انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف ہے ۔
عرضی گزاروں یا انصاف کے طلبگاروں کو ملک میں سب سے زیادہ انصاف کی امید عدالتوں سے ہوتی ہے ۔جن کا دروازہ بڑی امیدوں کے ساتھ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ لیکن وہاں سے بھی انصاف کے بجائے مایوسی ملے تو ظاہر سی بات ہے لوگوں پر اس کے غلط اثرات مرتب ہوں گے ۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ انصاف کی فراہمی کا نظام آسان ہوتا ،وہاںتک ہرایک کی رسائی ممکن ہوتی اورکم خرچ ومحنت میں انصاف مل جاتا لیکن حال یہ ہے کہ نظام بہت پیچیدہ ، مہنگا ،خرچیلااورطویل ہے ، ان سب کے باوجود سب کیلئے وہاں تک رسائی اورانصاف کاحصول نہایت ہی مشکل ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کے انبار ، پیش رفت نہ ہونے اورباربار تاریخ پڑنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے تنازعات کے تصفیہ کے لئے عدالتوں کا رخ کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ جوش میں یا ہمت کرکے جولوگ عدالتوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ، وہ اس سے نکل نہیں پاتے،بس چکر ہی لگاتے رہتے ہیں۔کچھ تو مقدمات کے چکرمیں مالی طورپر برباد ہوجاتے ہیں اورملتاکچھ نہیں ہے ۔ظاہرسی بات ہے کہ یہ صورت حال کافی تشویش ناک اورتوجہ طلب ہے ۔اس پر سنجیدگی سے غورکرنے اوراس کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
[email protected]
عدالتی وقانونی نظام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS