معاشی بحران کا شکار ہوتے ترقی یافتہ ممالک

0

محمد عباس دھالیوال

آج کل دنیا کے بیشتر ممالک معاشی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی چھوڑیں، اکثر ترقی یافتہ ممالک کو بھی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں معاشیات پر آئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق چین کی معیشت کے بارے میں نئے خدشات سامنے آئے ہیں وہیں امریکہ میں شرح سود میں اضافے کے بعد وال اسٹریٹ کی اسٹاک مارکیٹ گزشتہ دنوں سال کی کم ترین سطح تک گر گئی تھی۔ دریں اثنا ایس این پی فائیو ہنڈریڈ انڈیکس گزشتہ پانچ ہفتے سے مسلسل گر رہا ہے اور اس میں دو اعشاریہ تین فیصد کی مزید کمی ہوگئی تھی۔ ادھر اس ضمن میں فنانشیل مارکیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ گرنے کا یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی کے عرصے کا سب سے طویل سلسلہ ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں ایک کھلبلی کا سا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں آئی یہ گراوٹ نہ صرف یوروپ اور ایشیا میں ہے بلکہ خام تیل کی پرانی معیشت سے لے کر بٹ کوائن کی نئی معیشت تک ،سب کی قدر میں کمی آئی ہے۔
عالمی سطح پر معیشت کی اس بحرانی کیفیت و تنزلی کے ضمن میں ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کی وبا اور پھر اس کے بعد روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت کی نمو میں کمی آئی ہے جو دنیا بھر میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے۔ ادھر مذکورہ ضمن میں ایک نیوز رپورٹ میں واشنگٹن میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ایک سابق عہدیدار ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ فنانشیل مارکیٹ کے دو بنیادی ٹولز بانڈس اور اسٹاک ہیں۔ جب سود کی شرح کم ہوتو لوگ اسٹاک میں پیسہ لگاتے ہیں لیکن اگر شرح سود میں اضافہ ہو جائے تو یہی لوگ اسٹاک سے پیسہ نکال کر بانڈس کی خریداری میں لگا دیتے ہیں جس سے اسٹاک مارکیٹ میں تنزلی آجاتی ہے۔ امریکہ میں حال ہی میں شرح سود میں اضافہ کیا گیاہے۔ دوسرے یہ کہ روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہونے کے نتیجے میں معاشی نمو متاثر ہوئی ہے جس کے چلتے سرمایہ کاروں نے اسٹاک سے پیسہ نکال کر اپنے سرمائے کو تحفظ دینے کے لیے بانڈس کی خریداری شروع کر دی ہے۔ ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ گزشتہ اور موجودہ مالی سال کی معاشی نمو کا موازنہ کیا جائے تو صورتحال اتنی بھی خراب نہیں۔ عالمی سطح پر معاشی نمو میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹ متاثر ہو رہی ہیں اور عالمی اقتصادیات سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب دنیا بھر کی حکومتوں نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں جس سے مہنگائی کنٹرول ہونا شروع ہوجائے گی لیکن معاشی نمو بھی متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر معاشی نمو میں کمی آئی ہے جس کے اثرات اسٹاک مارکیٹ پر واضح ہیں۔ پوری دنیا اس صورتحال سے دوچار ہے اور چین بھی اس میں شامل ہے۔ یہ غلط ہے کہ چین اس صورتحال سے متاثر نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس تصور کو بھی غلط قرار دیاکہ یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا اقتصادی طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجودہ صورتحال کب تک قائم رہے گی، اس کے بارے میں درست اندازہ لگانا مشکل ہے جبکہ اس ضمن میں مذکورہ حالات پر ٹوکیو، جاپان میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ریسرچ کے فیلو ڈاکٹر عبدالمجید ودود اختلاف رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ دنیا اس وقت جس معاشی بحران سے گزر رہی ہے، یہ وسائل کے مقابلے میں اخراجات بڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ وہ اس بات سے بھی اتفاق نہیں رکھتے کہ موجودہ کساد بازاری سے چین کی اقتصادی نمو متاثر ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی توجہ اپنی معیشت پر ہے اور اس حوالے سے وہ اپنے تمام وسائل اس کی نمو پر صرف کر رہا ہے جبکہ مغربی ممالک یوروپ، امریکہ اور جاپان کی ترجیح جنگ اور کورونا کی وبا سے نمٹنے پر ہے اور وہ اپنے وسائل اسی پر خرچ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں امکان یہی ہے کہ جنگ پر توجہ دینے والوں کی معیشت متاثر ہوگی اور چین کی معیشت فروغ پائے گی۔
ڈاکٹر عبدالمجید ودود کا کہنا ہے کہ یوروپ35 فیصد توانائی کی اپنی ضروریات روسی تیل سے پوری کرتا ہے۔ اگر یہ اچانک بند ہو جائے گی تو معیشت پر اثرات مرتب ہونا لازمی امر ہے اور یوروپ کو متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول میں ابھی برسوں لگیں گے، لہٰذا توقع نہیں کہ یہ معاشی بحران مستقبل قریب میں کم ہوسکے گا۔ اسی ضمن میں معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے ایک نیوز رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا کی وبا اور پھر یوکرین جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی ہے، ساتھ ہی حکومتیں کورونا کی وبا کے دوران اپنے لوگوں کی مدد نقد رقم سے کرتی رہی ہیں جس کے معیشت پر اثرات سامنے آرہے ہیں۔ اشیا کی سپلائی میں کمی آئی تو مہنگائی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ یہ صورتحال پوری دنیا میں ہے۔ بنگالی کا مزید کہنا ہے کہ عالمی معیشت کی بحالی کا انحصار جنگ اور کورونا کی وبا کے مکمل خاتمے پر ہے۔ ان کے مطابق جنگ نے عالمی معیشت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک بلاک سے دوسرے بلاک تک سپلائی میں خلل پڑ رہا ہے جس کے بعد یوروپ کو سپلائی چین بحال کرنے کے لیے نیا ڈھانچہ ترتیب دینا پڑ رہا ہے لیکن اس میں وقت لگے گا، اس لیے بحران سے ابھرنے میں انہیں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS